ایئر چیف مارشل انور شمیم ،پاکستان کی فضائیہ کے قابل فخر شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے ہیرو رہے۔ وہ پاک فضائیہ کے نہایت سخت گیر افسران میں سے رہے ہیں۔ ہر لمحے کچھ بڑا کرنے کو بیتاب رہنے والے۔

انور شمیم
معلومات شخصیت
پیدائش 1 اکتوبر 1931ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہری پور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 جنوری 2013ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کمبائنڈ ملٹری ہسپتال، راولپنڈی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی ایئرکمانڈ اینڈ اسٹاف کالج  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فوجی افسر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی حالات ترمیم

ایئر چیف مارشل انور شمیم ہری پور میں یکم اکتوبر 1931ء کو پیدا ہوئے۔ 1952ء میں پاک فضائیہ میں شمولت اختیار کی۔ چار جنوری 2013ء کو اکیاسی برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

پیشہ ورانہ کارنامے ترمیم

1978ء]] میں پاک فضائیہ کے سربراہ بنے۔ انور شمیم جب افسر سے پاک فضائیہ کے سربراہ بنے تو انگریزوں سے ورثے میں ملنے والی پاک فضائیہ کو آج کی جدید پاک فضائیہ میں بدل ڈالا۔ امریکا سے ایف 16 اور چین سے اے 5 لڑاکا طیارے حاصل کرکے پرانے طیاروں کو چلتا کیا۔ پاک فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر چک لالہ منتقل کیا اور کئی نئے ایئر بیس کھڑے کر دیے۔

افغان جنگ کے دوران میں تینوں مسلح افواج میں سے صرف پاک فضائیہ تھی جس نے روسی افواج سے طویل دو بدو جنگ لڑی۔ پاکستان کی فضائی سرحدوں کی حفاظت کی یہ جنگ جو انور شمیم کے دورانیے میں لڑی گئی اس لحاظ سے قابل تعریف ہے کہ پاک فضائیہ نے ان جھڑپوں میں آٹھ روسی لڑاکا طیارے مار گرائے جبکہ اس کا صرف ایک ایف 16 طیارہ تباہ ہوا جس کا پائلٹ فلائٹ لیفٹنٹ شاہد سکندر پیرا شوٹ کی مدد سے بحفاظت زمین پر اترنے میں کامیاب رہا تھا یوں پاک فضائیہ کو اس جنگ کے دوران میں کسی جانی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ایئر مارشل انور شمیم کا دوسرا بڑا کارنامہ 1984ء میں کہوٹہ پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کو ناکام کرنا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد مجھے بیرون ملک سے کال موصول ہوئی کہ اسرائیل کے لڑاکا طیارے انڈیا کی طرف جاتے دیکھے گئے ہیں۔ میں نے فورا پاک فضائیہ کو ہائی الرٹ کے احکامات جاری کیے، فوری طور پر جنرل ضیاء الحق کو آگاہ کیا اور ساتھ ہی ان سے ٹرامبے میں واقع بھارت کے بھابا نیوکلیئر پلانٹ کو جوابی حملے میں تباہ کرنے کی اجازت حاصل کرلی۔ رات دو بجے پوری پاک فضائیہ کا 80 فیصد سٹاف اپنی اپنی ڈیوٹی سنبھال چکا تھا اور ہمارے لڑاکا طیارے روالپنڈی اور اسلام آباد کی فضاؤں میں نچلی اور درمیانی سطح پر پرواز شروع کرچکے تھے۔ اس دوران میں بھارت کو ہماری تیاری کی اطلاع دیدی گئی یوں وہ اور اسرائیل اپنی حماقت سے باز آ گئے۔

ایئر مارشل انور شمیم کا تیسرا اور نہایت ہی اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے میزائل پروگرام کے بانیوں میں سے ہیں۔ ہماری باقاعدہ سٹریٹیجک کمانڈ فورس تو پچھلے بارہ سالوں کے دوران میں بنی ہے لیکن ایئر فورس کی سٹریٹیجک کمانڈ انور شمیم اسی کی دہائی میں بنا چکے تھے کیونکہ تیار ہوتے ایٹم بم کے استعمال کا پہلا ممکنہ آپشن پاک فضائیہ ہی تھی۔ تب جنرل ضیاء نے پاکستان کے شروع ہوتے میزائل پروگرام کا چارج بھی اس سٹریٹیجک کمانڈ کے سپرد کر دیا یوں منیر اے خان کا پروجیکٹ ایئر مارشل انور شمیم کی براہ راست نگرانی میں آ گیا۔ ہمارے میزائلوں کی پہلی نسل جو حتف سیریز کہلاتی ہے اور جس کا پہلا تجربہ 1989ء میں ہوا تھا یہ انور شمیم ہی کی محنت کا حاصل تھا۔

پیشہ ورانہ اصولوں کی پاسداری کے حوالے سے ان کے غیر متزلزل طرز عمل کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 1982ء میں وہ پی اے ایف مسروربیس کراچی میں ہونے والی سالانہ پریڈ میں شرکت کے لیے آنے لگے تو احکامات بھجوادئے کہ پریڈ مذہبی ونگ کا افسر کروائے گا۔ ایئر فورس کے مذہبی ونگ کے افسران علما ہی ہوتے ہیں اور وہ ان ایکٹوٹیز سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ تب مسرور بیس پر سکوارڈن لیڈرمولانا فضل اللہ مذہبی ونگ کے سربراہ تھے۔ ان تک یہ احکامات پہنچے تو وہ ہکا بکا رہ گئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا کہ باس کے آڈرز ہیں کہ ایئرفورس کا کوئی بھی وردی پوش افسر اب کسی بھی چیز سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔ پریڈ کروائے یا وردی اتارنے کی تیاری کیجئے۔[حوالہ درکار] سکوارڈن لیڈر مولانا فضل اللہ صاحب نے اگلے ایک ہفتے میں پریڈ کی تربیت لی اور ایسی پریڈ کروائی کہ انورشمیم سے ان کی تقریر میں داد بھی پائی۔ فضل اللہ صاحب پریڈ کے اگلے روز فرما رہے تھے "پریڈ کراتے ہوئے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں " ۔۔

ایئرفورس کا سربراہ بننے سے ایک سال قبل انھیں برطانیہ میں پاکستان کا ملٹری اتاشی بنا کر بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو برطانیہ نے انھیں کلیئر نہیں کیا اور بطور پاکستانی ملٹری اتاشی انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ برطانیہ کے اس فیصلے کے نتیجے میں جنرل ضیاء کو ادراک حاصل ہوا کہ جو برطانیہ کے لیے ناقابل قبول ہو وہ تو پھر پاکستان کے لیے بہت ہی قابل قبول ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اگلے سال تین جرنیلوں پر سپر سیڈ کرکے انھیں فضائیہ کا سربراہ بنا دیا گیا۔

ایئر چیف مارشل انور شمیم کو ان کی اہمیت کے سبب بار بار ملازمت میں توسیع دی گئیں، وہ تقریباً سات سال پاک فضائیہ کے سربراہ رہے اور 1985ء میں ریٹائر ہوئے۔

تصنیف ترمیم

" دی کٹنگ ایج"

اعزازات ترمیم

وہ پاکستانی ملٹری کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی اعزازات پانے والے افسران میں سے ہیں۔ ان کے بڑے اعزازات میں ستارہ امتیاز (ملٹری) ہلال امتیاز (ملٹری) نشان امتیاز (ملٹری) اور ستارہ جرات شامل ہیں جبکہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد ڈیپوٹیشن پر اردن میں رہتے ہوئے اردن کی فضائیہ کو از سر نو بحال کرنے پر انھیں اردن کی طرف سے الاستقلال ایوارڈ دیا گیا۔ انھیں امریکا کی جانب سے Legion of Merit (ملٹری) ایوارڈ بھی دیا گیا جو پاک فضائیہ کو دنیا کی صف اول کی ایئرفورسز میں لا کھڑا کرنے کے اعتراف میں تھا۔

حوالہ جات ترمیم

٭ رعایت اللہ فاروقی (کالم نگار روزنامہ دنیا )