انسان کے چاند پر اترنے سے متعلق اختلافی نظریات

سازشی نظریات

21 جولائی 1969ء کو دنیا کے کئی ممالک میں live TV پر امریکا نے اپنے دو خلانوردوں کو چاند کی سطح پر اترتے ہوئے دکھایا اور 50 کروڑ لوگوں نے اسے دیکھا۔ لیکن کچھ ہی سالوں میں خود امریکا میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟ [1][2]
15 فروری 2001ء کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا ?Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon۔ یہ نشریات 19 مارچ کو دوبارہ نشر کی گئی۔

Buzz Aldrin اور نیل آرمسٹرانگ کی چاند پر اترنے سے پہلے کی تصویر جو ناسا نے جاری کی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی ہی فلمیں بنا کر چاند پر اترنے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔

وجوہات ترمیم

امریکا کے ایٹمی ہتھیار روس کے ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ بہتر اور چھوٹے سائز کے تھے اس لیے انھیں میزائلوں میں استعمال کرنے کے لیے چھوٹے راکٹوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس کے برعکس روسیوں کو اپنے بھاری ایٹمی ہتھیاروں کے لیے بہت بڑے راکٹوں کی ضرورت تھی اور اس وجہ سے روسی راکٹ سازی میں امریکا سے کہیں آگے نکل گئے۔ امریکا کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انھیں مات ہونے والی ہے۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔

روسی خلائی برتری ترمیم

پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957ء کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959ء میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961ء کو روسی خلا نورد یوری گاگرین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961ء میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کر بخیریت واپس بھی آجائیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکا کے لیے ممکن نہ تھا اس لیے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکا کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخص Bill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974ء میں ایک کتاب شائع کی جس کا نام تھا We Never Went to the Moon: America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966ء کو روسی خلائی جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔

ڈراما ترمیم

21 دسمبر 1968ء میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہ NASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکا نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈراما رچایا اور لندن کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ آپولو 11 جو 16جولائی 1969ء کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994ء میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈراما رچانے کی بازگشت دسمبر 1968ء میں سنی گئی تھی۔

اعتراضات ترمیم

 
Comparison of geostationary, GPS, GLONASS, Galileo, Compass (MEO), International Space Station, Hubble Space Telescope, Iridium constellation and graveyard orbits, with the Van Allen radiation belts and the Earth to scale.[ا] The Moon's orbit is around 9 times larger than geostationary orbit.[ب] (In the SVG file, hover over an orbit or its label to highlight it; click to load its article.)

چاند تک پہنچنے کے لیے انسانوں کو وان ایلن ریڈیئشن بیلٹ (Van Allen radiation belts) سے گذرنا پڑتا ہے جو صحت کے لیے سخت خطرہ بن سکتی ہیں۔ زمین کے قریبی مداروں میں جانے کے لیے ان خطرناک تابکار بیلٹ میں سے نہیں گذرنا پڑتا۔ اس کے باوجود زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لیے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لے لیا۔
کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969ء میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنولوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972ء میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔
ناسا نے انسان کی چاند پر جو تصویریں اور ویڈیو دکھائی تھیں ان میں کبھی آسمان پر کوئی ستارہ نظر نہیں آیا۔ چونکہ چاند پر کرہ ہوائی نہیں ہے اس لیے وہاں دن کو بھی تارے نظر آنے چاہیئں۔

گمشدہ ٹیپ ترمیم

چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد slow scan television -SSTV فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈیٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اس لیے 1969ء میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنولوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سے SSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لیے مٹائے جا چکے ہیں اور Nasa آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔

گمشدہ ڈرائنگ ترمیم

چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔

ناسا کی تردید ترمیم

ناسا ہمیشہ ایسے اعتراضات کی تردید کرتی آئی ہے۔
2002ء میں ناسا نے James Oberg نامی شخص کو پندرہ ہزار ڈالر اس بات پر انعام دیے کہ اس نے چاند پر پہنچنے کو ناسا کا ڈراما کہنے والوں کے اعتراضات کا نقطہ بہ نقطہ جواب دیا۔
غالباً ایسی ہی کسی وجہ سے Myth Busters کی سیریل میں ایسے اعتراضات کو غلط ثابت کیا گیا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Ten Reasons the Moon Landings Could Be a Hoax
  2. "How Stanley Kubrick Faked the Apollo Moon Landings"۔ 04 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2015 

بیرونی ربط ترمیم