الناصر لدین اللہ

خلافت عباسیہ کا 34واں خلیفہ


الناصر لدین اللہ (پیدائش: 6 اگست 1158ء5 اکتوبر 1225ء) خلافت عباسیہ کا چونتیسواں خلیفہ، جس کا عہدِ خلافت 575ھ سے 622ھ تک محیط تھا۔ الناصر لدین اللہ خلافت عباسیہ کا وہ واحد حکمران خلیفہ ہے جس کا عہد حکومت ایک طویل عرصہ یعنی تقریباً 47 قمری سال تک قائم رہا۔ اِس طویل عہد حکومت میں اسلامی حکومت کا دائرہ اِقتدار دوبارہ بلاد عراق و شام سے نکل کر ہندوستان اور مغرب یعنی مراکش تک قائم ہو گیا۔ الناصر کے زمانہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا عہد حکومت بہت اہم ہے جبکہ اِسی زمانہ میں ہندوستان میں باقاعدہ طور پر خاندان غلاماں دہلی کی حکومت منظم انداز میں قائم ہو گئی جسے خلافت عباسیہ کی جانب سے سرکاری سرپرستی بھی حاصل رہی۔ وہ المعتصم باللہ کے بعد پُرہیبت و جلال زدہ خلیفہ واقع ہوا جس کی ہیبت سے امرائے حکومت و وزرا اور سلاطین تک لرزہ براندام رہتے۔ الناصر کے عہد حکومت میں دوبارہ خلافت عباسیہ کی شان و شوکت قائم ہو گئی حتیٰ کہ 581ھ میں دوبارہ بلاد مغرب (مراکش) میں اُس کے نام کا خطبہ جاری ہوا۔ ناصر کا زمانہ روشن جبیں اور طرہ تاج فخر تھا۔[2] خلیفہ ناصر کے عہد خلافت میں دنیائے اسلام میں دو اہم ترین واقعات رُونما ہوئے، اول تو 589ھ/ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں سے چھڑوایا اور 1189ء تا 1192ء تک تیسری صلیبی جنگ جاری رہی۔ دوم یہ کہ ناصر کے زمانہ میں تاتاریوں کا عظیم طوفان اُٹھا جس نے دنیائے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا اور کئی مسلم سلطنتیں اِن کے حملوں سے ختم ہوگئیں۔

الناصر لدین اللہ
(عربی میں: أبو العباس أحمد الناصر لدين الله ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 6 اگست 1158ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 5 اکتوبر 1225ء (67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ سلجوقی خاتون  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ظاہر باللہ بن ناصر الدین  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد المستضی بامر اللہ  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان خلیفہ خلافت عباسیہ (بغداد)  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
عباسی خلیفہ (34 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
28 مارچ 1180  – 5 اکتوبر 1225 
المستضی بامر اللہ 
ظاہر باللہ بن ناصر الدین 
عملی زندگی
پیشہ مصنف،  سیاست دان،  گورنر،  خلیفہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

نام و لقب

الناصر لدین اللہ کا نام احمد، کنیت ابو العباس اور خطاب ناصر لدین اللہ ہے۔[3][4] اِس کا معنی  ہے : فتح و نصرت اللہ کے دین کے لیے وقف۔

نسب

خلیفہ ناصر کا نسب 22 پشتوں سے ہوتا ہوا پیغمبر اسلام رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے۔ خلیفہ الناصر لدین اللہ کا شجرہ نسب یوں ہے :

ابوالعباس احمد بن المستضی بامر اللہ بن المستنجد باللہ بن المقتفی لامر اللہ بن المستظہر باللہ بن المقتدی بامر باللہ بن ذخیرۃ الدین محمد بن القائم بامر اللہ بن القادر باللہ بن المتقی باللہ بن المقتدر باللہ بن المعتضد باللہ بن الموفق باللہ بن المتوکل علی اللہ بن المعتصم باللہ بن ہارون الرشید بن المہدی باللہ بن ابو جعفر المنصور بن محمد ابن علی ابن عبداللہ بن علی ابن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ابن عباس بن عبد المطلب ابن عبدالمطلب الہاشمی العباسی البغدادی۔[5][6]

ولادت

ناصر لدین اللہ کی ولادت بروز چہارشنبہ 10 رجب 553ھ مطابق 6 اگست 1158ء کو بغداد میں ہوئی۔[7] ناصر کی والدہ زمرد خاتون ہے جو ترکی ام ولد تھی۔[6] زمرد خاتون کی وفات 599ھ/ 1203ء میں ہوئی، وہ ناصر کی خلافت کے ابتدائی 24 سال تک زندہ رہی۔[8] ناصر کے والد خلیفہ عباسی المستضی باللہ ہیں۔[9][10] ناصر کی ولادت اُس کے پردادا المقتفی لامر اللہ کے عہد حکومت کے 23 ویں سال میں ہوئی تھی۔ نہایت خوش خلق، خوبصورت چہرہ، ہاتھ پاؤں کا مضبوط، فصیح اللسان، بلیغ البیان تھا۔[11] رنگت سفید و سرخی مائل، میانہ قامت، شکل و صورت میں ترکی شباہت غالب، خوبصورت آنکھیں، روشن جبیں،ناک اُبھری و ستواں اور رخساروں پر گوشت کم تھا۔[12][13] ناصر کی انگوٹھی کا نقش رجائی من اللہ عفوہ تھا۔[12]

تعلیم و تربیت

ناصر کی تعلیم و تربیت شاہانہ اطوار میں ہوئی۔  علمائے عصر سے اُس نے علوم کی تحصیل کی۔[3] ناصر کے عہد حکومت میں بغداد فضل و کمالات اور علوم و فنون کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اُس کے عہد میں علمائے کبار ائمہ و محدثین بقیدِ حیات تھے۔ اُس زمانہ میں شیخ الشیوخ علامہ شہاب الدین سہروردی، علامی مرغینانی صاحب الہدایہ، قاضی خان صاحب الفتویٰ، ابو الفرج ابن جوزی، عماد کاتب، امام مفسر فخر الدین الرازی صاحب التفسیر، شیخ الاسلام نجم الدین کبریٰ، علامہ فخر الدین ابن عساکر، ابو القاسم البخاری العثمانی صاحب الجامع الکبیر جیسے نامور علما ناصر کے ہمعصر تھے۔[14] علمی اعتبار سے ناصر عالم و فاضل تھا۔ دینی علوم میں وہ حدیث نبوی میں خاص ذوق رکھتا تھا۔ بہت سے علما، سلاطین اور عمائدین کو قرات و حدیث کی روایت کی اجازت دے دی تھی اور باقاعدہ علما کے واسطے وظائف بھی مقرر کر رکھے تھے۔[12] لوگ شرفِ نسبت کے لیے فخریہ طور پر ناصر سے حدیث روایت کرتے تھے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیا تھا جو باشندگانِ حلب کو بھی پہنچایا گیا۔[15] ناصر علم حدیث کا حد درجہ شوق رکھتا تھا اور محدث ابن جوزی (متوفی 597ھ)سے اکثر درس اور واعظ سنا کرتا اور دورانِ گفتگو سوالات بھی پوچھ لیا کرتا۔ محدثین عظام کی بہت خاطرداری کیا کرتا اور اُن سے نہایت عزت و احترام سے پیش آتا۔ الموفق عبد اللطیف کا بیان ہے کہ اِسے درمیان زمانہ خلافت میں تحصیل علم الحدیث کا شوق پیدا ہوا اور اُس نے دور دور سے محدثین عظام کو بلوا کر حدیث سنی اور اُن سے روایت کی اجازت حاصل کی۔ خلیفہ ناصر کے زمانہ میں ہی لوگ اُس سے حدیث روایت کرنے کی اجازت حاصل کرنے لگے تھے۔ اکثر بادشاہوں اور سلاطین اور علما نے ناصر سے روایت کی اجازت حاصل کی۔ خلیفہ ناصر نے ایک کتاب میں 70 احادیث جمع کرکے حلب شہر بھیج دیا جہاں کے علما اور لوگوں نے اُسے بکثرت خوب سنا۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ ناصر نے بہت سے اعیان علما کو حدیث کی روایت میں اجازت دے دی تھی جن میں ہم عصر علما شامل ہیں۔[16][17] ناصرفصیح اللسان، بلیغ البیان تھا، اُس کے کلمات علم الادب میں بہت اچھا ذخیرہ ہیں۔[11] ابن نجار کا بیان ہے کہ ناصر سے روایت حدیث کا شرف حاصل کرنے والوں نے حرمین شریفین، دمشق، بیت المقدس، حلب، بغداد، اصفہان، نیشاپور، مرو، ہمدان میں حدیث روایت کی۔[18] علامہ ابن جوزی نے المنتظم میں لکھا ہے کہ اُس نے اپنی کنیز کو اپنی تحریر کے خط کی مشق کروا رکھی تھی جو بالکل خلیفہ ناصر کے خطِ تحریر کے موافق لکھا کرتی تھی اور اُس سے ناصر احکام لکھوایا کرتا، کسی کو یہ شناخت نہیں ہوتی تھی کہ یہ خلیفہ کا لکھا ہوا کے نہیں؟ [19]

تخت نشینی

بروز جمعہ 29 شوال 575ھ مطابق 28 مارچ 1180ءکو عباسی خلیفہ المستضی باللہ نے وفات پائی۔ المستضی باللہ کی اولاد میں صرف ناصر بقیدِ حیات تھا اِس لیے وہ تخت نشین ہوا۔ بروز اتوار 2 ذیقعد 575ھ مطابق 30 مارچ 1180ء کو ناصر بغداد میں تخت نشیں ہوا۔[3][20] اُس وقت ناصر کی عمر 21 سال 7 ماہ 24 دن بلحاظِ شمسی اور 22 سال 3 ماہ 22 دن بلحاظِ قمری تھی۔

ابتدائی حکومتی اقدامات اور وزرائے ناصر لدین اللہ

عنانِ خلافت ہاتھ میں لیتے ہی ناصر نے 7 ذیقعد 575ھ/ 3 اپریل 1180ء کو خزانچی وزیر ظہیر الدین ابوبکر بن العطار کو معزول کر دیا اور اُس کے ساتھیوں کی اہانت کی گئی اور اُس کے حلقہ کے بہت سے افراد کو قتل کر دیا گیا اور شہر میں تشہیر کی گئی۔[21][22] مجد الدین ابوالفضل بن صاحب وزیر استاد کو عہدہ وزارت پر مامور کیا۔ کچھ عرصہ بعد ناصر نے نظامِ حکومت اُس کے ہاتھوں سے کر اُسے معطل کر دیا اور سنہ 583ھ/ 1187ء میں اُسے قتل کروا دیا گیا اور زمامِ حکومت ناصر کے ہاتھوں میں آگئی۔[23] مجد الدین ابوالفضل کو معطل کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اُس کے ہوتے ہوئے دربارِ خلافت کے احکام پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا۔ اُس کی ثروت و مالداری خزانہ شاہی کے مقابلہ میں بہت بڑھ چکی تھی۔ مجد الدین ابوالفضل کے قتل کے بعد عبید اللہ بن یونس ابوالظفر کو عہدہ وزارت پر فائز کیا گیا اور اُسے جلال الدین کا لقب دیا گیا۔ یہ وزیر صاحبِ جلال اور باعظمت تھا۔ اُس کے دربار میں تمام امرا حتیٰ کہ قاضی القضاۃ بھی دربارداری کیا کرتے تھے۔[24]

ممالک محروسہ میں بیعت کے لیے قاصد روانہ کیے۔ صدر الدین شیخ الشیوخ کو محمد بن بہلوان والی ہمدان و اصفہان و رے کے پاس بھیجا۔ سب نے آخرکار بیعت کرلی۔ 582ھ/ 1186ء میں بہلوان والی ہمدان و اصفہان و رے کی وفات کے بعد اُس کا بھائی کزل ارسلان ملقب بہ عثمان حکمران ہو گیا۔ طغرل عثمان کی نگرانی میں تھا، سو وہ نگرانی سے بھاگ نکلا اور امرا اور اراکین کو اپنے ساتھ ملا لیا اور عثمان پر حملہ آور ہوا۔ عثمان نے اپنا سفیر دربارِ خلافت بھیجا۔ طغرل نے بھی چند شہر قبضہ میں کرکے سفیر دربارِ خلافت بھیج دیا اور دار السلطنت کی تعمیر میں اجازت چاہی۔ اِس سے پیشتر سلاطین سلجوقیہ کی حکومت کا بہت حد تک عمل دخل اور اثر و رسوخ بغداد میں جاری رہا تھا، مگر المقتضی لامر اللہ نے سلاطین سلجوقیہ سے اِس تعلق کو منقطع کر دیا تھا، اِس لیے داراسلطنت بغداد بے مرمت ہو گیا مگر اب ناصر نے کزل ارسلان عثمان کے سفیر کو باریابی بخشی اور عزت و توقیر کی اور معاونت کا وعدہ کیا اور طغرل کے سفیر کو بغیر کسی جواب کے واپس بھیجا۔ ان سفیروں کی واپسی کے بعد ناصر نے سلاطین سلجوقیہ کے دار السلطنت کے انہدام کا حکم جاری کیا جس پر نہایت تیزی سے علمدرآمد کیا گیا۔ ماہِ صفر 584ھ/ اپریل 1188ء میں دربارِ خلافت سے وزیر السلطنت جلال الدین ابوالمظفر عبید اللہ بن یونس ایک لشکر عظیم لے کر کزل عثمان ارسلان کی کمک کو روانہ ہوا۔ ہمدان میں کزل عثمان کے اجتماع سے پیشتر طغرل سے مقابلہ ہوا۔ میدانِ جنگ طغرل کے ہاتھ رہا، لشکر بھاگ کھڑا ہوا۔ وزیر السلطنت گرفتار ہو گیا۔ اِس کے بعد ہی کزل عثمان نے طغرل کو آ لیا اور فتح نصیب ہوئی۔ کزل عثمان نے طغرل کو گرفتار کرکے قلعہ میں نظربند کر دیا۔ کزل عثمان استحکام و اِستقلال کے ساتھ کل صوبہ جات سلطنت پت حکومت کرنے لگا۔ 585ھ/ 1189ء میں طغرل سوتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ اور سلطنت سلجوقیہ کا آخری بادشاہ بھی دنیا میں بغیر کسی وارث کے رخصت ہوا (علامہ ابن خلدون نے مکمل تفصیل بیان کردی ہے مگر یہاں تلخیص بیان کی گئی ہے)۔[25]

جلال الدین ابوالمظفر عبید اللہ بن یونس کو گرفتار کر لیا گیا اور اُس کے بعد موید الدین ابو عبد اللہ محمد بن علی ملقب بہ ابن قصاب کو عہدہ وزارت پر فائز کیا گیا اور صوبہ جوزستان کی سندِ حکومت عطاء کی گئی۔ 591ھ/ 1195ء میں شملہ والی خوزستان فوت ہوا تو وزیر موید الدین دار السلطنت جا پہنچا۔ تستر پر قبضہ کرکے خوزستان اپنے قبضہ میں لایا۔ ملوک بنی شملہ کو گرفتار کر لیا گیا اور بغداد روانہ کیا گیا۔ طاش ابن تکین کو انتظاماً والی خوزستان مقرر کیا گیا۔ خوزستان کی مہم سر کرنے کے بعد موید الدین رے کی جانب بڑھا، اولاً ہمدان پر قابض ہوا اور اِس کے بعد خوارزم شاہ کی طرف توجہ دی۔ خوارزم شاہ مقابلہ سے بھاگتا رہا حتیٰ کہ وہ رے چلا گیا اور موید الدین جرجان تک جاپہنچا اور رے پر تسلط قائم کر لیا۔ ماہِ شعبان 592ھ/ جولائی 1196ء میں وزیر السلطنت موید الدین کا انتقال ہو گیا۔ موید الدین کی موت کے بعد خوارزم شاہ نے دوبارہ رے پر قبضہ کر لیا اور اصفہان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا مگر باشندگان اصفہان میں سے ایک امیر صدر الدین خجندی رئیس شافعیہ نے دربارِ خلافت کو لکھا کہ ہم آپ کے زیر حمایت آنا چاہتے ہیں۔ خلیفہ ناصر نے سیف الدین طغرل جاگیردار بلادِ نجف کو روانہ کیا اور سیف الدین نے اصفہان پر قبضہ کر لیا اور خاطر خواہ انتطامات کیے۔ اِس کے بعد زنجان اور قزوین بھی عباسی دائرہ عملداری میں آ گئے۔ ملک فارس کا تین تہائی سے زائد کا رقبہ دوبارہ خلافت عباسیہ میں شامل ہو گیا۔[26]

سید نصیر الدین الناصر بن مہدی العلوی الرازی

یہ اصلاً ماژندرانی ہے۔ ماژندران میں پیدا ہوا۔ نشوونماء رے شہر میں اور دین کی تحصیل بغداد میں کی اور وفات بھی بغداد میں ہی ہوئی۔ یہ بڑا کامیاب فاضل اور سربرآوردہ شخص تھا اور اِسے اِمتیازِ خاص حاصل تھا۔ علم و ادب کا بچپن ہی سے شیدا تھا اور اِس کا معقول حصہ حاصل کر لیا۔ پھر دفاتر کے معاملات میں بصیرت حاصل کی اور بازی لیتا گیا۔ ابتداً عز الدین مرتضیٰ قمی جو پورے بلادِ عجم کا نقیب تھا کا نائب تھا۔ اِس نے اِسی نقیب سے حکمرانی کے اُصول سیکھے۔ عز الدین نقیب بڑا باعزت اور عالم باعظمت قائد تھا۔ جب علاؤ الدین خوارزم شاہ نے اُسے قتل کر دیا تو اِس کا فرزند نقیب عزالدین بھاگا اور مدینۃ السلام یعنی بغداد پہنچ کر خلیفہ ناصر سے پناہ طلب کی۔ نائب نقیب نصیر الدین بن مہدی بھی اِس کے ہمراہ تھا۔ نصیر الدین بڑا ہی داناء شخص تھا۔ خلیفہ ناصر نے اِسے جانچا تو اِسے عاقل ذہین اور مستقل مزاج پایا۔ خلیفہ ناصر نے اُس سے اطرااف و جوانب کے فرمانرواؤں کے متعلق پوشیدگی میں مشورے کیے اور دیکھا کہ یہ سلاطین عجم کے حالات، اِن کے طرزِ حکمرانی اور اِن کی عادات وغیرہ کی پوری معلومات رکھتا ہے۔ خلیفہ ناصر نے جب بھی اِس سے کسی معاملے میں مشورہ لیا تو اِس کی رائے کو نہایت درست پایا۔ اِس لیے پہلے تو اُسے اپنا مشیر مقرر کرکے نقیب الطالبین (یعنی آل ابی طالب کا نقیب) کا عہدہ دیا۔ پھر وزارت اِس کے سپرد کردی۔ یہ اپنے کام کو ایک عرصے تک نہایت اِستقامت اور حسنِ خوبی سے چلاتا رہا۔ یہ سخی تھا۔ انعامات خوب دیتا تھا۔ بلند ہمت اور شریف مزاج تھا۔ خلیفہ ناصر کے اپنی خوشی کے خلاف اِسے گرفتار کیا کیونکہ کچھ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ اِسے 604ھ/ 1207ء میں گرفتار کیا گیا اور شاہی محل کے ایک حصہ میں اِسے منتقل کر دیا گیا۔ وہاں یہ نہایت احترام و عزت کے ساتھ رہا۔ اِسے ہر طرح کے اعزاز اور مراعات حاصل رہے۔ آخر اِسی حفاظت و احترام کی حالت میں وہ 617ھ/ 1220ء میں فوت ہوا۔[27]

معز الدین سعید بن علی بن حدیدہ الانصاری

یہ بڑا فاضل محتاط اور دولتمند تھا۔ یہ اپنی معزولی کے بعد 616ھ/ 1219ء میں فوت ہوا۔[28]

مؤید الدین ابی المظفر محمد بن احمد ابن القصاب

یہ اصلاً عجمی تھا۔ اِس کا باپ بغداد میں بصریوں کے محلہ کے سرے پر گوشت بیچا کرتا تھا۔ یہ اپنے نشوونماء کے آغاز میں علم و ادب سے دلچسپی لینے لگا۔ اِس نے اقسام حساب مثلاً کھاتہ داری، سروے، پیمائشِ زمین وغیرہ میں مہارت حاصل کی اور اُصولِ وزارت کی بصیرت حاصل کی۔ قوی دل اور بلند ہمت تھا۔ فوجی قیادت کرتا تھا۔ کئی جگہ فتح حاصل کی۔ یہ تلوار اور قلم، دونوں کا دھنی تھا۔ خوزستان کی جانب گیا اور اُسے فتح کیا اور وہاں کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کیے، پھر فوجیں لے کر عجم کی طرف بڑھا اور اِس کا اکثر حصہ فتح کیا۔ وہیں پیام اجل آ گیا اور وہ رحلت کرگیا۔[28]

مؤید الدین محمد بن محمد بن عبد الکریم برر القُمِی

یہ خاندان اور پیدائش کے اعتبار سے قم کا تھا۔ نشوونماء اور وفات بغداد میں ہوئی۔ اِس کا نسب مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اُمور مملکت اور اُصول قیادت سے پوری طرح باخبر تھا۔ قوانین کا عالم اور دفتروں کی اصلاح سے واقف تھا۔ حساب کتاب خوب جانتا تھا۔ اصنافِ سخن میں سیر حاصل دخل رکھتا تھا۔ عمدہ اشعار کا حافظ اور دلچسپ واقعات کا راوی تھا۔ دفتری معاملات کا سلجھانے میں جفاکش تھا اور صبح سے شام تک مصروف رہتا۔ یہ ابتدا میں تو سلاطین عجم کی خدمت میں لگا تھا اور اصفہان کے ایک عجمی وزیر سے بھی چمٹا رہا۔ جبکہ اِس کی عمر 20 سال کی پوری نہ ہوئی تھی کہ یہ وزیر اپنے منشیوں سے بہت اکتاء گیا تھا، وہ سمجھتا تھا کہ یہ لوگ اِس کے احکام کی مخالفت کرتے تھے۔ اِس لیے اُس نے سب کو اپنے پاس سے الگ کر دیا اور قمی کو اپنا منشی بنالیا۔ اُسے خیال تھا کہ قمی ابھی تو نوخیز ہے اِس لیے میں جو بھی مشورہ دوں گا یہ اُس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ غرض قمی ایک عرصے تک اُس کا منشی رہا۔ یہ قمی اپنے فرائض خلیفہ ناصر کے عہد خلافت میں نہایت سر انجام دیتا رہا۔ یہ ناصر، پھر ظاہر اور پھر مستنصر کے عہد میں وزیر رہا۔ مستنصر نے اِس کو گرفتار کر لیا اور شاہی محل کے اندرونی حصہ میں ایک عرصہ تک مقید رکھا اور وہیں بیمار پڑا اور فوت ہو گیا۔[29]

رفاہِ عامہ کے کام

خلیفہ ناصر نے جن شہروں پر اپنا اِقتدار قائم کیا، وہاں جو عمال تھے اُن کو عدل و انصاف کی ہدایت کی۔ ہر شہر میں مدارس قائم کیے گئے تاکہ تعلیم عام ہو سکے۔ شفاء خانے، مہمان سرائیں تعمیر کروائی گئیں۔ باغات لگوائے گئے۔ تجارت میں بڑی سہولیات تاجروں کو فراہم کی گئیں۔ ناصر کا عہد خلافت امن و امان کا زمانہ تھا جس میں عوام کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔[30]

ولی عہد کا انتقال

 
خلیفہ عباسی ظاہر لدین اللہ کے عہد حکومت میں 613ھ کے بادشاہ خلیفہ ناصر نے اپنے چھوٹے بیٹے ابو الحسن علی بن الناصر کو ولی عہد مقرر کیا تھا۔ ابو الحسن علی نے بروز جمعہ 20 ذیقعد 612ھ/ 11 مارچ 1216ء کو وفات پائی۔ نماز عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھی گئی اور حضرت معروف کرخی کے مزار میں اُسے زمرد خاتون یعنی اُس کی دادی کے پاس دفن کیا گیا۔ بغداد میں عام و خاص کو اِس کی موت کا بہت دکھ ہوا۔ ولی عہد صدقات اور حسن سلوک سے مشہور تھا۔ اہل شہر اُس کی موت پر سوگ میں رہے۔ ولی عہد ابو الحسن علی نے اپنے پیچھے دو لڑکے چھوڑے۔ المؤید ابو عبد اللہ الحسین اور المُوَفَق ابوالفضل یحیی۔[31] اِن دونوں کو ناصر نے 613ھ/ 1216ء میں خوزستان کی سندِ امارت عطاء کی اور مع لشکر خوزستان بھیجا گیا۔ مؤید الدین نائب وزیر اور عزالدین الشرابی کو اتالیقی اور نگرانی کی غرض سے ساتھ بھیجا گیا۔ دونوں نے خوزستان میں حکمرانی شروع کی اور کچھ عرصہ بعد نائب وزیر اور الشرابی واپس بغداد چلے آئے۔[32] کا مضروب کردہ چاندی کا جیتل جو جمعہ شہر موجودہ 612ھ میں ضرب کیا گیا۔ اِس سکہ کا قطر 16 ملی میٹر اور وزن 2.7 گرام ہے۔ اِس سکہ پر خلیفہ عباسی ظاہر لدین اللہ کا نام بھی کندہ کیا گیا ہے۔

خلیفہ ناصر نے اپنے چھوٹے بیٹے ابو الحسن علی بن الناصر کو ولی عہد مقرر کیا تھا۔ ابو الحسن علی نے بروز جمعہ 20 ذیقعد 612ھ/ 11 مارچ 1216ء کو وفات پائی۔ نماز عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھی گئی اور حضرت معروف کرخی کے مزار میں اُسے زمرد خاتون یعنی اُس کی دادی کے پاس دفن کیا گیا۔ بغداد میں عام و خاص کو اِس کی موت کا بہت دکھ ہوا۔ ولی عہد صدقات اور حسن سلوک سے مشہور تھا۔ اہل شہر اُس کی موت پر سوگ میں رہے۔ ولی عہد ابو الحسن علی نے اپنے پیچھے دو لڑکے چھوڑے۔ المؤید ابو عبد اللہ الحسین اور المُوَفَق ابوالفضل یحیی۔[31] اِن دونوں کو ناصر نے 613ھ/ 1216ء میں خوزستان کی سندِ امارت عطاء کی اور مع لشکر کے خوزستان بھیجا گیا۔ مؤید الدین نائب وزیر اور عزالدین الشرابی کو اتالیقی اور نگرانی کی غرض سے ساتھ بھیجا گیا۔ دونوں نے خوزستان میں حکمرانی شروع کی اور کچھ عرصہ بعد نائب وزیر اور الشرابی واپس بغداد چلے آئے۔[32]

خوارزم شاہ

خوارزم شاہ کے تغلب سے قبل اغلمش نے بزور تلوار حکمت عملی بلادِ جبل پر قبضہ کر لیا تھا۔ خوارزم شاہ علاؤ الدین محمد خوارزم شاہ الثانی بن تکش جانشینِ سلجوقیہ کو صوبہ خراسان اور ماوراء النہر پر مستولی ہو رہا تھا۔ اِن بلاد پر قبضہ کرنے کا شوق پیدا ہوا اور لشکر آراستہ ہوکر اِن علاقوں پر فوج کشی کر آیا۔ اتابک سعد بن وکلا والی فارس بلادِ جبل کے لیے آگے بڑھا اور اتابک نے اصفہان پر قبضہ کیا اور پھر رے کی جانب بڑھا۔ رے شہر میں خوارزم شاہ کی افواج سے مڈبھیڑ ہوئی۔ سخت خونریزی کے بعد اتابک سعد کو ہزیمت ہوئی۔ خوارزم شاہ نے اُس کو گرفتار کر لیا اور قزوین، زنجان اور ابہر پر قابض ہو گیا۔ اہل ہمدان نے اطاعت کرلی۔ اِس کے بعد خوارزم شاہ نے اصفہان پر قبضہ کیا اور قم اور کاشان بھی خوارزم شاہ کی تحویل میں آ گئے۔ والی آذربائیجان اور والی آرمینیا نے بھی اطاعت کرلی۔ خوارزم شاہ کا حوصلہ بڑھتا گیا [33] اور اُس نے سنہ 614ھ/ 1217ء میں اُس نے خلیفہ بغداد ناصر سے دار الخلافہ بغداد میں اپنے نام کا خطبہ پڑھے جانے کا پیغام بھیجا مگر دربارِ خلافت سے انکار کی صورت میں خوارزم شاہ نے طیش میں آکر بغداد پر حملہ کرنا چاہا۔ امیر حلوان کو سندِ امارت دے کر 15 ہزار سواروں کی جمعیت میں بغداد کی جانب بڑھنے کا حکم دیا۔[33][34] دربارِ خلافت کو اِس کی خبر لگی تو خلیفہ ناصر نے شیخ الشیوخ ابوحفص شہاب الدین سہروردی کو سفیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ خوارزم شاہ کو سمجھا دیں کہ غلط قدم اُٹھانے سے باز آئے۔ شیخ الشیوخ خوارزم شاہ کے پاس تشریف لے گئے۔ وہ عزت و تکریم سے پیش آیا۔ شیخ الشیوخ نے بنو عباس کے فضائل و مناقب بیان کیے مگر جواباً خوارزم شاہ نے کہا کہ : میں تو بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا کر چھوڑوں گا۔ شیخ الشیوخ نے اُس پر حجت تمام کرنا چاہی مگر وہ انکاری رہا، آپ اُسے بددعاء دے کر وہاں سے نکل آئے۔ جو فوج خوارزم شاہ نے بغداد کے لیے روانہ کی، جب وہ راستہ میں ہمدان سے کچھ آگے کے علاقہ میں پہنچی تو اِس قدر برفباری ہوئی کہ فوج کا تین تہائی سے زائد حصہ اِس برفباری سے ہلاک ہو گئی۔ جو فوجی بچے انھیں ترکوں کے بنوبرجم نے قتل کر دیا۔ خوارزم شاہ نے اِسے بدشگونی پر محمول کیا اور بغداد پر فوج کشی کا ارادہ ملتوی کر دیا۔[35] خوارزم شاہ واپس لوٹا اور سنہ 615ھ/ 1218ء میں خوارزم شاہ نے خراسان میں خلیفہ ناصر کے نام کا خطبہ ممنوع کروا دیا۔[33][34][35] مؤرخ جوینی کی تاریخ جہانکشاء سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ خوارزم شاہ نے صرف اِسی پر اِکتفاء نہیں کیا بلکہ ناصر کی مخالفت میں ایک فتویٰ بھی مرتب کروایا جس کی رُو سے عباسی خلفاء دشمنوں سے ملک کی حفاظت اور کفا سے جہاد کی قوت نہیں رکھتے اور وہ اسلام کے اِس سب سے بڑے فریضہ کی ادائیگی سے غافل ہیں۔ اِس لیے خلافت کے مستحق نہیں رہے اور اہل بیت کے ایک بزرگ علاؤ الدین جو ترمذ شہر کے تھے، خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا لیکن عراق میں اِس دوران اتابک سعد کی فوج کشی کی خبر آگئی اور خوارزم شاہ اُس جانب متوجہ ہو گیا اور اُس کا ارادہ لشکر کشی ناکام ہو گیا۔[35][36]

تاتاریوں کا خروج

چھٹی صدی ہجری کا آغاز ساری دنیائے اسلام خصوصاً وسط ایشیا کی اسلامی حکومتوں کے لیے انتہائی ہولناک دور تھا۔ تاتاریوں کا وطن منگولیا، مغلستان اور صحرائے گوبی کا تھا۔ یہ خطہ قدرت کی فیاضیوں سے بالکل محروم بے آب و گیاہ تھا۔ سایہ دار درختوں کا کہیں وجود نہ تھا۔ نباتات میں صرف جابجا مویشیوں کی چراگاہیں تھیں۔ گرمی اور سردی دونوں موسم میں نہایت سخت زندگی گزارتے تھے۔ اِسی زمانہ میں وحشی تاتاریوں کا طوفان اٹھا اور ترکستان سے لے کر وسط ایشیا اور روس تک چھا گیا اور چند برسوں کے اندر مشرق کے سارے اسلامی ممالک کو زیر و زبر کرڈالا۔ بے شمار مسلمان بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرڈالے گئے۔ سینکڑوں بڑے بڑے شہر خاک کا ڈھیر ہو گئے اور وسط ایشیا کا پورا علاقہ جو تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا بالکل ویران ہو گیا۔ دنیائے اسلام پر ایسی تباہی کبھی نہ آئی تھی۔ مشرق سے لے کر مغرب تک خاک اُڑنے لگی۔ اِس کا آغاز خوارزم شاہ علاؤ الدین محمد خوارزم شاہ الثانی کی ایک غلطی سے ہوا۔[35]

تاتاریوں کا پہلا منظم بانی چنگیز خان تھا جس کی پیدائش 557ھ/ 1162ء میں ہوئی۔ 612ھ/ 1215ء میں چنگیز خان نے اپنے ملک کے معزز مسلمانوں کا ایک وفد خوارزم شاہ کے پاس بھیجا کہ دونوں ممالک میں تجارت کا سلسلہ قائم کیا جائے۔ خوارزم شاہ نے یہ معاہدہ قبول کر لیا۔ ایک عرصہ تک دونوں اطراف کارروانِ تجارت آتے جاتے رہے۔ سنہ 615ھ/ 1218ء میں 400 تاتاری تاجروں کا ایک قافلہ دریائے سیحوں کے ساحل بمقام سرواریا میں اُترا۔ وہاں کے والی نے خوارزم شاہ کو لکھا کہ چنگیز خان کے جاسوس تاجروں کو بھیس میں یہاں آئے ہیں۔ خوارزم شاہ نے حکم دیا کہ اُن سب کو قتل کردو۔ والی نے اِس حکم کی تعمیل کی اور وہ سامانِ تجارت خوارزم شاہ کے پاس بھیج دیے۔ اُس نے سمرقند اور بخارا کے تاجروں کے ہاتھ یہ سامانِ تجارت فروخت کرڈالا۔ چنگیز خان کو خبر لگی، اُس نے لکھا کہ یہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا تمام سامان واپس کر دیا جائے اور غائیر خان والی سرواریا کو ہمارے حوالے کردو، تاکہ ہم اُس سے بدلہ لے سکیں۔ مگر خوارزم شاہ نے اِس سفیر کو بھی قتل کروادیا۔ اِس پر چنگیز خان نے غضبناک ہوکر چڑھائی کی تیاری شروع کردی۔ خوارزم شاہ نے پہلے ہی حدودِ ترکستان پر حملہ کر دیا مگر ناکام رہ کر واپس لوٹ آیا۔ راہ میں جس قدر شہر آباد تھے، اُن کے باشندوں کو جلاوطنی کا حکم دے دیا جس سے وہ حصہ دنیا کی جنت زار تھا، ویران ہو گیا۔ خوارزم شاہ کی یہ حرکت چنگیز خان کے لیے سود مند ثابت ہوئی کہ وہ بخارا تک بغیر مزاحمت 20 ہزار فوج کے ساتھ لشکر کشی پر آ گیا۔ اہل شہر نے علامہ بدرالدین قاضی شہر کو اَمان طلب کرنے کے لیے چنگیز خان کے پاس بھیجا اور اُس نے منظور نہ کیا۔ 616ھ/ 1219ء میں چنگیز خان بخارا شہر میں داخل ہو گیا اور باشندوں کو نکل جانے کا حکم دیا اور جو بچ رہے، اُن کو قتل کر دیا گیا۔ کچھ کو غلام بنا لیا گیا۔ بخارا ایک عظیم الشان شہر تھا جسے جلا دیا گیا اور وہ عظیم الشان شہر کھنڈر بن گیا۔ چنگیز خان سمرقند پہنچا اور اُس کا بھی بخارا جیسا حال ہوا۔ چنگیز خان نے 20 ہزار فوج کو حکم دیا کہ خوارزم شاہ جہاں ہو، پکڑ لایا جائے۔ یہ غزنی میں تھا، وہاں سے نیشاپور گیا۔ تاتاری بلائے بے دَر اَماں کے مثل اُن کے ملکوں کو غارت کرتے ہوئے چلے۔ خوارزم شاہ نے نیشاپور بھی چھوڑا مگر اِس حالت میں کہ دشمن عقب میں تھے۔ اِس میں بھی خوارزم شاہ عیش و عشرت میں تھا باوجودیکہ لاکھوں فوج اُس کے پاس تھی، ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا تھا مگر تاتاریوں کی ہیبت اُس کے قلب پر مستولی ہو چکی تھی جس نے اُس کو بزدل بنا دیا۔ بحیرہ طبرستان کے اندر خوارزم شاہ کا ایک قلعہ تھا، بندرگاہ پر پہنچ کر جہاز میں سوار ہوا، جب روانہ ہو گیا اُس وقت تاتاری ساحل پر پہنچے۔ اب مجبوراً اُس کا پیچھا چھوڑ کر ماژندران آئے تو اِس شہر کو تاخت و تاراج کرڈالا۔ پھر ہمدان شہر آئے اور قزوین کو فتح کرتے ہوئے 40 ہزار باشندوں کو تہ تیغ کر دیا گیا۔ وہاں سے تاتاری آذربائیجان کی طرف بڑھتے گئے، تبریز کا محاصرہ کیا، اِس شہر کا امیر اُزبک بن بہلوان تھا جو ہر وقت شراب کے نشہ میں رہتا۔ وہ مدافعت کے لیے آمادہ نہ ہوا۔ وزراء نے تاتاریوں کو کچھ رقم دے کر صلح کرلی۔ خوارزم شاہ جزیرہ ابسکون میں تھا۔ یہاں بھی تاتاری آگئی تو جزیرہ میں جانے میں چند روز بعد 617ھ/ 1220ء میں انتقال کرگیا۔ اِس غربت میں کہ کفن تک میسر نہ آ سکا۔[37] علامہ ابن الاثیر کی ایک روایت میں ہے کہ خوارزم شاہ نے خود چنگیز خان کو مقابلہ کی دعوت دی اور سرحد تاتار پر فوج کشی کی۔ ہر دو میں خونریز جنگ ہوئی تھی اور وہ واپس لوٹ آیا تھا۔[38]

واقعات و حوادث

577ھ/ 1182ء

خلیفہ ناصر نے صلاح الدین ایوبی کو تنبیہ کی کہ وہ اپنا خطاب تبدیل کرلے کیونکہ خلیفہ کا خطاب الناصر تھا اور صلاح الدین ایوبی کا خطاب الملک الناصر تھا۔

580ھ/ 1184ء

خلیفہ ناصر نے احکام جاری کیے جو شخص امام موسی کاظم کے مشہد میں پناہ لے لے تو وہ مامون ہے، اُس سے بازپرس نہ کی جائے۔ ناصر کے اِس حکم کے جاری ہوتے کئی مجرم وہاں پہنچنے لگے جس سے سخت مفاسد پھیلنے لگے جس کا تدارک کیا گیا۔

581ھ/ 1185ء

بلادِ مغرب (موجودہ مراکش) میں ناصر کے نام کا خطبہ جاری ہو گیا۔

582ھ/ 1186ء

  • ہفت سیارگان نظام شمسی یعنی ساتوں سیارے برج میزان میں جمع ہوئے جس سے نجومیوں نے حکم لگایا کہ جمادی الثانی کی نویں تاریخ کو سخت آندھی آئے گی اور شہر مسمار ہونے کا خدشہ ہوگا۔ جمادی الثانی بخیر و عافیت گذرا۔ رجب کا مہینہ بھی گذر گیا مگر نہ کوئی زلزلہ آیا، نہ آندھی، نہ آفتاب چھپا اور نہ ہی نیرین کو گرہن لگے اور نہ ہی کوئی دُمدار تارا نکلا۔ بس نجومیوں کی یہ پیشگوئی سچ ثابت نہ ہوئی اور شعرا نے نجومیوں کے رد میں قصیدے اور اشعار کہے۔[39][40]

583ھ/ 1187ء

بروز جمعہ 27 رجب 583ھ/ 2 اکتوبر 1187ء: فتح بیت المقدس، سلطان صلاح الدین ایوبی نے فرنگیوں سے بیت المقدس کا تسلط چھڑوا لیا اور تقریباً 90 سال بعد بیت المقدس فرنگی عیسائیوں کے تسلط سے آزاد ہوا۔[40] ابن برجان نے فتح بیت المقدس کی تاریخ سورہ الروم سے استخراج کی تھی کہ سنہ 583ھ میں بیت المقدس پر مسلمان فاتح ہوجائیں گے اور صدیوں تک یہ مسلم حکومت کا حصہ رہے گا۔ مگر یہ بات قابل حیران کن ہے کہ ابن برجان فتح بیت المقدس سے کئی سال قبل ہی اِنتقال کر گئے تھے۔

  • 586ھ/587ھ مطابق 1191ء/ 1192ء: ترائن کی جنگیں۔ سلطان غزنی و سلطنت غوریہ شہاب الدین غوری نے ترائن کی جنگ میں ہندوستان فتح کر لیا۔ اِس خبر کی اطلاع خلیفہ ناصر کو کی گئی۔[41]
  • بروز جمعرات 27 صفر 589ھ/ 4 مارچ 1193ء: دنیائے اسلام کا بطل حریت سلطان صلاح الدین ایوبی 57 سال قمری کی عمر میں دمشق میں فوت ہو گیا۔[42] خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ کو اُس کی موت کا بے حد صدمہ ہوا اور بغداد کئی روز تک سوگ میں ڈوبا رہا۔
  • 590ھ/ 1194ء میں سلطان طغرل بیگ شاہ ابن ارسلان بن طغرل بیگ بن محمد بن ملک شاہ سلجوقی فوت ہو گیا، وہ خاندان سلجوقیہ کا آخری بادشاہ تھا۔[41][43]
  • 590ھ/ 1194ء: جنگ چنداور میں سلطان شہاب الدین غوری نے شاہِ ہند جے چندرکو فیروزآباد کے قریب شکست دی اور تمام شہر سلطان شہاب الدین غوری کے ہاتھ میں آ گئے۔[42][42] وزیر السلطنت مؤید الدین ابوالفضل نے خوزستان پر قبضہ کر لیا۔[44]
  • 592ھ/ 1196ء میں مکہ مکرمہ میں کالی آندھی آئی جس کی وجہ سے اندھیرا ہو گیا، لوگوں پر سرخ ریت برستی رہی۔ خانہ کعبہ کے رکن یمانی سے ایک ٹکڑا گرگیا۔
  • 592ھ/ 1196ء میں خوارزم شاہ نے خلیفہ پر لشکر کشی اور پچاس ہزار فوج کے ہمراہ دریائے جیحون تک آ گیا تھا اور خلیفہ کو لکھا کہ مجھے سلطان کا خطاب عطاء کیا جائے، میں بغداد آنا چاہتا ہوں اور خلیفہ کو ملوک سلجوقیہ کے ماتحت ہوکر رہنا چاہئیے مگر موسم کی خرابی سے اور سلطنت خوارزم شاہی میں انتشار کے سبب وہ واپس لوٹ گیا۔
  • 593ھ/ 1197ء میں ایک بہت بڑا ستارہ ٹوٹ کرگرا جس کے گرنے سے سخت دھماکا ہوا اور مکانات گرگئے، لوگوں نے خیال کر لیا کہ شاید قیامت آگئی۔
  • 28 محرم 593ھ/ 29 نومبر 1198ء کو مصر کے ایوبی سلطان العزیز عثمان کا انتقال ہو گیا۔ اُس کی جگہ اُس کا بیٹا المنصور ناصر الدین محمد تخت نشیں ہوا مگر 2 سال کے قلیل عرصہ حکومت میں الملک العادل اول سیف الدین ابوبکر بن ایوب نے اُس پر حملہ کرکے تاج و تخت چھین لیا اور خود قابض ہو گیا۔
  • 596ھ/ 1199ء میں دریائے نیل کا پانی اُتر گیا اور تیرہ ہاتھ تک بھی پانی نہ رہا۔ دریائے نیل کے پانی اُتر جانے سے مصر میں قحط پڑ گیا۔ یہ قحط شدید تھا حتیٰ کہ لوگوں نے مردار بھی کھانا شروع کیے اور کھلم کھلا کھانے لگے۔ یہ قحط 598ھ/ 1201ء تک رہا۔[45]
  • 596ھ/ 1199ء میں سلطان علاؤ الدین تکش شاہ خوارزم فوت ہوا۔[45]
  • شعبان597ھ/ مئی 1201ء میں مصر، شام اور جزیرہ میں نہایت سخت زلزلہ آیا جس کی وجہ سے مکانات اور قلعے منہدم ہو گئے، بصرى (موجودہ شام) میں کئی دیہات زمین میں دھنس گئے۔[45][46]
  • 598ھ/ 1201ء میں مصر میں واقع ہونے والے سخت قحط کے آثار کم ہونے لگے۔
  • 598ھ/ 1201ء میں ایک عظیم زلزلہ آیا جس سے طرابلس الشام، صور اور دمشق میں مکانات منہدم ہو گئے اور شدید نقصان ہوا۔[47]
  • ہفتہ 30 محرم 599ھ/ 19 اکتوبر 1202ء کی رات کو آسمان پر اِس قدر تارے ٹوٹے کہ یہ آثار صبح تک دکھائی دیتے رہے۔ لوگ سخت پریشان و مضطرب رہے۔ ایسا واقعہ صرف بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سال اور سنہ 241ھ میں دیکھا گیا تھا۔[47][48][49]
  • 599ھ/ 1202ء: اِس سال قلعہ دمشق کی فصیل کی تعمیر شروع ہوئی۔[49]
  • 600ھ/ 1203ء میں حاکمِ موصل نورالدین زنگیاور حاکم سنجار قطب الدین نے باہم جنگ کی اور اشرف بن العادل نے قطب الدین کی مدد کی، بعد ازاں صلح ہوئی اور اشرف نے نورالدین زنگی کی ہمشیرہ سے نکاح کر لیا۔ وہ اتابکیہ بنت عزالدین مسعود بن مودود زنگی تھی اور دامن کوہ دمشق میں اُس کی قبر موجود ہے۔[50]
  • 600ھ/ 1203ء میں مصر، شام، جزیرہ اور قبرص میں عظیم زلزلہ آیا۔[51]
  • جمادی الاول 600ھ/ جنوری 1204ء میں بغداد کے قاضی القضاۃ ابو الحسن علی بن عبد اللہ بن سلیمان الجیلی کو رشوت کے الزام میں دستاویزی ثبوت کی فراہمی پر معزول کر دیا گیا اور اُسے فاسق قرار دے دیا گیا اور اُس کے سر سے سبز چادر خلیفہ ناصر کے حکم سے چھین لی گئی۔[51]
  • 600ھ/ 1204ء میں سلطان روم ملک رکن الدین قلج ارسلان اول 28 سال کی عمر میں فوت ہوا۔[51]
  • 600ھ/ 1204ء میں اہل فرنگ نے دریائے نیل کے راستہ سے الرشید کے مقام پر حملہ کر دیا اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ تاآں کہ خوب لوٹا اور قتل عام کے بعد شہر سے بھاگ نکلے۔[47]
  • 601ھ/ میں اہل فرنگ نے قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا، رومیوں کو وہاں سے نکالا اور خود قابض ہوئے۔ تقریباً 59 سال تک یعنی 660ھ تک یہ شہر فرنگیوں کے تسلط میں رہا۔ بعد ازاں رومیوں نے پھر واپس قبضہ کر لیا۔
  • 605ھ/ 1209ء میں نیشاپور میں عظیم زلزلہ آیا جس میں خلق کثیر ہلاک ہوئی۔[52]
  • 606ھ/ 1209ء میں اہل تاتار کا زور شروع ہوا۔ تاتاریوں نے مسلم حکومتوں کو براہِ راست نقصان پہنچانا شروع کیا۔
  • 612ھ/ 1215ء میں سلجوقی سلطان عز الدین کیکاؤس اول نے فرنگیوں کے ہاتھوں سے انطاکیہ شہر کو چھڑوا لیا۔[53] شاہِ خوارزم علاؤ الدین محمد خوارزم شاہ الثانی نے غزنی شہر پر بغیر جنگ کے قبضہ کر لیا۔[54]
  • 614ھ/ 1218ء میں دمشق میں واقع جامع الامویہ (مسجد امیہ) کے فرش کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ معتمد مبارز الدین ابراہیم متولی دمشق آیا۔ اِس خوشی میں اُس نے آخری چوکور پتھر باب الزیارۃ کے پاس اپنے ہاتھ سے رکھا۔ اِس سال بغداد میں دریائے دجلہ میں طغیانی آئی اور پانی کی سطح قبور کے برابر ہو گئی، صرف دو اُنگلیوں تک پانی کا فرق رہ گیا، پھر پانی بلند ہو گیا اور لوگوں کو موت کا یقین ہو گیا۔ یہ کیفیت مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن تک رہی۔ اللہ تعالیٰ نے احسان کیا اور طغیانی اُتر گئی اور فراوانی کم ہو گئی۔ بغداد ایک ٹیلے کی طرح رہ گیا اور اکثر عمارتیں منہدم ہوگئیں۔[55]
  • 614ھ/ 1217ء میں خوارزم شاہ علاؤ الدین محمد خوارزم شاہ الثانی نے عراق عجم پر فوج کشی اُس کے ایک حصہ پر قبضہ کر لیا۔[56]
  • 615ھ/ 1218ء میں اہل فرنگ نے دمیاط کے برج السلسلہ پر قبضہ کر لیا، یہ برج دیارِ مصر کی کنجی تھا۔[57]
  • 618ھ/ 1221ء میں اہل فرنگ سے دمیاط شہر چھین لیا گیا۔
  • 621ھ/ 1224ء میں خانہ کعبہ پر سبز ریشمی پردے ڈالے گئے حالانکہ اِس سے قبل مامون الرشید کے زمانہ سے سفید ریشمی پردے ڈالے جاتے رہے۔ سبز کے بعد سیاہ ریشمی پردوں کو بھی ڈالا گیا۔

مخبری/ پرچہ نگار وقائع

کچھ سیاسی حالات یہ ہیں جن میں ناصر کی سیاسی و علمی بصیرت دکھائی دیتی ہے :

  • جب شاہِ مازندران کا ایلچی بغداد میں آیا تو اُس کا خفیہ نویس اُس کی شبینہ افعال و اعمال کا پرچہ ہر صبح کو خلیفہ ناصر کے حضور پہنچا دیتا۔ یہ دیکھ کر ایلچی نے اپنے تمام کاروبار نہایت احتیاط سے پوشیدہ کرنا شروع کردیے مگر جنتا پوشیدگی میں ایلچی نے اہتمام کیا اُتنا ہی خلیفہ نے زیادہ اِظہار کیا۔ ایک رات ایلچی نے چور دروازے سے ایک خاتون کو اپنے پاس بلوایا اور رات بھر اُس کو اپنے پاس رکھا۔ صبح کو اِس امر کی خبر خلیفہ کو پہنچ گئی اور حسبِ معمول یہ پرچہ چسپاں ہو گیا۔ اُس پرچہ میں یہاں تک درج تھا کہ اِن دونوں نے رات کو جو لحاف اوڑھا تھا اُس پر ہاتھی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر ایلچی نہایت متغیر ہوا اور بغداد سے چلا گیا۔ اُس کو یقین کامل ہو گیا کہ خلیفہ علم غیب جانتا ہے۔[58][59]
  • خوارزم شاہ کا ایک ایلچی ایک خفیہ خط سر بمہر لے کر آیا تو خلیفہ ناصر نے فوراً اُس سے کہہ دیا کہ خط کی ضرورت نہیں، مجھے خط کا مضمون معلوم ہے، تم واپس چلے جاؤ،  وہیں جواب پہنچ جائے گا۔ اُس کو یقین ہو گیا کہ یہ عالم الغیب (یعنی کہ وہ خبر جانتا ہے) ہے اور فوراً واپس چلا گیا۔[58][59]
  • ایک شخص کا ذکر ہے کہ اُس نے بغداد میں چند آدمیوں کی دعوت کی اور اِتفاقاً مہمانوں سے قبل خود ہاتھ دھو لیے۔ اِس واقعہ کی خبر بھی مخبر نے ناصر کو پہنچا دی۔ خلیفہ ناصر نے اُس شخص کو تنبیہ کی کہ مہمانوں سے قبل اپنے ہاتھ دھونا سوء ادب ہے۔ وہ شخص یہ سن کر حیران رہ گیا۔[2][60]

مؤرخ اسلام علامہ ذہبی (متوفی 748ھ) کہتے ہیں کہ عوام میں یہ تاثر پھیل گیا تھا کہ جِنات خلیفہ ناصر کے تابع ہیں۔[17] جس وقت شاہِ خوارزم علاؤ الدین محمد خوارزم شاہ الثانی خراسان اور ما وراء النہر آیا اور اُس نے لوگوں پر زیادتی و ظلم کیا اور بڑے بڑے بادشاہوں سے اِطاعت کروائی، لوگوں میں لوٹ مار کی، اپنے مقبوضات میں سے بنو عباسی کا خطبہ موقوف کروا دیا۔ جب بغداد پر حملہ کے ارادے سے نکلا تو جب ہمدان پہنچا تو 20 روز تک برابر بغیر موسم کے برف باری پڑتی رہی جس سے وہ پیش قدمی نہ کرسکا۔ اُس کے بعض خواص اور ساتھیوں نے کہا کہ چونکہ آپ خلیفہ ناصر پر حملہ کے قصد سے نکلے تھے، اِس لیے یہ غضبِ اِلٰہی آپ پر نازل ہوا۔ اِسی اثناء میں اُسے خبر پہنچی کہ ترک متفق ہوکر اُس کے ممالک اور دار السلطنت پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں اور اُن کو یہ جرات اِس وجہ سے ہوئی ہے کہ خوارزم شاہ دار السلطنت سے بہت دور تھا، یہ سن کر شاہِ خوارزم کو واپس لوٹ جانا پڑا اور ناصر بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے اُس کے شر سے محفوظ رہا۔

ایک بار ایک سوداگر جس کے پاس دمیاط کی چادریں تھیں اور جن پر طلائی کام تھا، بغداد میں آیا تو چونگی والوں نے اُس سے محصول طلب کیا مگر اُس نے انکار کر دیا کہ میرے پاس کوئی چیز ایسی نہیں جس پر محصول عائد ہوتا ہو۔ چونگی والوں نے اُس کے سامان کے اعداد اور اُن کی رنگتیں اور اقسام بیان کرنا شروع کیں مگر وہ انکار کرتا رہا۔ آخر اُس سے دربارِ خلافت کے موافق کہا گیا کہ کیا تو نے اپنے فلاں ترکی غلام کو دمیاط میں فلاں قصور کی وجہ سے خفیہ قتل نہیں کیا تھا؟ اور اُس کو فلاں جگہ نہیں دفن کر رکھا؟ اور اُس کی آج تک کسی کو خبر نہیں ہوئی۔ یہ سن کر وہ حیران ہو گیا کیونکہ اُس کے سوا اِس کی خبر کسی کو نہیں تھی اور اُس نے محصول ادا کر دیا۔[18][18][61]

سخاوت

ناصر کی سخاوت گذشتہ تمام خلفائے عباسیہ کے مقابلہ میں بڑھ گئی تھی۔ اگر کسی فقیر کو کچھ مال یا رقم دیتا تو خوب جی بھر کر دیتا اور اُس فقیر کو کوئی حاجت سوال درازی کی نہ رہتی۔ سخاوت کا ایک مشہور قصہ امام جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ)نے تاریخ الخلفاء میں نقل کیا ہے کہ:

ایک شخص ہندوستان سے خلیفہ ناصر لدین اللہ کے واسطے ایک طوطا لے کر چلا جو قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھتا تھا۔ جب وہ بغداد پہنچا تو رات کو طوطا مرا ہوا پایا۔ صبح کو یہ شخص نہایت حیران و پریشان ہوا۔ اِتنے میں خلیفہ ناصر کا ایک خادم آیا اور اُس سے وہ طوطا طلب کرنے لگا۔ یہ آدمی رو پڑا اور کہا: وہ تو رات کو مرگیا۔ خادم نے کہا: ہاں! مجھے معلوم ہے کہ وہ مرچکا، لاؤ وہ مرا ہوا ہی دے دو اور یہ بتاؤ کہ تمھیں خلیفہ سے کتنے انعام کی توقع تھی؟ اُس آدمی نے کہا: پانچ سو دینار کی اُمید کرکے چلا تھا۔ خادم نے پانچ سو دینار کھول کر دکھ دیے اور کہا: یہ لو، خلیفہ نے تمھیں عنایت کیے ہیں، جس وقت سے تو ہندوستان سے چلا تھا، خلیفہ کو تیری آمد کی خبر تھی۔[62][63][64][65]

وفات

619ھ/ 1222ء میں خلیفہ ناصر فالج میں مبتلا ہوا۔ وفات تک تین سال تک خلیفہ بے حس و حرکت پڑا رہا۔[6] ناصر کی عمر 70 سال کے قریب ہو چکی تھی، گذشتہ کئی سال سے وہ فالج میں مبتلا تھا۔[66] اس مرض میں اُس کی ایک آنکھ بھی جاتی رہی اور دوسری آنکھ سے بھی معمولی نظر آتا تھا۔[6][6] مرض وفات میں اُسے بیس روز تک پیچش کا عارضہ لاحق ہوا۔[6] اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ اُسے عسر البول کا مرض بھی لاحق تھا جس کی وجہ سے اُس کے پینے کا پانی بغداد سے سات فرسخ کے فاصلہ سے محل تک لایا جاتا تھا جس کو سات دن تک ایک جوش دیا جاتا تھا، پھر سات جوش کے بعد سات دن تک برتنوں میں بھروا کر رکھا جاتا۔ تب ناصر اُس پانی کو پیتا مگر آخری سالوں میں وہ نیند لانے کی دوا استعمال کرنے لگا تھا۔ عسر البول کا مرض مرض وفات میں بڑھتا گیا اور غالباً ناصر بروز پیر 10 رمضان 622ھ/ 15 ستمبر 1225ء کو علیل ہوا اور 20 دن کی مختصر علالت کے بعد[66] بروز اتوار 30 رمضان 622ھ مطابق 5 اکتوبر 1225ء کی شب کو 69 سال 2 ماہ 20 دن قمری اور 67 سال 1 ماہ 29 دن شمسی کی عمر میں بغداد میں فوت ہو گیا۔[6] بروز پیر یکم شوال 622ھ/ 6 اکتوبر 1225ء کو بغداد میں محی الدین ابن شیخ ابوالفرج ابن الجوزی نے غسل دیا اور نماز جنازہ پڑھائی۔ تدفین بغداد میں کی گئی اور ماہِ ذو الحجہ 622ھ/ دسمبر 1225ء میں ناصر کی میت کو رصافہ (شام)کے قبرستان میں منتقل کر دیا گیا۔[6][13][67][68][69]

اوصاف و خصائل

ناصر نہایت ذہین، چالاک، بہادر، صاحبِ فکر، صائب الرائے، عقل رساء، سیاسی چال چلنے والا تھا۔ اُس کے جاسوس اور مخبر عراق بلکہ تمام اکنافِ عالم میں پھیلے ہوئے تھے جو اُسے جزئیات تک کی اطلاع دیا کرتے تھے۔[70] ناصر کی مدتِ حکومت و خلافت تقریباً 47 سال ہے، اِس تمام مدت میں وہ عزت و جلالت کے ساتھ قائم رہا۔ تمام دشمنوں کا قلع قمع کر دیا۔ سلاطین اور بادشاہوں نے اُس کی اِطاعت قبول کی۔ کسی شخص نے اُس کے ساتھ سرکشی کی جرات نہیں کی اور نہ کسی نے اُس پر حملہ کرنے کی جرات ہی کی۔ اگر کسی نے حملہ کیا تو اُس کی فوراً سرکوبی کردی گئی۔ یہ بات اُس کے ساتھ خاص رہی جس نے ناصر کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تو وہ خود تباہ و برباد ہو گیا۔ اقبال مند تھا۔ ناصر اپنے دادا المستنجد باللہ کی طرح مصالح الملک میں شدید الاہتمام تھا۔ رعایا کے تمام مسائل خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سب سے خبردار رہتا تھا۔ اُس کے اخبار نویس اور پرچہ نگار تمام شہروں میں موجود تھے جو روزانہ تمام بادشاہوں کی خفیہ اور ظاہری باتیں اُس کو لکھ بھیجتے تھے۔ ناصر کو نہایت لطیف حیلے اور غضب کی سیاسی چالیں ازبر تھیں۔ سیاسی چالیں وہ اِس قدر بے ڈھب چلتا کہ کسی کو کانوں کان تک خبر نہ ہوتی اور نہ کوئی شخص سمجھ سکتا تھا۔  دو دشمن بادشاہوں میں دوستی کروا دیتا اور اُن کو خبر تک نہ ہوتی اور دو دوست بادشاہوں میں عداوت ڈلوا دیتا تو انھیں خبر نہ ہوتی۔[58][66]

ابن نجار کا بیان ہے کہ ناصر لدین اللہ کے پاس سلاطین آیا کرتے تھے اور اُس کی اطاعت قبول کر لیا کرتے تھے۔ جو شخص اُس کا مخالف ہوا وہ بے حد ذلیل ہوا۔ سرکش اور نافرمان اشخاص کو نہایت ذلت اُٹھانا پڑی۔ متکبروں اور سرکشوں کو اُس کی تلوار نے سرنگوں کر دیا۔ اُس کے دشمنوں کا پیر لڑکھڑا گیا۔ اُس کی فتح اِس قدر ہوئی کہ اُس دور میں خلافت عباسیہ کا دائرہ حکومت و عملداری وسیع تر ہو گیا تھا جو بعد ازاں کسی عباسی خلیفہ کا نہ رہا۔ ناصر لدین اللہ کے نام کا خطبہ اسپین اور چین کے شمالی علاقوں میں بھی پڑھا گیا۔[71][72][73]

مؤرخ ابن طقطقی متوفی (709ھ/ 1310ءعموماً ابن طباطبا کے نام سے معروف) نے خلیفہ ناصر کی بابت 701ھ/ 1301ء میں لکھا ہے کہ: یہ بڑا فاضل اور ممتاز خلیفہ تھا، معاملات میں خاصی بصیرت رکھتا تھا۔ تجربہ کار، سیاست دان، با رُعب، جرات مند، ذکی، بہادر، قوی، تیزنگاہ، یگانہ روزگار، بیدار مغز، ہوشیار اور فصیح و بلیغ تھا۔ فضیلت علمی اور فصاحت میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ اہل علم سے باخبر عالم کی طرح گفتگو کرتا تھا۔ معاملاتِ ملکی میں غیر معمولی مہارت رکھتا تھا۔ عقیدہ امامیہ کی طرح رجحان تھا۔ اُس کی مدتِ خلافت خاصی طویل رہی اور حکومت شاندار رہی۔ وہ رعایا کے حالات سے براہِ راست تعلق رکھتا تھا حتیٰ کہ وہ بغداد کی گلیوں میں راتوں کو پا پیادہ گشت لگایا کرتا تھا تاکہ عوام کے حالات سے اور اُن کے خیالات سے باخبر رہے۔ تمام اربابِ حکومت اور عوام اُس سے خائف اور محتاط رہتے تھے۔ گویا انھیں یہ یقین تھا کہ اپنے گھروں میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کی اُسے اطلاع ہوتی ہے۔ تمام ملک میں اور دوسرے سلاطین کے ہاں اُس کے جاسوس اور خبر رساں پھیلے ہوئے تھے۔ اُس نے حدیث پڑھی اور پڑھائی بھی تھی۔ خود بھی سپاہیوں کا لباس پہنتا اور آتشیں گولے پھینکنے کا ماہر تھا۔ بہت سے لوگ اِس فن کے اُس کے پاس ماہر جمع تھے۔ غرض کہ وہ یگانہ روزگار تھا۔ اُس کے عہد میں سلجوقی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اُس کی بخششیں اور اوقاف شمار سے باہر ہیں۔ اُس نے بہت زیادہ مہمان خانے، مساجد اور عبادت خانے اور مہمان سرائیں تعمیر کروائیں۔ اُس کا سارا وقت اِنتظام ملک میں گذرا۔  [6][66][74][75]

لیکن اِن اوصاف اور خوبیوں کے باوجود وہ دولت کا بڑا حریص تھا۔ حصولِ زر کے لیے اُس نے رعایا پر بڑی زیادتیاں روا رکھیں۔ بہت سے نئے ٹیکس جاری کیے گئے۔ مال و جائداد کے لیے سینکڑوں آدمیوں کو جیل میں بھروا دیا۔ خراج کی مقدار غیر معمولی حد تک بڑھا دی گئی۔ مؤرخ اسلام علامہ ابن کثیر نے یہاں تک لکھا ہے کہ اُس کے مظالم سے تمام عراق ویران ہو گیا۔ درحقیقت ناصر کی طبیعت میں شدت اور غلو بہت زیادہ تھا۔ جس جانب رجوع کرتا، غلو کی حد تک پہنچ جاتا۔ مؤرخ اسلام علامہ ذہبی کا بیان ہے کہ ناصر جب کھلتا تھا، یعنی لیتا دیتا تھا تو آسودہ حال کردیتا تھا اور جب سزا دیتا تھا تو سخت سزا دیتا۔[64][76] حرصِ دولت حد سے بڑھی ہوئی تھی مگر اُس کی فیاضی کے واقعات بھی بے شمار ہیں جن سے اُس کی سخاوت کا معلوم ہوتا ہے۔[15]

مدت خلافت و سلطنت

مؤرخ اسلام علامہ ذہبی (متوفی 748ھ) نے لکھا ہے کہ ناصر اپنے پیشرو خلفائے عباسیہ میں پہلا ہے جس کی مدت خلافت بہت طویل ہوئی۔ حالانکہ خلفائے عباسیہ کے علاوہ مصر کی دولت فاطمیہ کے آٹھویں حکمران مستنصرباللہ کی مدتِ حکومت طویل ہوئی ہے یعنی 60 سال،[12] 427ھ/ 1036ء سے 487ھ/ 1094ء تک۔ خلیفہ ناصر کی مدت خلافت 2 ذیقعد 575ھ/ 28 مارچ 1180ء تا یکم رمضان 622ھ/ 5 اکتوبر 1225ء تک ہے اور یہ مدت 46 سال 11 ماہ 2 دن قمری اور 45 سال 6 ماہ 8 دن شمسی ہے جو پیشرو خلفائے عباسیہ کی مدت ہائے خلافت سے کہیں زیادہ طویل ہے۔[6] عباسی خلفاء میں اِتنا طویل زمانہ (بلحاظِ مدتِ خلافت)کسی خلیفہ نے نہیں پایا۔[66]

ناصر کی سلطنت چین سے بلادِ مغرب (مراکش) اور اندلس تک پھیلی ہوئی تھی۔ ناصر سے پیشتر خلفائے عباسیہ کا خطبہ و عملداری بلادِ مغرب سے بالکل ہی ختم ہو گئی تھی مگر ناصر کی حکومت میں دوبارہ 581ھ میں عباسی سلطنت و خلافت کا شاہانہ عروج واپس لوٹ آیا۔ کئی سلاطین وقت ناصر کے سامنے کھڑے ہوئے اور مٹے مگر اُس کی ہیبت و جلالت کے سامنے کوئی دشمن نہ آسکا۔ خلافت عباسیہ میں وہ المعتصم باللہ عباسی کے بعد آخری خلیفہ و حکمران تھا جس کی وفات سے خلافت عباسیہ کی شان و شوکت جاتی رہی۔[70] ناصر اپنے نامور اسلاف کی بہت سی خصوصیات کا حامل اور عباسی جاہ و جلال کی آخری یادگار تھا۔[66]

ہم عصر سلطنت غوری خاندان کے غوری سلاطین

ہم عصر خوارزم شاہی سلطنت کے حکمران

ہم عصر ایوبی سلطنت کے مصر کے حکمران

ہم عصر ایوبی سلطنت کے دمشق کے سلاطین حکمران

خلیفہ ناصر کے ہم عصر خاندان غلاماں، سلطنت دہلی، ہندوستان کے حکمران یہ تھے :

خلیفہ ناصر لدین اللہ کے عہد خلافت میں وفات پانے والے اعیان

575ھ تا 622ھ

  • احمد بن محمد بن ابراہیم حافظ ابو طاہر سلفی: صدر الدین لقب تھا، مذہب شافعی کے امام تھے۔ بغداد آئے اور وہاں الکیاالہراسی سے اشتغال کیا اور خطیب ابوزکریا یحییٰ بن علی تبریزی سے لغت سیکھی اور حدیث کا بہت سماع کیا۔ 511ھ میں اسکندریہ، مصر پہنچے اور وہاں مصر کے وزیر آپ کے لیے ایک مدرسہ تعمیر کیا۔ 478ھ میں پیدا ہوئے اور 98 سال کی عمر میں 5 ربیع الثانی 576ھ کو اسکندریہ، مصر میں فوت ہوئے۔[78]
  • ملک صالح بن نور الدین زنگی: سلطان نور الدین زنگی کے فرزند تھے۔ 25 رجب587ھ کوقلعہ حلب، شام میں زہر کے سبب شہید ہوئے۔
  • شیخ کمال الدین ابو البرکات: آپ فقہ، عابد، زاہد تھے۔ مکمل نام عبد الرحمن بن محمد بن ابی السعادات ہے۔ نحوی تھے۔ بہت تنگ گزران تھے اور کسی سے کوئی ہدیہ قبول نہ کرتے تھے اور نہ ہی خلیفہ سے کوئی شے قبول کرتے تھے۔ صوفیا کی باری میں خلیفہ کے دربار میں پیش تو ہوتے مگر خلیفہ کے انعامات کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اِن کی مشہور تصنیف اسرار العربیۃ اور طبقات النعاۃ اور فن نحو میں کتاب المیزان ہے۔[79] ماہِ شعبان 577ھ میں فوت ہوئے۔ عمر 64 سال تھی۔[80]
  • شیخ ابوالعباس ابن الرفاعی: نام احمد بن الحسن بن علی بن ابی العباس احمد ہے۔ طائفہ احمدیہ رفاعیہ بطائحیہ کے شیخ ہیں۔ بصرہ اور واسط کے درمیانی علاقہ میں مقیم تھے۔ اصلاً عرب تھے۔ شافعی المذہب تھے۔ لوگ آپ کو بہت سنا کرتے تھے۔ حالت مجذوبی میں 22 جمادی الاول 578ھ کو فوت ہوئے۔[81][82]
  • ابن بشکوال: نام ابو القاسم خلف بن عبد الملک بن مسعود ابن بشکوال ہے۔ ابن بشکوال حافظ الحدیث، محدث، مؤرخ اور مصنف تھے۔ اِن کی کتاب الصلۃ بہت مشہور ہے جو ابوالولید الفرضی کی تاریخ پر ضمیمہ کے طور پر لکھی گئی۔ کتاب المستغثین باللہ بھی مشہور تصنیف ہے۔ ماہِ رمضان 578ھ میں 84 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔[81][82]
  • علامہ قطب الدین ابوالمعالی مسعود: نام مسعود بن محمد بن مسعود النیشاپوری قطب الدین ہے اور لقب ابو المعالی ہے۔ انھوں نے امام غزالی کے دوست محمد بن یحییٰ سے فقہ پڑھا۔ دمشق، الغزالیہ اور المجاہدیہ میں پڑھاتے رہے۔ حلب میں نور الدین اور اسد الدین کے مدارس میں تعلیم دیتے رہے۔ ہمدان میں بھی پڑھایا اور واپس دمشق آ گئے اور الغزالیہ میں پڑھانے لگے۔ یکم شوال 578ھ کو 93 سال کی عمر میں دمشق میں فوت ہوئے۔ آپ نے مؤرخ اسلام حافظ ابن عساکر کا جنازہ پڑھایا تھا۔[81]
  • مہذب الدین عبد اللہ بن اسعد الموصلی: ماہر فنون تھے۔ فقہ میں عالم تھے۔ حمص میں مدرس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ شعر و ادب میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔ 581ھ میں فوت ہوئے۔[83]
  • امیر ناصر الدین محمد بن شیرکوہ: حمص کا حاکم تھا۔ امیر ناصر نے وراثت میں بہت سا مال و ذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑا جو ایک کروڑ سے زائد تھا۔ امیر ناصر نے اچانک روز عرفہ یعنی 9 ذو الحجہ 581ھ کو حمص میں وفات پائی۔[83]
  • ابو القاسم سُہَیلی: امام ابوزید عبد الرحمن بن خطیب 508ھ میں اندلس میں پیدا ہوئے۔ قرات اور علوم و فنون حدیث میں یکتائے روزگار تھے۔ نابینا تھے۔ سیرت ابن ہشام کی شرح لکھی جو روض الانف کے نام سے مشہور ہے۔ عفیف و فقیر صفت تھے۔ حاکمان مراکش آپ کے معتقد تھے اور بہت عقیدت رکھتے تھے۔ 22 شعبان 581ھ کو 73 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔[84]
  • ابو محمد عبد اللہ بن ابی الوحش: نام بری بن عبد الجبار المقدسی المصری ہے۔ 499ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے زمانہ میں لغت و نحو کے امام تھے۔ ابن بابشار کے بعد خطوط اِنہی کی حضور پیش کیے جاتے۔ گفتگو میں تکلف نہیں کرتے تھے۔ لوگوں سے گفتگو کرتے تو اعراب کی جانب اِلتفات نہیں کرتے تھے۔ تصانیف کافی مفید ہیں۔ 582ھ میں 83 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔[85]
  • شیخ عبد المغیث بن زُہیر الحربی: آپ صلحائے حنابلہ میں سے تھے اور آپ کی زیارت کی جاتی تھی۔ خلیفہ ناصر اکثر اِن کی زیارت کو آیا کرتا تھا۔ محرم 583ھ میں فوت ہوئے۔[86]
  • قاضی القضاۃ ابو الحسن الدامغانی: یہ بالترتیب المقتفی لامر اللہ اور المستنجد باللہ کے عہد خلافت میں قاضی القضاۃ رہے، بعد ازاں معزول کردیے گئے تھے۔ المستضی باللہ کے عہد میں دوبارہ قاضی بنائے گئے اور ناصر کے اوائل عہد خلافت میں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز تھے۔ 583ھ میں فوت ہوئے۔[87]
  • حافظ ابوبکر الحازمی: نام امام الحافظ ابوبکر محمد بن موسیٰ عثمان بن حازم الحازمی الہمدانی ہے۔ کم سنی کے باوجود صاحبِ تصانیف ہیں۔ مشہور تصانیف العجالہ فی النسب اور الناسخ والمنسوخ ہیں۔ 548ھ میں پیدا ہوئے اور 36 سال کی عمر میں 28 جمادی الاول 584ھ کو بغداد میں فوت ہوئے۔[88]
  • قاضی شرف الدین ابوسعد: نام عبد اللہ بن محمد بن ہبۃ اللہ بن ابی عصرون ہے۔ ائمہ شافعیہ میں سے تھے۔ مشہور تصنیف کتاب الانتصاف ہے۔ دمشق کے قاضی القضاۃ بنائے گئے۔ اپنی وفات سے دس سال قبل 575ھ میں بینائی سے محروم ہو گئے تھے اور بطیب خاطر اپنے بیٹے نجم الدین کو قاضی مقرر کر دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانہ حکومت میں دمشق آئے اور573ھ میں قاضی دمشق بن گئے۔ آپ نے حصول علم کے واسطے بہت سفر کیا اور اسعد المینی اور ابو علی الفارقی سے تحصیل علم کیا۔ سنجار اور حران کے قاضی بھی بنائے گئے۔ سلطان نورالدین زنگی کے زمانہ میں الغزالیہ کی تدریس کا کام اِن کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ حلب آئے اور سلطان نورالدین زنگی نے اِن کے واسطے مدرسہ تعمیر کروایا اور حمص میں مدرسہ بنوایا۔ 93 سال سے زائد کی عمر میں 585ھ میں دمشق میں فوت ہوئے۔ 93 سال سے زائد کی عمر پائی۔[89]
  • احمد بن عبد الرحمٰن بن وہبان: ابو العباس جو ابن افضل الزمان کے لقب سے مشہور ہیں، اِن کے متعلق ابن اثیر کے لکھا ہے کہ آپ بہت سے علوم مثلاً فقہ، اُصول، ریاضی، فرائض، نجوم، سائنس اور منطق وغیرہ کے متبحر عالم تھے۔ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے اور وہیں سنہ 585ھ میں فوت ہوئے۔ لوگوں میں آپ کی محبت اور اخلاق عام تھے۔[90]
  • ملک مظفر تقی الدین عمر بن شاہنشاہ بن ایوب: سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھتیجے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ملک مظفر کو مصر وغیرہ بلاد میں اپنا نائب مقرر کیا اور پھر حماہ اور بلادِ جزیرہ میں بہت سے شہر ملک مظفر کو دیے۔ عکا میں یہ اپنے چچا کے ہمراہ تھے۔ 19 رمضان 587ھ کو وفات پائی اور حماہ، بلاد الشام میں تدفین کی گئی۔ دلیر اور شجاع تھے۔[91]
  • شیخ نجم الدین جیوشاتی: ائمہ شافعیہ میں سے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم سے آپ نے ہی مصر میں امام شافعی کا مزار تعمیر کروایا اور اُس پر قیمتی اوقات وقف کیے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی آپ کا بہت احترام کیا کرتا تھا۔ مشہور تصنیف شرح الوسیط ہے۔ 587ھ میں مصر میں فوت ہوئے۔[92]
  • سلطان صلاح الدین ایوبی: نام الملک الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب ہے۔ ولادت 532ھ میں تکریت، عراق میں ہوئی۔ تمام عمر جنگوں اور میدانوں میں گذر گئی۔ 587ھ میں بیت المقدس فتح کیا اور صلیبیوں کو تیسری صلیبی جنگ میں شکست دی۔ 57 سال کی عمر میں 27 صفر 589ھ/ 4 مارچ 1193ء کو دمشق میں وفات پائی۔ انھیں دنیائے اسلام کا بطل حریت کہا جاتا ہے۔[93]
  • اتابک عزالدین مسعود: عزالدین ابن مودود بن زنگی۔ عزالدین تقریباً 13 سال تک موصل کا حاکم رہا اور نیک سیرت حکمرانوں میں سے تھا۔ سلطان نورالدین زنگی عزالدین کا چچا تھا۔ 589ھ میں فوت ہوا اور اِسے موصل میں اِس کے تعمیر کردی مدرسہ کے پاس دفن کیا گیا۔[94]
  • یحییٰ بن سعید الغازی: ابو العباس بصری نجرانی ہے۔ مؤلف مقامات، شاعر، ادیب اور فاضل آدمی تھا مگر اسلام قبول نہ کرسکا۔ لغت و نظم میں مہارت رکھتا تھا۔ 589ھ میں فوت ہوا۔[94]
  • سیدہ زبیدہ: خلیفہ المقتفی لامر اللہ کی دختر، خلیفہ المستنجد باللہ کی بہن اور خلیفہ المستضی باللہ کی پھوپھی تھی۔ بغداد کے یتامیٰ اور مساکین میں اِس کے صدقات بہت مشہور تھے۔ سلطان مسعود نے اِس سے نکاح کیا مگر رخصتی سے قبل سلطان مسعود انتقال کرگیا۔ 589ھ میں بغداد میں فوت ہوئی۔[95]
  • امام ابو القاسم الشاطبی: نام ابو القاسم بن قیسرۃ ابی القاسم خلف بن احمد الرعینی الشاطبی ہے۔ پیدائشی نابینا تھے۔ 538ھ میں شاطبہ اندلس میں پیدا ہوئے اور محتاج شخص تھے۔ قرات سبعہ کے متعلق اِن کی تصنیف مشہور ہے۔ خطابت شہر کے واسطے اِن سے درخواست کی گئی مگر رد کردی۔ 571ھ میں حج اداء کیا اور 572ھ میں اسکندریہ پہنچے اور امام سلفی کو سماع کروایا اور قاضی فاضل نے آپ کو مدرسہ میں فصیح قاریوں کا شیخ بنا دیا۔ جمادی الاول 592ھ میں 52 سال کی عمر میں قاہرہ میں فوت ہوئے۔[96]
  • علی بن حسان بن سافر: اپنے نام کی بجائے ابو الحسن کاتب بغدادی کے نام سے مشہور تھا۔ شاعر اور ادیب تھا۔ کثیر التعداد شعر اِس کے محفوظ ہو گئے ہیں۔ 591ھ میں بغداد میں فوت ہوا۔[97]
  • مؤید الدین ابوالفضل: وزیر السلطں ت خلافت عباسیہ تھا۔ نام محمد بن علی ابن قصاب ہے۔ عموماً مؤرخین ابن قصاب سے لکھتے ہیں۔ اِس کا والد بغداد کے ایک بازار میں گوشت فروخت کرتا تھا اور اُس کا یہ بیٹا اپنے عہد کے لوگوں میں سبقت لے گیا۔ مؤید الدین ابوالفضل نے ماہ شعبان 592ھ میں ہمدان میں وفات پائی۔[98]
  • سلطان علاؤ الدین محمد خوارزم شاہ الثانی: سلطان خوارزم شاہ تکش بن الپ ارسلان کا بیٹا تھا۔ خوارزم اور خراسان اور متعدد شہروں رے، اصفہان، نیشاپور اور وسیع علاقوں کا حکمران تھا۔ اُس نے شاہانِ سلجوقیہ کا خاتمہ کر دیا تھا۔ عادل اور اچھی سیرت والا تھا۔ موسیقی اور حسن معاشرت سے بھی اچھی واقفیت رکھتا تھا۔ مسلک میں امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی رحمۃ اللہ علیہ کا پیرو تھا۔ مذہب حنفیہ کا فقیہ تھا اور اُصول ہائے مذہب حنفیہ کو خوب جانتا تھا۔ احناف کے واسطے ایک عظیم مدرسہ قائم کیا اور خوارزم میں اپنا مقبرہ خود ہی تعمیر کروا لیا تھا۔ 596ھ میں فوت ہوا اور اپنے تعمیر کردہ مقبرہ میں دفن ہوا۔[99]
  • نظام الدین مسعود بن علی: یہ شافعی المذہب تھے، خوارزم میں ایک بڑا مدرسہ آپ کا موجود تھا جس سے ملحق جامع مسجد تھی۔ مرو میں شافعیہ کے لیے ایک عظیم جامع مسجد تعمیر کروائی۔ 596ھ میں فوت ہوئے۔[99]
  • امیر صارم الدین قائیماز: حکومت صلاح الدین ایوبی کے اکابرین میں سے تھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاں اُن کا مرتبہ اُستاد کا تھا۔ العاضد حکمران مصر کی وفات کے وقت محل کے تمام اختیارات کی سپردگی اِنہی کو سونپ دی گئی تھی۔ قلعہ قاہرہ کے مشرق میں مدرسہ قائیماز تعمیر کروایا۔ دارالحدیث تعمیر کروایا۔ بہت صدقہ کرنے والے تھے،حتیٰ کہ ایک دن میں سات ہزار طلائی دینار صدقہ کردیے۔ 596ھ میں مصر میں وفات پائی۔[100]
  • امیر لُؤلؤ: یہ دیارِ مصر میں حاجب تھا اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے اکابر امرا میں سے تھا اور اِسی نے سمندر میں بحری بیڑے کی ذمہ داری لے لی تھی۔ کثرت جہاد کے ساتھ ساتھ ہر روز بہت صدقہ کرنے والا اور اخراجات کرنے والا تھا۔ مصر میں گرانی ہوئی تو اُس نے 12 ہزار روٹیاں بارہ ہزار نفوس کے لیے صدقہ کیں۔ 596ھ میں مصر میں فوت ہوا۔[100]
  • شیخ ظہیر الدین عبد السلام فارسی: یہ حلب، شام کے شیخ الشافعیہ تھے۔ امام غزالی کے شاگرد محمد بن یحییٰ سے فقہ پڑھا اور امام فخر الدین الرازی کی شاگردی اختیار کی۔ آخر مصر کی جانب کوچ کر گئے۔ قاہرہ میں آپ کو امام شافعی کے مزار پر درس دینے کی پیشکش کی گئی جسے آپ نے قبول نہ کیا اور واپس حلب چلے آئے۔ حلب میں ہی 596ھ میں فوت ہوئے۔[101]
  • امام ابو الفرج ابن جوزی: نام عبد الرحمٰن بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن جمادی بن احمد بن محمد بن جعفر الجوزی ہے۔ عموماً امام ابن جوزی کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ بصرہ کے دریا کے د رہانے پر واقع علاقہ جوزہ سے منسوب ہوئے۔ کنیت ابوالفرج ہے۔ محدث، عالم، فقیہ العالم، صاحب التصانیف کثیرہ ہیں۔ محققین نے قریباً 300 سے زائد تصانیف کو جمع کیا ہے۔ تاریخ میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں چھوڑا، تاریخ میں المنتظم لکھی جو 20 جلدوں میں موجود ہے۔ تمام علوم میں مہارت تامہ حاصل تھی جیسے کہ تفسیر، حدیث، تاریخ، ریاضی، نجوم، طب، فقہ، لغت اور نحو وغیرہ۔ تفسیر میں زاد المسیر، حدیث میں الجامع المسانید اور تاریخ میں المنتظم فی تواریخ الامم من العرب والعجم مشہور ہیں۔ تمام عمر تاریخ پر کام کرتے رہے اور خود تاریخ میں مشہور ہو گئے۔ 510ھ میں عراق میں پیدا ہوئے۔ تین برس کے تھے کہ والد کا انتقال ہوا۔ 12 رمضان 597ھ کو 87 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ جنازہ میں کثرت اژدھام کی وجہ سے لوگوں نے روزہ افطار کر لیا۔ خلیفہ ناصر کی ابن جوزی سے کثرت سے ملاقات رہتی تھی۔[102]
  • ابن النجار الحنبلی: نام علی بن ابراہیم ابن النجار ابو الحسن الدمشقی الحنبلی ہے۔ دمشق میں واعظ تھے۔ بغداد آئے اور یہاں فقہ سیکھا، حدیث کا سماع کیا۔ واپس دمشق گئے اور 564ھ میں سلطان نورالدین زنگی کی طرف سے ایلچی بن کر واپس بغداد آئے اور حدیث پڑھاتے رہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاں آپ کو مرتبہ حاصل ہوا۔ مصر میں آپ کو اہم مقام حاصل تھا۔ جمعہ کے روز آپ ہی خطبہ دیا کرتے تھے۔ آپ کے دسترخوان پر طعام بادشاہوں کے طعام سے کئی گنا بہتر چنا جاتا تھا۔ آخری عمر میں سب فقیروں میں تقسیم کر دیا اور محتاج ہو گئے اور اپنے پیچھے کفن تک نہ چھوڑا۔ ماہِ رمضان 599ھ میں مصر میں فوت ہوئے۔[8][103]
  • زمرد خاتون: خلیفہ ناصر کی والدہ اور خلیفہ المستضی باللہ کی زوجہ تھی۔ نیک، عبادت گزار اور احسان و عطیات کرنے والی خاتون تھی۔ اپنے بیٹے ناصر کی خلافت کے ابتدائی 24 سال تک زندہ رہی اور اِس کی ہر بات کو پورا کیا جاتا تھا اور اِس کے احکام کی تعمیل و اطاعت کی جاتی تھی۔ 599ھ میں بغداد میں فوت ہوئی اورحضرت معروف کرخی کے پہلو میں اِس کی قبر بنائی گئی۔[8]

حوالہ جات

  1. دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/al-Nasir — بنام: al-Nasir — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  2. ^ ا ب سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 490،  تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  3. ^ ا ب پ مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 611، تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  4. سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 486،  تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  5. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 192/193، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء
  6. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ ابن الاثیر: الکامل فی التاریخ، جلد 10، ص 451،  ذکر وفاۃ الخلیفۃ الناصر لدین اللہ،  مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان، 1423ھ، 2003ء۔
  7. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 192، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء
  8. ^ ا ب پ ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 58، تذکرہ تحت سنہ ہجری 599ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  9. سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 486، تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور
  10. دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 22، تذکرۃ الناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور، 1409ھ، 1989ء
  11. ^ ا ب سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 489/490،  تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  12. ^ ا ب پ ت حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 193، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  13. ^ ا ب حافظ شمس الدین الذہبی: العبر فی خبر من غبر، جلد 3، ص 185/186،  مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1405ھ، 1985ء
  14. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 632، تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  15. ^ ا ب شاہ معین الدین احمد ندوی:  تاریخ اسلام،  جلد 2، ص 594،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ۔  مطبوعہ 2004ء۔
  16. سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 490/491،  تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  17. ^ ا ب حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 196، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  18. ^ ا ب پ حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 198، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  19. سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 491،  تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  20. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 393/394،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 575ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  21. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 394،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 575ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  22. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 203، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  23. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 618، تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  24. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 618/619، تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  25. ابن خلدون: تاریخ ابن خلدون، جلد 7، ص 169، مطبوعہ لاہور 2003ء
  26. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 620/621، تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  27. ابن طقطقا:  الفخری فی الآداب السلطانیہ والدول الاسلامیہ،  ص 325/326،  تذکرہ خلافۃ الناصر لدین اللہ العباسی، مکتبہ دار صادر، بیروت، لبنان۔
  28. ^ ا ب ابن طقطقا:  الفخری فی الآداب السلطانیہ والدول الاسلامیہ،  ص 324،  تذکرہ خلافۃ الناصر لدین اللہ العباسی، مکتبہ دار صادر، بیروت، لبنان۔
  29. ابن طقطقا:  الفخری فی الآداب السلطانیہ والدول الاسلامیہ،  ص 326/328،  تذکرہ خلافۃ الناصر لدین اللہ العباسی، مکتبہ دار صادر، بیروت، لبنان۔
  30. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 621،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  31. ^ ا ب ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 97،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 612ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  32. ^ ا ب مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 622،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  33. ^ ا ب پ ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 103/104،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 614ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  34. ^ ا ب مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 622/623،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  35. ^ ا ب پ ت شاہ معین الدین احمد ندوی:  تاریخ اسلام،  جلد 2، ص 583،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ۔  مطبوعہ 2004ء۔
  36. امام جوینی:  تاریخ جہانکشاء، جلد 2، ص 96/97،  مطبوعہ تہران۔ ایران
  37. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 623/625، تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  38. امام جوینی:  تاریخ جہانکشاء، جلد 2، ص 104، مطبوعہ تہران، ایران
  39. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 410،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 582ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  40. ^ ا ب حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 206، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  41. ^ ا ب حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 214، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  42. ^ ا ب پ حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 215، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  43. ابن الاثیر: تاریخ الکامل، جلد 12 ص 87۔
  44. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 216، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  45. ^ ا ب پ حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 219، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  46. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 221، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  47. ^ ا ب پ حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 222، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  48. حافظ شمس الدین الذہبی: العبر فی خبر من غبر، جلد 3، ص 125،  مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1405ھ، 1985ء
  49. ^ ا ب ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 56، تذکرہ تحت سنہ ہجری 599ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  50. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 59، تذکرہ تحت سنہ ہجری 600ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  51. ^ ا ب پ ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 60، تذکرہ تحت سنہ ہجری 600ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  52. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 225، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  53. ابن العماد الحنبلی: شذرات الذھب فی اخبار من ذھب، جلد 7، ص 91،  سنۃ 612ھ۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1406ھ، 1986ء۔
  54. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 96،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 612ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  55. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 103، تذکرہ تحت سنہ ہجری 614ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  56. شاہ معین الدین احمد ندوی:  تاریخ اسلام،  جلد 2، ص 582،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ۔  مطبوعہ 2004ء۔
  57. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 232، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  58. ^ ا ب پ سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 486/487، تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  59. ^ ا ب مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 630،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  60. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 199/200، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  61. سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 489،  تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  62. سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 486، تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  63. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 630/631،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  64. ^ ا ب شاہ معین الدین احمد ندوی:  تاریخ اسلام،  جلد 2، ص 593/594،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ۔  مطبوعہ 2004ء۔
  65. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 196/197، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  66. ^ ا ب پ ت ٹ ث شاہ معین الدین احمد ندوی:  تاریخ اسلام،  جلد 2، ص 592،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ۔  مطبوعہ 2004ء۔
  67. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 242، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  68. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 138/139، تذکرہ تحت سنہ ہجری 622ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  69. سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 491، تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  70. ^ ا ب حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 199، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  71. سیوطی: تاریخ الخلفاء،  صفحہ 489، تذکرہ تحت در خلافت ناصر لدین اللہ۔ مطبوعہ لاہور۔
  72. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 631،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  73. شاہ معین الدین احمد ندوی:  تاریخ اسلام،  جلد 2، ص 593،  تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ۔  مطبوعہ 2004ء۔
  74. ابن طقطقا:  الفخری فی الآداب السلطانیہ والدول الاسلامیہ،  ص 322،  تذکرہ خلافۃ الناصر لدین اللہ العباسی، مکتبہ دار صادر، بیروت، لبنان۔
  75. مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی/ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبرآبادی:  تاریخ ملت، جلد 2، ص 629، تذکرہ خلیفہ عباسی ناصر لدین اللہ،  مطبوعہ لاہور 1991ء۔
  76. سیوطی: تاریخ الخلفاء، ص 488، مطبوعہ لاہور۔ 2008ء۔
  77. حافظ شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 22، ص 204، رقم الترجمہ 131، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ، 1981ء۔
  78. حافظ شمس الدین الذہبی: العبر فی خبر من غبر، جلد 3، ص 71، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1405ھ، 1985ء
  79. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 399،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 577ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  80. حافظ شمس الدین الذہبی: العبر فی خبر من غبر، جلد 3، ص 73/74، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1405ھ، 1985ء
  81. ^ ا ب پ ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 402،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 578ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  82. ^ ا ب حافظ شمس الدین الذہبی: العبر فی خبر من غبر، جلد 3، ص75،  مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1405ھ، 1985ء
  83. ^ ا ب ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 408،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 581ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  84. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 409،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 581ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  85. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 411،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 582ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  86. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 420،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 583ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  87. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 421،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 583ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  88. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 425،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 584ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  89. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 426/427،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 585ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  90. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 427،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 585ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  91. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 441،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 587ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  92. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 12، ص 442،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 587ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  93. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 21،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 589ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  94. ^ ا ب ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 26،  تذکرہ تحت سنہ ہجری 589ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  95. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 26/27  تذکرہ تحت سنہ ہجری 589ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  96. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 29، تذکرہ تحت سنہ ہجری 590ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  97. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 31، تذکرہ تحت سنہ ہجری 591ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  98. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 32، تذکرہ تحت سنہ ہجری 592ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  99. ^ ا ب ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 43، تذکرہ تحت سنہ ہجری 596ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  100. ^ ا ب ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 44، تذکرہ تحت سنہ ہجری 596ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  101. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 45، تذکرہ تحت سنہ ہجری 596ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  102. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 13، ص 49/51، تذکرہ تحت سنہ ہجری 597ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  103. حافظ شمس الدین الذہبی: العبر فی خبر من غبر، جلد 3، ص 126،  مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1405ھ، 1985ء
چھوٹی شاخ بنو ہاشم
پیدائش: 6 اگست 1158ء وفات: 5 اکتوبر 1225ء
مناصب سنت
ماقبل  خلیفہ اسلام
28 مارچ 1180ء – 5 اکتوبر 1225ء
مابعد