اعتکاف

مسجد میں ثواب کی نیت سے ٹھہرنا

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔

اعتکاف قرآن میں

پچھلی قوموں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی، اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:

  وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ    

ترجمہ

اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو[1]

اعتکاف حدیث میں

احادیث میں بھی اعتکاف کا ذکر موجود ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ہے:

سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے نے بیان کیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (بیویاں) بھی اعتکاف کرتی رہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔[2][3][4][5]

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

جس نے اللہ کی رضا کیلئے ایک دن کا اعتکاف کیا اللہ اس کے اور دوزخ کے درمیان مشرق سے مغرب جتنے فاصلے جتنے چوڑی تین چوڑی خندقیں کھود دے گا۔[6]

پس منظر

اللہ تعالٰیٰ کی قربت و رضا کے حصول کے لیے گذشتہ امتوں نے نفلی طور پر بعض ایسی ریاضتیں اپنے اوپر لازم کر لی تھیں، جو اللہ نے ان پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو ’’رہبان‘‘ اور ’’احبار‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ تاجدار کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تقرب الی اللہ کے لیے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی اُمت کے لیے اعلیٰ ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔

شرائط اعتکاف

اعتکاف کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مردوں کا اعتکاف مسجد میں ہی ہوتا ہے، البتہ خواتین کے لیے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ (یعنی مسجد البیت) کو بطور اعتکاف گاہ مختص کر لینا جائز ہے۔

ملا علی قاری لکھتے ہیں:

اعتکاف جماعت والی مسجد میں ہی درست ہے، یعنی ایسی مسجد جہاں لوگ باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں۔ شمنی نے کہا: جماعت والی مسجد اعتکاف کے لیے شرط ہے اور اس سے مراد ایسی مسجد ہے جہاں مؤذن اور امام مقرر ہو اور اس میں پانچ وقت کی نمازیں یا کچھ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہوں۔ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے: اعتکاف صرف ایسی جامع مسجد میں درست ہے جہاں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہوں اور یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔ علامہ ابن ہمام نے کہا: اس کو بعض مشائخ نے صحیح قرار دیا ہے۔ قاضی خان نے کہا: اور ایک روایت میں ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں ہی درست ہے اور یہی حدیث کا ظاہری معنی ہے۔ اور امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے کہ اعتکاف کسی بھی مسجد میں جائز ہے اور یہی قول امام مالک اور امام شافعی کا بھی ہے۔[7]

اعتکاف کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ معتکف 20 رمضان کی شام غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کے اندر پہنچ جائے۔

علامہ ابو الحسن سندھی لکھتے ہیں:

راوی کے قول ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اول وقت جس میں معتکف اعتکاف گاہ میں داخل ہوتا ہے وہ سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر قبل ہے اور اسی بات پر ائمہ اربعہ اور اہل علم کے ایک طبقہ کا اتفاق ہے، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے اور دس کا شمار راتوں کی گنتی کے اعتبار سے کیا ہے۔ پس اس میں (عشرۂ اخیرہ کی) پہلی رات بھی شامل ہے ورنہ یہ عدد بالکل پورا ہی نہیں ہوتا۔[8]

اقسامِ اعتکاف

فقہی اعتبار سے اعتکاف کی تین اقسام کی جاتی ہیں۔

واجب

اعتکاف کی نذر مانی یعنی زبان سے کہا میں اللہ کے لیے فلاں دن یا اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا، تو اب جتنے بھی دن کا کہا ہے اتنے دن اعتکاف کرنا واجب ہو گیا۔ رد المختار

مسنون

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے۔ اسے فقہی اعتبار سے سنت مؤکدہ علی الکفایہ کہا جاتا ہے۔ یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کر لیا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی گناہ گار ہوں گے۔ ان دنوں کا روزہ رکھنا بھی معتکف کے لیے شرط ہے، یعنی اگر کسی وجہ سے روزہ ٹوٹ گیا تو روزے کے علاوہ اعتکاف کی بھی قضاء لازم ہوگی۔

نفلی

نذر واجب اور سنت مؤکدہ کی شرائط سے ہٹ کر جو اعتکاف کیا جائے وہ نفلی اعتکاف کہلاتا ہے۔ اس کے لیے روزہ شرط اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔ جب بھی مسجد میں داخل ہوں اعتکاف کی نیت کر لیجئے، اعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا۔ جب مسجد سے باہر نکلیں گے تو اعتکاف ختم ہو جائے گا۔

ایام اعتکاف

دورانیہ کے اعتبار سے مسنون اعتکاف کی تین اقسام ہیں۔

دس دن

حضرت عبد اﷲ بن عمر سے روایت ہے: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے (دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔[9]

بیس دن

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے۔ لیکن جس سال آپ کا وصال ہوا اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔[10][11][12][13]

پورا مہینہ

صحابی ابوسعید خدری سے روایت ہے:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بار یکم رمضان تا بیس رمضان تک اعتکاف کرنے کے بعد فرمایا: میں نے شب قدر کی تلاش کے لیے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا، پھر اس کے بعد درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا، پھر مجھے بتایا گيا کہ شب قدر آخری عشرہ میں ہے۔ سو تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے، وہ کر لے۔[14]

اجتماعی اعتکاف

 
مسجد نبوی میں اجتماعی اعتکاف کا منظر

معتکف کے لیے نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اَذکار جیسی انفرادی عبادات تو متفقہ طور پر جائز ہیں اور ان میں کسی نوع کا اختلاف نہیں ہے۔ لیکن جمہور علما کرام نے دوسروں سے میل ملاپ والی اجتماعی نوعیت کی عبادات کو بھی انفرادی عبادات کی طرح مشروع اور بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے۔ فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں اجتماعی عبادات کے ساتھ ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، سلام کا جواب دینا، اِفتاء و اِرشاد، درس و تدریس، علما کا دینی امور میں مباحثہ اور درسِ قرآن و حدیث وغیرہ کو بھی شرعاً جائز قرار دیا گیا ہے۔ [15] [16] [17] [18] [19]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. القرآن، سورہ بقرہ، آیت 125
  2. أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد، جلد2 صفحہ713، حدیث نمبر 1922،
  3. مسلم في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الأواخر من رمضان، جلد 2 صفحہ831، حدیث نمبر 1172
  4. وأبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، جلد 2 صفحہ331، حدیث نمبر2462
  5. الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في الاعتکاف، وقال: حديث حسن صحيح، جلد 3 صفحہ157، حدیث نمبر790
  6. طبرانی، المعجم الاوسط، جلد 7، صفحہ 220، رقم حدیث 7326
  7. ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، جلد 4 صفحہ530.
  8. أبو الحسن سندھی، حاشيہ علی سنن النسائی، جلد2 صفحہ 44
  9. أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأواخر والاعتکاف في المساجد کلها، جلد2 صفحہ713، حدیث نمبر1921/أحمد بن حنبل في المسند، جلد2 صفحہ133، حدیث نمبر6127.
  10. البخاري في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الأوسط من رمضان، جلد2 صفحہ 719، حدیث1939
  11. أحمد بن حنبل في المسند، جلد2 صفحہ 355، حدیث8647
  12. أبو داود في السنن کتاب الصوم، باب أين يکون الاعتکاف، جلد2 صفحہ332، حدیث2466
  13. ابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في الاعتکاف، جلد1 صفحہ562،حدیث1769.
  14. صحیح مسلم، صفحہ 594، حدیث 1168
  15. ابن همام، فتح القدير،2 : 396
  16. 2. شافعي، الام، 2 : 105
  17. 3. نووی، المجموع، 6 : 528
  18. 4. ماوردى، الإقناع، 1 : 229
  19. 5. الفتاوی الهندية، 1 : 212