المعتز باللہ (پیدائش: 847ء– وفات: جولائی/ اگست 869ء) خلافت عباسیہ کا تیرھواں خلیفہ تھا جس نے 865ء سے 869ء تک حکومت کی۔ معتز باللہ کو انتشار سامراء کے خلفائے عباسیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اُس کے مختصر ترین عہد حکومت میں شورشیں اور بغاوتیں عام رہیں۔ ترک امرا کی بے جا مداخلت کے سبب خلفاء کٹھ پتلی بن کر رہ چکے تھے، معتز بھی اِن میں سے ایک تھا۔ 869ء میں ترکوں نے اُسے قتل کر دیا۔

المعتز باللہ
خلیفۂ خلافت عباسیہ (تیرہواں)
معتز باللہ کے عہدِ خلافت میں ضرب کردہ طلائی دینار - (253ھ/ 867ء)
المہتدی باللہ
5 فروری 865ء11 جولائی 869ء
(مدتِ حکومت: 4 سال 5 ماہ 6 دن شمسی)
پیشروالمستعین باللہ
جانشینالمہتدی باللہ
ملکہفاطمہ خاتون بنت فتح ابن خاقان
خاندانخلافت عباسیہ
والدالمتوکل علی اللہ
والدہقبیحہ
پیدائش847ء
وفات16 جولائی 869ء (22 سال)
سامراء، عراق
تدفینبغداد، عراق
مذہبسنی اسلام

نام و نسب ترمیم

معتز کا نام محمد اور بقول دوسرے اقوال کے زبیر تھا۔ کنیت ابو عبد اللہ اور خطاب المعتز باللہ تھا۔ معتز کی والدہ فاطمہ خاتون بنت فتح ابن خاقان تھی جبکہ والد المتوکل علی اللہ خلیفہ عباسی تھا۔

پیدائش ترمیم

معتز کی پیدائش 232ھ/ 847ء میں سامراء میں ہوئی۔ اُس کی والدہ ایک رومیہ اُم ولد قبیحہ تھی۔[1] معتز کا قد دراز، بدن فربہ، خوبصورت بلند ناک، چہرہ گولائی میں ہنس مکھ، رنگت سفید سرخی مائل، گھنگریالے بال سیاہ، گھنی داڑھی، دونوں آنکھیں خوبصورت، بھنویں تنگ تھیں۔[2][3] خلفائے عباسیہ میں اِس قدر حسین خلیفہ کی مثال بعد میں نہیں ملتی۔[4][5] علی بن حرب محدث سے علم حدیث کی تحصیل کی۔ علی بن حرب کا قول ہے کہ: میں نے معتز سے زیادہ خوبصورت کوئی خلیفہ نہیں دیکھا۔[6]

عہد خلافت ترمیم

عباسی خانہ جنگی (865ء-866ء) کے دوران المستعین باللہ نے 5 فروری 865ء کو اپنی دستبرداری ظاہر کی اور معتز کو رِدائے خلافت و مہر خلافت سونپ دی۔ جمعہ کے خطبہ میں معتز کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔[7]

وزارت و نائب سلطنت ترمیم

252ھ میں جب معتز تخت نشیں ہوا تو اُسی سال اشناس ترکی فوت ہوا جسے الواثق باللہ نے نائب سلطنت بنایا تھا۔ اشناس ترکی کے ترکہ میں پچاس ہزار دینار تھے جسے معتز نے حکومتی مال میں جمع کر لیا۔ علی بن محمد بن عبد اللہ بن طاہر کو خلعت دے کر وزارت و نیابتِ سلطنت سے نوازا، دو تلواریں اُس کی کمر پر باندھی گئیں۔ کچھ مدت بعد اُسے بھی معزول کر دیا اور معتز نے اپنے بھائی ابو احمد کو نائب سلطنت بنایا، اُس کے سر پر چاندی کا تاج رکھا گیا اور جواہرات کا طرہ لگایا گیا اور دو تلواریں کمر سے باندھی گئیں۔ ابو احمد کو معزول کرنے کے بعد بغاء الصغیر الشرابی کو نائب سلطنت بنایا مگر اُس نے ایک سال بعد بغاوت کردی اور معتز کے حکم سے اُسے قتل کر دیا گیا، اُس کا سر سامراء اور بغداد میں سر عام لٹکایا گیا۔[6][8]

عہد خلافت کے متفرق واقعات ترمیم

252ھ ترمیم

253ھ ترمیم

254ھ ترمیم

255ھ ترمیم

وفات ترمیم

المہتدی باللہ کی بیعتِ خلافت کے پانچویں روز ترک امرا معتز کو پکڑ کر حمام میں لے گئے جہاں اُسے غسل کرایا گیا۔ اُس کو پیاس لگی تو پانی پینے کے لیے نہ دیا گیا اور وہاں سے نکلتے ہی اُس کو برف کا پانی پلا دیا گیا جس سے معتز کا دم نکل گیا۔ یہ واقعہ ہفتہ 2 شعبان 255ھ/ 16 جولائی 869ء کو پیش آیا۔[3] علامہ جلال الدین سیوطی نے یہ تاریخ 8 شعبان 255ھ لکھی ہے۔[8][19] معتز پہلا خلیفہ ہے جو تشنگی کی حالت میں فوت ہوا۔[20] المہتدی باللہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور قصر الصوامع کے پہلو میں معتز کو اُس کے اپنے بھائی المنتصر باللہ کے جوار میں دفن کیا گیا۔ اُس وقت عمر 24 سال تھی اور 4 سال 6 مہینے 23 دن عہدہ خلافت پر فائز رہا۔[3]

 
تاریخ الفی کا ایک مصوری آمیز صفحہ جس میں معتز باللہ عبد اللہ ابن عبد اللہ کے نام تحائف روانہ کر رہا ہے - غالباً 1592ء- 1594ء

اوصاف ترمیم

معتز ہر وقت عیش و نشاط میں مصروف رہتا۔ خوبیاں کم اور برائیاں زیادہ تھیں۔ فصیح، بلیغ اور زبان آور خطیب تھا۔ تدبیر و رائے میں نہایت بے بہرہ تھا۔ اُس کی والدہ قبیحہ اور دوسرے لوگ اُس کی طرف سے انتظامِ سلطنت کے معاملات سر انجام دیتے تھے جس کی وجہ سے ہر شخص تو اُمورِ مملکت میں تصرف حاصل ہوجاتا تھا اور معتز صرف دیکھتا رہتا تھا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مملکت میں تغلب و تصرف کا موقع لوگوں کے ہاتھوں میں زیادہ ہو گیا اور کا رہائے سلطنت میں معتز عوام الناس کی نظروں سے اُتر گیا۔ معتز نے اپنی سواری کے ساز کو خالص طلائی بنوایا تھا۔[21] معتز پہلا خلیفہ ہے جس نے گھوڑوں کو طلائی زیور پہنایا وگرنہ اِس سے قبل خلفاء گھوڑوں کو نقرئی زیور پہنا دیا کرتے تھے۔[6]

مزید دیکھیے ترمیم

المعتز باللہ
پیدائش: 847ء وفات: 16 جولائی 869ء
مناصب سنت
ماقبل  خلیفہ اسلام
5 فروری 865ء11 جولائی 869ء
مابعد 

حوالہ جات ترمیم

  1. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، ص 654، تذکرہ المعتز باللہ العباسی، مطبوعہ لاہور، 1997ء۔
  2. ابن جریر طبری: تاریخ طبری، جلد 7، ص 193۔
  3. ^ ا ب پ ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد 11، ص 50، تذکرہ تحت واقعات سنۃ 255ھ، مطبوعہ لاہور۔
  4. شاہ معین الدین احمد ندوی: تاریخ اسلام، تذکرہ خلافت معتز باللہ العباسی، ص 235۔ مطبوعہ لاہور، 2004ء۔
  5. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی: تاریخ ملت، جلد 2، ص 378۔ مطبوعہ لاہور، 1991ء۔
  6. ^ ا ب پ جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، ص 397۔ مطبوعہ لاہور
  7. ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد 11، ص 39، تذکرہ تحت واقعات سنۃ 252ھ، مطبوعہ لاہور۔
  8. ^ ا ب مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی: تاریخ ملت، جلد 2، ص 379۔ مطبوعہ لاہور، 1991ء۔
  9. ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد 11، ص 41، تذکرہ واقعات سنۃ 252ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  10. ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد 11، ص 46، تذکرہ واقعات سنۃ 253ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  11. ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد 11، ص 42/43، تذکرہ واقعات سنۃ 253ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  12. شاہ معین الدین احمد ندوی: تاریخ اسلام، تذکرہ خلافت معتز باللہ العباسی، ص 232/233۔ مطبوعہ لاہور، 2004ء۔
  13. ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد 11، ص 43، تذکرہ واقعات سنۃ 253ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  14. شاہ معین الدین احمد ندوی: تاریخ اسلام، تذکرہ خلافت معتز باللہ العباسی، ص 230/231۔ مطبوعہ لاہور، 2004ء۔
  15. ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد 11، ص 47، تذکرہ واقعات سنۃ 254ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  16. ابن جریر طبری: تاریخ طبری، جلد 7، ص 192۔
  17. ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد 11، ص 49، تذکرہ واقعات سنۃ 255ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  18. شاہ معین الدین احمد ندوی: تاریخ اسلام، تذکرہ خلافت معتز باللہ العباسی، ص 234/235۔ مطبوعہ لاہور، 2004ء۔
  19. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، ص 655، تذکرہ المعتز باللہ العباسی، مطبوعہ لاہور، 1997ء۔
  20. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، ص 398۔ مطبوعہ لاہور
  21. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی: تاریخ ملت، جلد 2، ص 380۔ مطبوعہ لاہور، 1991ء۔