البلد قرآن مجید کی 90 ویں سورت ہے جس میں 20 آیات اور 1 رکوع ہے۔

البلد
الْبَلَدِ
البلد
دور نزولمکی
نام کے معنیشہر
زمانۂ نزولغالباً دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد
اعداد و شمار
عددِ سورت90
عددِ پارہ30
تعداد آیات20
الفاظ82
حروف320
گذشتہالفجر
آئندہالشمس

نام

پہلی ہی آیت لآ اقسم بھٰذا البلد کے لفظ البلد کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

اس کا مضمون اور انداز بیاں مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی سورتوں کا سا ہے، مگر ایک اشارہ اس میں ایسا موجود ہے جو پتہ دیتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ وہ تھا جب کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دشمنی پر تُل گئے تھے اور آپ کے خلاف ہر ظلم و زیادتی کو انھوں نے اپنے لیے حلال کر لیا تھا۔

موضوع اور مضمون

اس سورت میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے اور یہ قرآن کا کمال ایجاز ہے کہ ایک پورا نظریۂ حیات، جسے مشکل سے ایک ضخیم کتاب میں بیان کیا جا سکتا تھا، اس چھوٹی سی سورت کے چھوٹے چھوٹے فقروں میں نہایت مؤثر طریقے سے بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کا موضوع دنیا میں انسان کی اور انسان کے لیے دنیا کی صحیح حیثیت سمجھانا اور یہ بتانا ہے کہ خدا نے انسان کے لیے سعادت اور شقاوت کے دونوں راستے کھول کر رکھ دیے ہیں، ان کو دیکھنے اور ان پر چلنے کے وسائل بھی اسے فراہم کر کر دیے ہیں اور اب یہ انسان کی اپنی کوشش اور محنت پر موقوف ہے کہ وہ سعادت کی راہ پر چل کر اچھے انجام کو پہنچتا ہے یا شقاوت کی راہ اختیار کر کے برے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔

سب سے پہلے شہر مکہ اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر گزرنے والے مصائب اور پوری اولادِ آدم کی حالت کو اِس حقیقت پر گواہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے آرام گاہ نہیں ہے جس میں وہ مزے اڑانے کے لیے پیدا کیا گیا ہو، بلکہ یہاں اس کی پیدائش ہی مشقت کی حالت میں ہوئی ہے۔ اس مضمون کو اگر سورۂ نجم کی آیت 39 لیس للانسان الا ما سعٰی کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس کارگاہ دنیا میں انسان کے مستقبل کا انحصار اس کی سعی و کوشش اور محنت و مشقت پر ہے۔

اس کے بعد انسان کی یہ غلط فہمی دور کی گئی ہے کہ یہاں بس وہی وہ ہے اور اوپر کوئی بالاتر طاقت نہیں ہے جو اس کے کام کی نگرانی کرنے والی اور اس پر مواخذہ کرنے والی ہو۔

پھر انسان کے بہت سے جاہلانہ تصورات میں سے ایک چیز کو بطور مثال لے کر بتایا گیا ہے کہ دنیا میں اس نے بڑائی اور فضیلت کے کیسے غلط معیار تجویز کر رکھے ہیں۔ جو شخص اپنی کبریائی کی نمائش کے لیے ڈھیروں مال لٹاتا ہے وہ خود بھی اپنی اِن شاہ خرچیوں پر فخر کرتا ہے اور لوگ بھی اسے خوب داد دیتے ہیں، حالانکہ جو ہستی اس کے کام کی نگرانی کر رہی ہے وہ یہ دیکھتی ہے کہ اس نے یہ مال کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں میں کس نیت اور کن اغراض کے لیے خرچ کیا۔

اس کے بعد اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو علم کے ذرائع اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں دے کر اس کے سامنے بھلائی اور برائی کے دونوں راستے کھول کر رکھ دیے ہیں۔ ایک راستہ وہ ہے جو اخلاق کی پستیوں کی طرف جاتا ہے اور اس پر جانے کے لیے کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی بلکہ نفس کو خوب لذت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرا راستہ اخلاق کی بلندیوں کی طرف جاتا ہے جو ایک دشوار گزار گھاٹی کی طرح ہے کہ اس پر چلنے کے لیے آدمی کو اپنے نفس پر جبر کرنا پڑتا ہے۔ یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ اس گھاٹی پر چڑھنے کی بہ نسبت کھڈ میں لڑھکنے کو ترجیح دیتا ہے۔

پھر اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ وہ گھاٹی کیا ہے جس سے گذر کر آدمی بلندیوں کی طرف جا سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ریا اور فخر اور نمائش کے خرچ چھوڑ کر آدمی اپنا مال یتیموں اور مسکینوں کی مدد پر خرچ کرے، اللہ اور اس کے دین پر ایمان لائے اور ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں حصہ لے جو صبر کے ساتھ حق پرستی کے تقاضوں کو پورا کرنے والا اور خلق پر رحم کھانے والا ہو۔ اس راستے پر چلنے والوں کا انجام یہ ہے کہ آدمی اللہ کی رحمتوں کا مستحق ہو اور اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کرنے والوں کا انجام دوزخ کی آگ ہے جس سے نکلنے کے سارے دروازے بند ہیں۔