المکتفی باللہ خلافت عباسیہ کا سترھواں خلیفہ تھا۔ وہ اُس زمانے میں خلیفہ بنا جب کہ خلافت عباسیہ اپنے عہدِ زوال سے گذر رہی تھی۔ ترکوں کی خودسری المعتصم باللہ کے زمانہ سے ہی بڑھ چکی تھی اور اُن کے ہاتھوں خلفاء کا تقرر ہوتا رہا۔ المکتفی باللہ بھی صرف چھ سال ہی خلافت کرسکا، اُسے موت نے مزید مہلت نہ دی اور وہ جواں عمری میں ہی 908ء میں فوت ہوا۔


ابو محمد علی بن المعتضد باللہ العباسی
المکتفی باللہ کا جاری کردہ سونے کا دینار
خلافت عباسیہ کا سترھواں خلیفہ
5 اپریل 902ء – 21 اگست908ء
پیشروالمعتضد باللہ
جانشینالمقتدر باللہ
نسلالمستکفی باللہ
والدالمعتضد باللہ
پیدائش24 دسمبر 877ء
وفات21 اگست 908ء (عمر 31 سال)
مذہبسنی اسلام

ولادت ترمیم

المکتفی باللہ عباسی کی ولادت 15 ربیع الثانی 264 ہجری مطابق 24 دسمبر 877ء کو بغداد میں ہوئی۔ اُس کی والدہ اُم ولد جیجک تھی جو نسلاً ترکی تھی۔[1][2] المکتفی باللہ کا حلیہ طبری نے یوں لکھا ہے کہ: " وہ متوسط اندام، خوش رنگ، خوبصورت بال اور سر پر زلفیں اور بھری ہوئی داڑھی تھی۔[2]

نام و کنیت ترمیم

المکتفی باللہ کی کنیت ابو محمد تھی۔ صولی نے کہا ہے کہ خلفاء میں اِس نام کا کوئی شخص سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قبل کوئی تیسرا نہ ہوا۔ اُن کے بعد اُن کے بیٹے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی کنیت بھی ابو محمد تھی اور المکتفی باللہ کی کنیت بھی ابو محمد تھی۔[1]

ولی عہدی اور خلافت - بحیثیت خلیفہ ترمیم

المکتفی باللہ کے باپ خلیفہ المعتضد باللہ نے اُسے اپنی زندگی میں ہی ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔ ماہِ ربیع الثانی 289 ہجری میں لوگوں نے عباسی خلیفہ المعتضد باللہ کی زندگی میں ہی اُس کی بیعت کرلی تھی۔ بحیثیت ولی عہد وہ شہر الرقہ میں رہا کرتا تھا۔[1] 5 اپریل 902ء کو عباسی خلیفہ المعتضد باللہ فوت ہوا تو المکتفی باللہ اُس وقت الرقہ میں ہی تھا۔ اُس کی غیر موجودگی میں بغداد میں عباسی وزیر ابو الحسن قاسم بن عبید اللہ نے المکتفی باللہ کے لیے لوگوں سے بیعت لے لی اور المکتفی باللہ کو اِس کی خبر کردی گئی۔ المعتضد باللہ کی وفات ہوئی تو عباسی وزیر القاسم بن عبید اللہ نے المکتفی باللہ کو اِس حادثہ کا عریضہ لکھ کر روانہ کر دیا۔ اُسے جب یہ خبر الرقہ میں پہنچی تو اُسے نے اُسی روز اپنے کاتب الحسین بن عمرو النصرانی کو جو لوگ لشکر میں تھے اُن سے بیعت لینے کی خاطر عطاء مقرر کر دیا۔ الحسین بن عمرو نے یہی کیا۔ المکتفی الرقہ سے روانہ ہوکر بغداد کی جانب نکلا۔ دیارِ ربیعہ اور دیارِ مضر میں اور مغرب کے علاقوں میں ایسے شخص کو روانہ کیا جو انھیں قابو میں رکھے تاکہ وہ خانہ جنگی نہ کرسکیں۔

بروز منگل 8 جمادی الثانی 289 ہجری مطابق 18 مئی 902ء کو المکتفی باللہ بغداد پہنچا اور دجلہ کے راستے کشتی میں سوار ہوکر شاہی محل پہنچا۔ شاہی محل قصر الحسنی میں داخل ہوا۔ وزیر القاسم بن عبید اللہ کو ابن عبید اللہ کے نام سے کنیت مقرر کی اور سات خلعتیں عطاء کیں۔ جس وقت المکتفی باللہ بغداد میں داخل ہوا تو شعرا نے مدح خوانی کی۔ اِس روز اہل بغداد نے بہت بڑا جشن منایا اور خلیفہ کے اِستقبال میں اِس قدر بھیڑ ہوئی کہ قاضی ابو عمر پل پر سے پانی میں گر گئے مگر انھیں صحیح و سالم اُٹھا لیا گیا۔ عباسی وزیر ابو الحسن قاسم بن عبید اللہ کو دربارِ خلافت سے سات خلعتیں عطاء ہوئیں، وہ اِس لیے کہ اُس نے خلیفہ کی غیر موجودگی میں اُس کی وفاداری کرتے ہوئے لوگوں سے فوراً المکتفی باللہ کے لیے بیعت لے لی تھی تاکہ بغداد میں کسی بھی قسم کی خانہ جنگی نہ ہو۔[3][4]

عہدخلافت کے واقعات ترمیم

المکتفی باللہ نے تخت نشینی کے بعد اول کام یہ کیا کہ اُن تمام نعمت خانوں کو جو اُس کے باپ المعتضد باللہ نے لوگوں کے گھر لے کر بنوائے تھے، اُن سب کو مسمار کروا دیا اور اُن کی جگہ مساجد تعمیر کروائیں۔ جو باغات اور دکانیں المعتضد باللہ نے لوگوں سے محل کی تعمیر کے دوران غصب کر لیے تھے، وہ باغات اور دکانیں اُن کے مالکوں کو واپس کردیے۔[5]

ماہِ رجب 289 ہجری مطابقجون 902ء میں بغداد میں عظیم زلزلہ آیا اور یہ متواتر کئی دن تک آتا رہا۔[4] بصرہ میں سخت آندھی آئی جس کے باعث درخت گر گئے، ایسی سخت آندھی بصرہ کی تاریخ میں اِس سے قبل نہیں آئی۔

289 ہجری مطابق 902ء میں یحییٰ بن زکرویہ قرمطی نے حکومت کے خلاف خروج کیا اور لشکر شاہی کے ساتھ بہت بڑا معرکہ ہوا۔ لڑائی نے طول کھینچا تو بالآخر 290 ہجری مطابق 903ء میں مارا گیا۔ بعد ازاں اُس کا بھائی حسین بن زکرویہ قرمطی خروج کو نکلا۔ گویا 290 ہجری میں تین ایسے فتنے نمودار ہوئے جو المکتفی باللہ کے عہدِ خلافت کے ابتدائی دنوں میں مشکلات بنے۔ حسین بن زکرویہ قرمطی نے اپنا لقب امیر المومنین مہدی رکھا، اُس کے چہرے پر ایک داغ تھا جسے وہ اپنی آمد یعنی آمد مہدی کی نشانی بتاتا تھا۔ اُس کے چچا کا بیٹا عیسیٰ بن مہرویہ نے اپنا لقب مدثر رکھا اور کہا اُس کا نام سورہ مدثر میں مذکور ہے۔ عیسیٰ بن مہرویہ نے اپنے غلام کا نام المطوق بالنور رکھا۔ اِن تینوں نے شام میں بھیڑیوں کی طرح اودھم مچائی۔ بالآخر عباسی سپہ سالار محمد بن سلیمان الکاتب نے اِن کے خلاف محاذ تیار کیا اور شکست فاش دی۔ 291 ہجری مطابق 904ء میں یہ تینوں قتل کردیے گئے۔[5]

4 جمادی الثانی 289 ہجری کو القاسم بن سیماء کو جزیرے کی سرحدوں پر گرمائی جہاد کے لیے مقرر کر دیا گیا اور اُسے بتیس لاکھ دِینار کا اِختیار دیا گیا۔[6] ماہِ ذو الحجہ 289 ہجری مطابق نومبر 902ء کو الفضل بن عبد الملک الہاشمی نے لوگوں کو حج کروایا۔[6]

9 ذو الحجہ 289 ہجری مطابق 13 نومبر 902ء کو لوگوں نے گرمی کے لباس میں عصر کی نماز پڑھی۔ مگر عصر کے وقت ہی شمالی آندھی آئی جس سے اِس قدر سردی بڑھ گئی کہ لوگوں کو سردی کی شدت کی وجہ سے آگ کی اور آگ سے تاپنے کی اور روئی دار کپڑوں اور جبوں کے پہننے کی حاجت ہوئی، سردی بڑھتی گئی یہاں تک کہ پانی جم گیا۔[6]

291 ہجری مطابق 904ء میں روم کا نواحی علاقہ انطالیہ فتح ہوا اور بیش بہا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ 293 ہجری مطابق 906ء میں دجلہ میں پانی 21 ہاتھ اوپر چڑھ آیا، اِس قدر طغیانی آئی کہ بغداد کا اکثر حصہ تباہ ہو گیا، ایسی طغیانی اِس سے قبل بغداد میں کبھی نہیں آئی تھی۔[7]

اواخر ماہِ جمادی الاول 291 ہجری مطابق اپریل 904ء کو جبی کے علاقہ میں سیلاب عظیم آیا۔ یہ سیلاب علاقہ جبی میں کسی وادی کے دامن کوہ سے ہوتا ہوا الجبل میں داخل ہو گیا اور اِس سے تقریباً تیس فرسخ علاقہ غرق آب ہوا جس میں مخلوق کثیر غرق ہوئی۔ مکانات اور دیہات ویران ہوئے۔ ڈوب جانے والوں میں سے بارہ سو افراد نکال لیے گئے مگر جو غرق ہوئے وہ اِس تعداد سے کہیں زیادہ تھے۔[8]

ماہِ شعبان 291 ہجری مطابق جون/جولائی904ء میں شاہِ روم نے دس صلیبیں جن کے ہمراہ ایک لاکھ آدمی تھے، سرحدوں کی جانب روانہ کیں۔ اُن کی ایک جماعت نے علاقہ الحدث کا قصد کیا، الحدث کو لوٹا، جن مسلمانوں پر قابو پایا انھیں قید کیا اور آگ لگا دی۔[8]

وفات ترمیم

صولی کہتے ہیں کہ میں نے المکتفی باللہ سے سنا، وہ اپنی بیماری کی حالت میں کہتا تھا کہ: " واللہ مجھے اُن سات سو دِیناروں کا بہت ہی بڑا خوف ہے جو میں نے اپنے خرچ میں لگائے تھے، حالانکہ میں یہ جانتا تھا کہ یہ مسلمانوں کا مال ہے اور مجھے اِن کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ مجھے خوف ہے کہ کل قیامت میں خداواند تعالیٰ اُن کے متعلق سوال نہ کر لے۔ میں اِس غلطی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگتا ہوں۔ " [9] المکتفی باللہ نے عین عہد شباب میں اتوار کی شب 22 ذیقعد 295 ہجری مطابق 21 اگست 908ء کو بغداد میں اِنتقال کیا۔ اُس وقت اُس کی عمر محض 31 سال تھی۔ اُس نے وارثوں میں آٹھ لڑکے اور آٹھ لڑکیاں چھوڑیں۔[2][9]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 411 طبع لاہور۔
  2. ^ ا ب پ طبری: تاریخ الرسول والملوک، جلد 7، حصہ دوم، صفحہ 256، طبع لاہور ۔
  3. سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 412/411 طبع لاہور۔
  4. ^ ا ب طبری: تاریخ الرسول والملوک، جلد 7، حصہ دوم، صفحہ 217، طبع لاہور
  5. ^ ا ب سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 412 طبع لاہور۔
  6. ^ ا ب پ طبری: تاریخ الرسول والملوک، جلد 7، حصہ دوم، صفحہ 223، طبع لاہور ۔
  7. سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ413/412 طبع لاہور۔
  8. ^ ا ب طبری: تاریخ الرسول والملوک، جلد 7، حصہ دوم، صفحہ 240، طبع لاہور ۔
  9. ^ ا ب سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 413 طبع لاہور۔
المکتفی باللہ
پیدائش: 24 دسمبر 877ء وفات: 21 اگست 908ء
مناصب سنت
ماقبل  خلیفۃ الاسلام
5 اپریل 902ء – 21 اگست908ء
مابعد