الیاس کشمیری (انگریزی: Ilyas Kashmiri) ایک پاکستانی فلمی اداکار تھے۔ [1]1928ء میں لاہور میں پیدا ہونے والے تقریباً سوا چھ فٹ کی قدوقامت کے مالک خوبرو نوجوان محمدالیاس کو اداکاری کا شوق تھا۔

الیاس کشمیری (اداکار)
معلومات شخصیت
پیدائش 25 دسمبر 1925ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بجبہاڑہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 دسمبر 2007ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ اداکار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فلمساز ، ہدایتکار اور اداکار نذیر کی دعوت پر ممبئی (بمبئی) پہنچا جہاں اداکارہ سورن لتا کے ساتھ فلم عابدہ (1947) میں ہیرو کے طور پر کام کیا۔ ایک اور فلم ملکہ (1947) میں ہیرو کے علاوہ فلم گل بکاؤلی (1947) میں معاون اداکار کے طور پر بھی نام ملتا ہے۔

ابتدائی دور ترمیم

لاہور کی فلم انڈسٹری اگرچہ 1924ء سے قائم تھی لیکن یہاں کا ہر فنکار پر پُرزے نکالتے ہی کلکتے یا بمبئی کا رُخ کرتا تھا اور آل انڈیا سطح پر شہرت حاصل کرنے کے خواب دیکھتا تھا۔

لاہور کے فنکاروں میں دیوانند، پران، اوم پرکاش نیر، اے آر کاردار، ایم اسماعیل، ڈی این مدھوک، کیدار شرما، غلام حیدر، فیروز نظامی، ظہور راجا اور نذیر نے بمبئی جاکر اپنے فن کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ کیدار شرما ہدایتکاری کی طرف نکل گئے، کاردار اور نذیر نے بھی فلم سازی اور ڈائریکشن کی طرف توجہ مبذول کی۔ دیوانند اور پران نے اداکاری کی دنیا میں ممبئی پر راج کیا، مدھوک نے گیت نگاری میں نام پیدا کیا جبکہ غلام حیدر، فیروز نظامی اور لاہور ریڈیو کے نوجوان گلوکار او پی نیّر نے موسیقار کے طور پر شہرت حاصل کی۔نذیر نے لاہور میں خاموش دور کی کئی فلموں میں کام کیا تھا۔ بمبئی پہنچنے کے بعد بھی وہ اپنے پنجابی دوستوں کو بمبئی مدعو کرتا رہا اور وہاں کی فلم نگری سے انھیں متعارف کراتا رہا۔1946ء میں اس نے دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری کو بمبئی بلایا اور اپنی فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول دیا۔[2]

تقسیمِ ہند کے بعد الیاس کاشمیری کئی مسلمان فنکاروں کے ہمراہ لاہور آگئے جہاں دو برس تک تو انھیں کوئی کام نہ ملا لیکن 1949ء میں جب آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل خوبرو الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول مِل گیا۔

یہ پاکستان میں ان کی پہلی فلم تھی۔ انھوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن انھیں اصل کامیابی پنجابی فلموں کے ذریعے ہی نصیب ہوئی۔ 1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کامیاب فلم کہلا سکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انھیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مِل گیا۔ [3]اگرچہ اُردو فلم اُنکی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لا زوال ثابت ہوا۔اس طرح کی کامیابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔[4]

الیاس کاشمیری بطور ہیرو ترمیم

تقسیم کے بعد واپس لاہور چلے آئے جہاں انھیں پاکستان کی دوسری پنجابی فلم مندری (1949) میں اداکارہ راگنی کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا گیا تھا۔ ہدایتکار داؤدچاند کی اوسط درجہ کی اس فلم میں ان دونوں پر فلمایا ہوا اپنے وقت کا یہ مقبول ترین گیت تھا "چناں چن چاننی تے موسم اے بہار دا۔۔" بابا چشتی کی دھن میں اس گیت کو منورسلطانہ اور قدیرفرید نے گایا تھا جبکہ ایف ڈی شرف نے بول لکھے تھے۔

الیاس کاشمیری بطور ولن ترمیم

الیاس کاشمیری ، ہیرو کے طور پر کامیاب نہیں ہوئے لیکن ولن کے طور پر بڑی شہرت ملی۔ فلمساز باری ملک کی تین بھاری بھر کم پنجابی فلموں ، ماہی منڈا (1956) ، یکے والی (1957) اور جٹی (1958) سے خاصا عروج ملا۔ اس دوران اردو فلم قسمت (1956) ریلیز ہوئی جس میں ان پر سلیم رضا کی گائی ہوئی یہ لوری فلمائی گئی تھی "سو جا ، میرے چاند ، میری آنکھ کے تارے۔۔" ایسا ہی ایک منفرد کردار اردو فلم وعدہ (1957) میں بھی تھا۔ اردو فلم انجام (1957) میں آخری بار روایتی ہیرو کے طور پر دیکھے گئے۔

اسی سال کی اردو فلم مراد (1957) میں پہلی بار ٹائٹل رول میں آئے اور پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔پنجابی فلم شیرا (1959) میں ایک منفرد ٹائٹل اور کامیڈی رول میں نظر آئے۔ یہ فلم اداکار حبیب کی پہلی پنجابی فلم تھی۔ پچاس کی دہائی کے اختتام تک تیس کے قریب فلموں میں کام کر چکے تھے۔

الیاس کاشمیری بطور فلم ساز ترمیم

ساٹھ کی دہائی میں الیاس کاشمیری نے ساٹھ سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ اس عشرے میں وہ مختلف النوع کرداروں میں نظرآئے۔ کبھی بڑی بڑی ایکشن فلموں کے مرکزی ولن ہوتے تو کبھی رومانٹک ، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر بنائی جانے والی اردو اور پنجابی فلموں میں مختلف کرداروں میں نظر آتے تھے۔

اس دوران انھوں نے واحد فلم عشق پر زور نہیں (1963) پروڈیوس کی۔ اس فلم میں مالا اور سائیں اختر کا گایا ہوا یہ لازوال گیت "دل دیتا ہے رو رو دہائی ، کسی سے کوئی پیار نہ کرے۔۔" فلم کی پہچان بنا۔ اسلم پرویز کی بطور ہیرو یہ آخری کامیاب فلم تھی جو اس دور میں اردو فلموں کے کامیاب ترین ولن بن چکے تھے۔

الیاس کاشمیری بطور معاون اداکار ترمیم

اس دور میں پنجابی فلموں میں ولن کے طور پر مظہرشاہ اور ساون کی اجارہ داری ہوتی تھی جبکہ الیاس کاشمیری ایک معاون اداکار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایک بامقصد اور اشارتی پنجابی فلم زمیندار (1966) کے ٹائٹل رول میں اپنے گاؤں میں اسکول بنانے کے سخت مخالف ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح یہ خطرہ ہوتا ہے کہ لوگ پڑھ لکھ گئے تو سوال کریں گے۔ کرپٹ حکمرانوں کو یہ کبھی گوارا نہیں رہا۔الیاس کاشمیری کا یہ کردار اصل میں ایوبی حکومت کے گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ پر طنز تھی جو اسکولوں کالجوں کے سخت خلاف تھے۔ جنرل ایوب ہی کیا کم آمر تھے کہ نواب صاحب ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔ یوں سمجھیں کہ اس وقت پاکستان میں آمریت در آمریت تھی۔یہ فلم 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے سلسلے میں پہلی بار آن لائن ریلیز کی تھی اور اس پر بڑا تفصیلی تبصرہ بھی لکھا تھا جو آج کے حالات کی بھی مکمل تصویر ہے۔پنجابی فلم پیداگیر (1966) میں الیاس کاشمیری نے سٹیج کے ایک کامیڈی اداکار کا دلچسپ رول کیا تھا۔ فلم مرزاجٹ (1967) میں ہیروئن کے باپ کے طور پر ان کے جذباتی مکالمے کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔[5]

الیاس کاشمیری کے لیے مسعودرانا کا گیت ترمیم

فلم بدلہ (1968) میں الیاس کاشمیری نے ایک گونگے کا کردار کیا تھا جو اپنے مالک سے بڑا وفادار ہوتا ہے لیکن سازشی عناصر اسے جیل پہنچا دیتے ہیں۔ اس صورت حال پر مسعودرانا کا الیاس کاشمیری کے لیے گایا ہوا پہلا گیت ایک ایکسٹرا اداکار محبوب کاشمیری پر فلمایا گیا تھا:

جہیڑے توڑدے نے دل برباد ہون گے ، اج کسے نوں روایا ، کل آپ رون گے۔[6]

یہ ایک ایسا لاجواب گیت تھا کہ جسے صرف مسعودرانا ہی گا سکتے تھے۔ پنجابی فلم دلاں دے سودے (1969) میں الیاس کاشمیری کا کردار وہی تھا جو اردو فلم انجمن (1970) میں سنتوش کا تھا۔[7]

الیاس کاشمیری کے عروج کا دور ترمیم

ستر کی دہائی کا آغاز ہی بڑا دھماکا خیز ہوا تھا۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری کی پہلی فلم ٹیکسی ڈرائیور (1970) میں الیاس کاشمیری کو ایک بھاری بھر کم ولن کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ فلم بابل (1971) کے ولن کے کردار نے الیاس کاشمیری کی اہمیت دوچند کر دی تھی لیکن فلم بشیرا (1972) میں 'چوہدری بلندا' کے کردار نے انھیں اگلے دو عشروں تک پنجابی فلموں کا مقبول اور مصروف ترین ولن بنا دیا تھا۔ یہ کردار ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر تھی جو اس حقیقت کی نشاندھی بھی تھی کہ ہر برائی کا منبع بااختیار اور مقتدر طبقات ہوتے ہیں۔ فلم ضدی (1973) میں وہ ایک بڑے خوفناک ولن کے طور پر سامنے آئے۔ اس فلم میں ان کا منہ کالا کر کے گلے میں جوتوں کا ہار ڈال کر گدھے پر گھمایا جاتا ہے۔ اس دوران ایک اور بھاری بھر کم پنجابی فلم بنارسی ٹھگ (1973) میں ٹائٹل رول میں تھے لیکن اس فلم کی کامیابی کا سارا کریڈٹ منورظریف کے حصے میں آیا تھا۔ اس فلم کے ایک مکالمے میں منورظریف ، الیاس کاشمیری کو 'دو منزلہ غنڈہ' بھی کہتے ہیں۔ ویسے فلمی حلقوں میں انھیں احترام سے 'تایا جی' کہا جاتا تھا۔ فلم عیاش اور استاد شاگرد کے علاوہ گاما بی اے (1976) میں بھی ٹائٹل رولز میں تھے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔۔[8]

ظالم جاگیردار کے کردار ترمیم

1970 کی دہائی کے وسط میں وحشی جٹ (1975) بنی جس کے مرکزی ولن الیاس کاشمیری تھے۔ اگلے دو عشروں تک پھر چل سو چل ، فلموں کے 'سلطانی دور' میں وہ ولن پارٹی کے سربراہ ہوتے تھے اور شاید ہی کوئی ولن یا ایکسٹرا اداکار ایسا ہوگا جس نے ان کے ساتھ کام نہ کیا ہو۔ 1980 کی دہائی میں انھوں نے فلم دوستانہ (1982) میں ایک سخت گیر باپ کا رول کیا تھا جو اپنی بیٹی کی مرضی کی شادی کو قبول نہیں کرتا اور اس کے خاوند کو قتل کروا دیتا ہے۔ اس کی بیٹی ماں بنتی ہے تو اس کے نومولود بچے کو بھی جان سے مارنے کے لیے کرائے کے آدمی کو ذمہ داری سونپتا ہے۔ اس موقع پر مسعودرانا کا کام شروع ہو جاتا ہے جو الیاس کاشمیری کے پس منظر میں ایک انتہائی پراثر گیت گاتے ہیں:[9]

دنیا گورکھ دھندہ ، ایتھے بھل جاندا انسان۔[10]

وفات ترمیم

الیاس کاشمیری نے اپنے ایک انٹرویو میں آٹھ سو سے زائد فلموں میں کام کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ پاکستان فلم میگزین پر ان کی چار سو سے زائد فلموں کا ریکارڈ موجود ہے۔ ایک چوتھائی اردو اور باقی پنجابی فلمیں تھیں۔ آخری فلم کے طور پر طوفان (2002) کا اندراج ہے۔ سلطان راہی کے ساتھ ڈیڑھ سو سے زائد فلمیں تھیں۔ الیاس کاشمیری کا انتقال 2007ء میں ہوا تھا۔[11]

حوالہ جات ترمیم

  1. Actor Ilyas Kashmiri passes away Dawn (newspaper), Published 13 December 2007, Retrieved 20 December 2017
  2. "ایک ولن کی موت" 
  3. "ایک ولن کی موت" 
  4. "ایک ولن کی موت" 
  5. "الیاس کاشمیری" 
  6. "JehRay toRday ne dil barbad hon gey" 
  7. "اک اداکار ایک دور" 
  8. "الیاس کاشمیری" 
  9. "بطور ولن اداکار الیاس کاشمیری" 
  10. "مکمل فلم دوستانہ 1982، گیت دنیا کورکھ دھندا" 
  11. "الیاس کاشمیری"