سورہ المرسلات

قرآن مجید کی 77 ویں سورت
(المرسلات سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 77 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 50 آیات ہیں۔

المرسلات
المرسلات
دور نزولمکی
اعداد و شمار
عددِ سورت77
عددِ پارہ29
تعداد آیات50
گذشتہالدہر
آئندہالنباء

نام

پہلی ہی آیت کے لفظ المرسلٰت کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

اس کا پورا مضمون یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کی دو سورتیں سورہ قیامہ اور سورہ دہر اور اس کے بعد کی دو سورتیں، سورہ نبا اور سورہ نازعات اگر ملا کر پڑھی جائیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی دور کی نازل شدہ سورتیں ہیں اور ایک ہی مضمون ہے جس کو ان میں مختلف پیرایوں سے اہل مکہ کے ذہن نشین کرایا گیا ہے۔

موضوع اور مضمون

اس کا موضوع قیامت اور آخرت کا اثبات اور ان نتائج سے لوگوں کو خبردار کرنا ہے جو ان حقائق کے انکار اور اقرار سے آخرکار برآمد ہوں گے۔

پہلی سات آیتوں میں ہواؤں کو انتظام کو اس حقیقت پر گواہ قرار دیا گیا ہے کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس قیامت کے آنے کی خبر دے رہے ہیں وہ ضرور واقع ہو کر رہے گی۔ ان میں استدلال یہ ہے جس قادر مطلق نے زمین پر یہ حیرت انگیز انتظام قائم کیا ہے اس کی قدرت قیامت برپا کرنے سے عاجز نہیں ہو سکتی اور جو صریح حکمت اس انتظام میں کارفرما نظر آ رہی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آخرت ضرور ہونی چاہیے، کیونکہ حکیم کا کوئی فعل عبث اور بے مقصد نہیں ہو سکتا اور آخرت نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہے کہ یہ سارا کارخانۂ ہستی سراسر فضول ہے۔

اہل مکہ بار بار کہتے تھے جس قیامت سے تم ہم کو ڈرا رہے ہو اسے لا کر دکھاؤ تب ہم اسے مانیں گے۔ آیت 8 سے 15 تک ان کے اس مطالبے کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ کوئی کھیل یا تماشا نہیں ہے کہ جب کوئی مسخرا اسے دکھانے کا مطالبہ کرے اسی وقت وہ فوراً دکھا دیا جائے۔ وہ تو تمام نوع انسانی اور اس کے تمام افراد کے مقدمے کے فیصلے کا دن ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالٰی نے ایک خاص وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اسی وقت پر وہ آئے گا اور جب آئے گا تو ایسی ہولناک شکل میں آئے گا کہ آج جو لوگ مذاق کے طور پر اس کا مطالبہ کر رہے ہیں اس وقت ان کے حواس باختہ ہو جائیں گے۔ اس وقت انہی رسولوں کی شہادتوں پر ان کے مقدمے کا فیصلہ ہوگا جن کی دی ہوئی خبر کو یہ منکرین آج بڑی بے باکی کے ساتھ جھٹلا رہے ہیں، پھر انھیں خود پتہ چل جائے گا کہ انھوں نے کس طرح خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کیا ہے۔

آیت 16 سے 28 تک مسلسل قیامت اور آخرت کے وقوع اور وجوب کے دلائل دیے گئے ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی اپنی تاریخ، اس کی اپنی پیدائش اور جس زمین پر وہ زندگی بسر کر رہا ہے اس کی اپنی ساخت اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ قیامت کا آنا اور عالم آخرت کا برپا ہونا ممکن بھی ہے اور اللہ تعالٰی کی حکمت کا تقاضا بھی۔ انسانی تاریخ بتا رہی ہے کہ جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا وہ آخرکار بگڑیں اور تباہی سے دوچار ہوئیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آخرت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی قوم کا رویہ اگر متصادم ہو تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو اس اندھے کا انجام ہوتا ہے جو سامنے آتی ہوئی گاڑی کے مقابلے میں بگ ٹٹ چلا جا رہا ہو اور اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کائنات کی سلطنت میں صرف قوانین طبیعی (Physical laws) ہی کارفرما نہیں ہیں بلکہ ایک قانون اخلاقی (Moral law) بھی کام کر رہا ہے جس کے تحت خود اس دنیا میں بھی مکافات عمل کا سلسلہ جاری ہے لیکن دنیا کی موجودگی زندگی میں یہ مکافات چونکہ اپنی کامل و مکمل صورت میں واقع نہیں ہو رہی ہے اس لیے کائنات کا اخلاقی قانون لازماً یہ تقاضا کرتا ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جب یہ بھرپور طریقے سے واقع ہو اور ان تمام بھلائیوں اور برائیوں کی پوری جزا و سزا دی جائے جو یہاں جزا سے محروم رہ گئی ہیں یا سزا سے بچ نکلی ہیں۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہو اور انسان کی پیدائش دنیا میں جس طرح ہوتی ہے اس پر اگر انسان غور کرے تو اس کی عقل –بشرطیکہ وہ سلیم ہو—اس بات کو ماننے سے انکار نہیں کر سکتی جس خدا نے ایک حقیر نطفہ سے ابتدا کر کے اسے پورا آدمی بنایا ہے اس کے لیے اسی آدمی کو پھر پیدا کر دینا یقیناً ممکن ہے۔ زندگی بھر انسان جس زمین پر رہتا ہے، مرنے کے اس کے اجزائے جسم کہیں غائب نہیں ہو جاتے، اسی زمین پر ان کا ایک ایک ذرہ موجود رہتا ہے۔ اسی زمین کے خزانوں سے وہ بنتا اور پھلتا پھولتا اور پرورش پاتا ہے اور پھر اسی زمین کے خزانوں میں واپس جمع ہو جاتا ہے۔ جس خدا نے اسے پہلے زمین کے ان خزانوں سے نکالا تھا وہی ان میں جمع ہوجانے کے بعد اسے پھر ان سے نکال لا سکتا ہے۔ اس کی قدرت پر غور کرو تو تم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے اور اس کی حکمت پر غور کرو تو تم اس سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ زمین پر جو اختیارات اس نے تمھیں دیے ہیں ان کے صحیح اور غلط استعمال کا حساب لینا یقیناً اس کی حکمت کا تقاضا ہے اور بلا حساب چھوڑ دینا سراسر حکمت کے خلاف ہے۔

اس کے بعد آیات 28 سے 40 تک آحرت کے منکرین کا اور 41 سے 45 تک ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جنھوں نے اس پر ایمان لا کر دنیا میں اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کی ہے اور عقائد و افکار، اخلاق و اعمال اور سیرت و کردار کی ان برائیوں سے اجتناب کیا ہے جو چاہے آدمی کی دنیا بناتی ہوں مگر اس کی عاقبت خراب کر دینے والی ہوں۔

آخرت میں منکرین آخرت اور خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں جو کچھ مزے اڑانے ہیں اڑا لو آخر کار تمھارا انجام سخت تباہ کن ہوگا اور بات اس پر ختم کی گئی ہے کہ اس قرآن سے بھی جو شخص ہدایت نہ پائے اسے پھر دنیا میں کوئی چیز ہدایت نہیں دے سکتی۔