اگستیہ

ویدی عہد کا یوگی

اگستیہ یا اگستیا (ہندی: अगस्त्य) ہندو مت میں ویدوں کے ایک مشہور دانشور (رشی) تھے۔[3][4] ہندوستانی روایات کے مطابق وہ ایک قابل ذکر سنیاسی اور برصغیر کی مختلف زبانوں میں ایک بااثر عالم تسلیم کیے گئے ہیں۔ وہ اور ان کی زوجہ لوپا مُدرا سنسکرت کی مذہبی کتاب رگ وید کے بھجن 1.165 تا 1.191 اور دیگر ویدی ادب کے مصنف ہیں۔[4][5][6]

اگستیہ
اگستیہ (اگستھیار)
اگستیہ کا مجسمہ
لقباگستیہ
ذاتی
مذہبہندومت
شریک حیاتلوپامدرا[1]
اولاددِرِڑچِیُت[1]
اگستیہ کا سونے کا مجسمہ

اگستیہ کا نام متعدد داستانوں اور پرانوں (مثلاً دیومالائی کہانیوں اور علاقائی داستانوں) میں آتا ہے جن میں خاص طور پر رامائن اور مہا بھارت شامل ہیں۔[6][7] وہ ویدوں کے سات یا آٹھ انتہائی قابل احترام رشیوں میں سے ایک ہیں،[8] اس کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر شیو مت کی روایت تمل سِدّھار میں ایک سِدّھار کی حیثیت سے آتا ہے۔ علاوہ ازیں شکتی مت اور ویشنو مت کے پرانوں میں بھی ان کو بہت قابل قدر گردانا گیا ہے۔[9] نیز وہ ان ہندوستانی دانشوروں میں سے ایک ہیں جن کے قدیم مجسمے اور خاکے جنوبی ایشیا کے ہندو مندروں اور جنوب مشرقی ایشیا جیسے جاوا، انڈونیشیا وغیرہ میں ابتدائی قرون وسطیٰ میں تعمیر شدہ شیو کے مندروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قدیم جاوی زبان کی تحریر، اگستیہ پرب میں وہ ایک بنیادی کردار اور استاذ کا درجہ رکھتے ہیں جس کا 11 ویں صدی کا نسخہ اب تک موجود ہے۔[10][11]

اگستیہ کو روایتی طور پر کئی سنسکرت تحریروں کا مصنف مانا جاتا ہے، جیسے اگستیہ گیتا کو وراہ پران میں پایا گیا، اگستیہ سمہیتا کو اسکند پران اور "دویدھ نرنئے تنتر" میں پایا گیا۔[6] علاوہ ازیں ان کی دیومالائی شخصیت کا حوالہ من، کلساج، کمبھاج، کمبھایونی اور میترا ورونی کی حیثیت سے بھی دیا جاتا ہے۔[10][12][13]

وجہ تسمیہ ترمیم

 
بیٹھے ہوئے مافوق البشری دانشور اگستیہ

اگستیہ کے اشتقاق کے حوالے سے متعدد نظریات ہیں۔ ایک نظریے کے مطابق "اج" یا "انج" اس کا مادہ ہے جس کے معنی "روشن اور چمکنے والے" کے ہیں اور اس کا تعلق اگستیہ سے جوڑتا ہے، یعنی جو اندھیرے میں "روشنی پھیلاتا" ہے اور اگستیہ روایتی طور پر کینوپَس کا ہندوستانی نام ہے جو جنوب ایشیائی آسمانوں پر سیریس (Sirius) کے بعد دوسرا سب سے زیادہ چمک دار اور روشن ستارہ ہے۔[14] دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس کو ایک پھولوں والے درخت سے بنایا گیا ہے جس کا نام اگاتی گاندی فلورا ہے، یہ برصغیر میں پایا جاتا ہے اور اسے تمل میں"اکٹّی" کہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق "اگاتی" ارتقا پاکر "اگاستیح" میں تبدیل ہوا یہ نظریہ ویدوں کے اس دانش ور کی جڑیں دراوڑی ماخذ سے جوڑتا ہے۔[15]

تیسرا نظریہ اگستیہ کا تعلق ہند یورپی ماخذ سے جوڑتا ہے، اس نظریہ کے مطابق یہ ایرانی لفظ گستہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی "گناہ اور ناپسندیدہ" کے ہیں اور اگستہ کا مطلب ہوگا "بے گناہ، پسندیدہ"۔[16]چوتھا نظریہ لوک ماخذ سے منسوب ہے جو رامائن کے اشلوک 2.11 میں بیان کیا گیا ہے کہ اگستیہ، اگا (جامد یا پہاڑ) سے لیا گیا ہے اور مل کر یہ جڑیں یہ مطلب بیان کرتی ہیں "وہ شخص جو پہاڑوں کو ہلا دے" یا جامد چیزوں کو ہلا دے۔[17] اس لفظ کو اگستی اور اگستھیار بھی لکھا جاتا ہے۔((تمل: அகத்தியர்)‏ Agathiyar؛[18] (تیلگو: అగస్త్య)‏؛ (کنڑا: ಅಗಸ್ತ್ಯ)‏؛ (ملیالم: അഗസ്ത്യൻ or അഗസ്ത്യമുനി)‏ (مالے: Anggasta)‏؛ (تائی لو: Akkhot)‏)[18]

حالات زندگی ترمیم

 
مہارشی اگستیہ اور لوپامدرا

رگ وید (1500 تا 1200 قبل مسیح) کے متعدد بھجنوں کے مصنف کو اگستیہ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ بھجن ان کے حالات زندگی کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے ہیں۔[4][19] اگستیہ کے ماخذ افسانوی ہیں۔ اپنی روایتوں میں ویدوں کے زیادہ تر دانش وروں کے برعکس ان کی نہ تو کوئی انسانی ماں ہے نہ باپ۔ ان کی کرشماتی پیدائش ایک یوجنا کے بعد ہوتی ہے، جس کو ورون دیوتا اور متر دیوتا نے ادا کیا تھا، جہاں پر کائناتی اپسرا اُروَشی نمودار ہوتی ہے۔[20] دونوں دیوتا اُروشی کی غیر معمولی جنسی کشش سے جوش میں آجاتے ہیں اور مادّہ منویہ (نطفہ) کا اخراج کرتے ہیں۔ ان کا مادّہ منویہ کیچڑ کی ایک دلدل میں گرتا ہے، جو ایک ایسا رحم ہے، جس میں اگستیہ کا نطفہ پربن چڑھتا ہے۔ وہ اس مرتبان سے پیدا ہوتے ہیں؛ بعض دیومالائی داستانوں میں ان کے ساتھ ان کا جڑواں دانشور بھائی وسشٹھ پیدا ہوتا ہے۔[21] یہ دیومالائی داستان انھیں کمبھایونی کا نام دیتی ہے، جس کے لفظی معنی "وہ شخص جس کا رحم کیچڑ کا مرتبان ہو"۔[20][22]

اگستیہ پاکیزہ اور نظم و ضبط سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں، خود کو تعلیم یافتہ کرتے ہیں اور معروف دانشور بن جاتے ہیں۔ وہ برہمن والدین سے پیدا نہیں ہوتے، لیکن ان کو بہت ساری ہندوستانی تحریروں میں ان کے علم و دانش کی وجہ سے 'براہمن' کہا جاتا ہے۔ ان کے نامعلوم ماخذ نے قیاس آرائیوں پر مبنی اس تجویز کو شہ دی ہے کہ ویدوں کے دور کے اگستیہ مہاجر آریائی ہو سکتے ہیں، جن کے خیالات نے جنوب کو متاثر کیا اور متبادل طور پر ایک آبائی غیر آریائی دراوڑ، جن کے خیالات نے شمال کو متاثر کیا۔[23][24][25]

پران کی اور قدیم داستانوں کی عدم تسلسل پر مبنی روایتوں کے مطابق ، پرہیز گار دانش ور اگستیہ نے لوپا مُدرا کو شادی کا پیغام بھیجا، جو ریاست ودربھ میں پیدا ہونے والی ایک شہزادی تھیں۔ شہزادی کے والدین اس شادی سے راضی نہیں تھے؛ انھیں اس بات کی فکر تھی کہ اگستیہ کی تنگ دستی کے باعث ان کی بیٹی صحیح طریقے سے جنگل میں رہ نہیں پائے گی۔ تاہم روایات کے مطابق، لوپا مُدرا نے ان کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کر لیا ، یہ کہتے ہوئے کہ اگستیہ کے پاس پرہیز گاری کی دولت ہے، خود شہزادی کی اپنی جوانی بھی ڈھل جائے گی اور یہ کہ اگستیہ کی نیکی ہی ہے جو اس رشتے کے لیے مناسب ہے۔ اس طرح لوپا مدرا ، اگستیہ کی بیوی بن گئیں۔ دیگر روایتوں میں لوپا مدرا اگستیہ سے شادی کرتی ہیں، لیکن شادی کے بعد وہ اگستیہ سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ انھیں بنیادی آسائشیں فراہم کریں تب ہی ان کے رشتے کا نباہ ہو پائے گا۔ یہ ایک ایسا تقاضا[26] ہوتا ہے جو آخر کار اگستیہ کو مجبور کرتا ہے کہ معاشرے میں واپس جاکر دولت کمائیں۔[27]

اگستیہ اور لوپا مدرا کا ایک بیٹا ہوتا ہے، جس کا نام دِرِڑچِیُت ہے، جس کا نام بعض اوقات اِدھمواہ لیا گیا ہے۔ مہابھارت میں اسے ایک ایسے لڑکے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو رحم مادر میں اپنے والدین سے سن کر ویدوں کو سیکھتا ہے اور دنیا میں بھجن پڑھتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔[1]

اگستیہ آشرم ترمیم

اگستیہ کا ایک آشرم تھا، لیکن قدیم اور قرون وسطیٰ کی ہندوستانی تحریروں کے مطابق اس آشرم کی کہانیوں اور مقامات میں تضاد ہے۔ دو روایتوں میں اس آشرم کا مقام شمال مغربی مہاراشٹر بتایا گیا ہے، ناسک کے قریب چھوٹے سے قصبوں اگستیہ پوری اور اکولے میں دریائے گوداوری کے کناروں پر۔ شمالی اور مشرقی ہندوستانی ذرائع میں ممکنہ مقامات کولہا پور کے قریب (مہاراشٹر کرناٹک کی سرحد پر مغربی گھاٹ) یا قنّوج (اترپردیش) یا اگستیہ مُنی گاؤں میں رُدرا پریاگ (اتراکھنڈ) کے قریب یا ستپوڑا سلسلہ کوہ (مدھیہ پردیش)۔ جنوبی ذرائع اور شمالی ہندوستانی دیوی بھگوَت پُران میں ان کا آشرم تمل ناڈو میں واقع ہے، جس کے لیے مختلف مقامات ترونل ویلی، پوتھی ول پہاڑیاں یا تنجاور کے نام لیے گئے ہیں۔[28]

تحریری مآخذ ترمیم

وید ترمیم

اگستیہ کا تذکرہ ہندو مت کے تمام چار ویدوں میں آیا اور یہ برہمانوں، آرانیاکاؤں، اُپنیشدوں، داستانوں اور بہت سارے پُرانوں میں ایک کردار ہے۔[13] وہ رگ وید کے بھجن 1.165 تا 1.191 کا مصنف ہے۔[4][19] وہ ویدوں کا ایک مدرسہ (گروکُل) چلاتے تھے جس کی شہادت رگ وید کے بھجن 1.179 میں ملتی ہے جو بتاتا ہے کہ اس کی مصنفہ ان کی اہلیہ لوپا مدرا اور ان کے شاگرد ہیں۔[13] ویدوں کے دور میں وہ ایک قابل احترام دانشور تھے، کیونکہ رگ وید کے دیگر دانشوروں کی جانب سے بہت سارے مرتبہ بھجن اگستیہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگستیہ کی جانب سے ترتیب دیے گئے بھجن زبانی کھیل اور تشبیہات ، ذہنی آزمائشوں اور الفاظ کی چھیڑ چھاڑ اور توجہ مبذول کرانے والے خاکوں کے حوالے جانے جاتے ہیں؛ جن میں ان کا روحانی پیغام پوشیدہ ہے۔[29]

ویدوں میں اگستیہ کے اشلوک

تیرے ساتھ، اے اِندر بہت فراخی اور خوش حالی ہے،
جو ہر اس شخص کو ترقی دیتے ہیں جو نیک زندگی گزارتا ہے۔
اب دعا ہے کہ یہ ماروتس ہم پر محبت کرنے والی مہربانی ظاہر کریں،
کم زوروں کے دیوتا ہماری مدد کریں۔
    — 1.169.5،
    ترجمہ: رالف ٹی۔ ایچ۔ گریفیتھ[30]

دعا ہے کہ ہم غذا سے لبریز ہو جائیں اور اس برادری سے جہاں کے بہتے پانی زندگی بخش ہوں۔
    —1.165، 1.166.15، 1.167.11، وغیرہ
    ترجمہ: اسٹیفانی جیمی سن، جوئل بریریٹن؛[29] سنسکرت اصلی: एषा यासीष्ट तन्वे वयां विद्यामेषं वृजनं जीरदानुम् ॥१५॥

رگ وید

ان کی ویدوں کی شاعری خاص طور پر دو نہجوں کے حوالے سے قابل ذکر ہے۔[29] بھجن کے ایک خانے میں اگستیہ دو افواج کے مابین تصادم کو ظاہر کرتے ہیں جن کی قیادت الگ الگ دو دیوتا اِندر اور ماروتس کر رہے ہیں، جس کی ویدی علما نے تشریح کی۔ ایس۔ غوریے نے نظمیہ طور پر ایک تصادم کی شکل میں بیان کی ہے، جو آریہ (اِندر) اور داس (ردر) کے درمیان ہے۔[24][31] اگستیہ کامیابی سے ان کی محاذ آرائی کو حل کرتے ہیں، نذرانہ پیش کرتے ہیں – جس میں یہ دعا کرتے ہیں کہ دونوں دیوتاوں کے مابین ہم آہنگی محبت پر مبنی برتاؤ پیدا ہو۔ رگ وید کے منڈل 1 میں ستائیس میں اکیس بھجن جو انھوں نے ترتیب دیے ہیں، ان میں اختتام پر ان کے دستخط ہیں، جہاں پر وہ التجا کرتے ہیں، "دعا ہے کہ ہر برادری غذا اور بہتے پانیوں سے مالا مال ہو"۔[29] یہ خیالات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آریہ اور دسا دونوں کے محافظ تھے۔[32] تاہم، بعض علما اسی بھجن کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ یہ نظمیہ پیش کش دو متصادم نظریات یا طرز زندگی کا عکّاس ہے، کیونکہ اگستیہ نے کبھی آریہ یا دسا کے الفاظ استعمال نہیں کیے اور صرف اُبھاؤ واناو (لفظی طور پر "دونوں رنگ") کی اصطلاح استعمال کی ہے۔[24][33][34] "دوطرفہ ہم آہنگی" کا پہلو اور خیال بہ حیثیت دائمی مفاہمت—اگستیہ کے نام کے ساتھ – ہندو مت کے ایتاریہ ارانایکہ کی شق 1.2.2 میں دوبارہ نمودار ہوتا ہے۔[35]

دوسرا پہلو – ہندو مت کے ادب میں معروف—ان کی اہلیہ لوپا مدرا اور ان کے مابین گفتگو کی شکل میں ہے۔ جو اس انسانی تناؤ کی عکاسی کرتا ہے، جو روحانیت کی تلاش میں سنیاسی بن جانے اور گھریلو زندگی و خاندان پربن چڑھانے کی درمیان کش مکش سے پیدا ہوتا ہے۔ اگستیہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ خوشی اور آزادی کے حصول کے بہت سارے راستے ہیں، جبکہ لوپا مدر زندگی کی فطرت، وقت اور دونوں کے امکانات کی دلیل پیش کرتی ہیں۔ وہ کامیابی سے اگستیہ کو رجھاتی ہیں۔ تشبیہ سے بھرپور رگ وید کے بھجن 1.179 کی شکل میں ہے۔[29][36]

اگستیہ کا حوالہ رگ وید (1500 تا 1200 قبل مسیح) کے دونوں قدیم ترین اور جدید ترین نسخوں میں دیا گیا ہے، جیسے منڈل 7 کے بھجن 33 میں، جو منڈل 1 سے زیادہ قدیم ہے۔[37] ان کا تذکرہ دیگر تین ویدوں اور ویدانگ ادب میں بھی کیا گیا ہے — جیسے نیروکتا کے اشلوک 5.13 تا 14۔[13][37] اگستیہ اور ان کے خیالات ویدوں کی متعدد تحریروں میں بیان کیے گئے ہیں — جیسے تیتیریا کی شق 7.5.5، کتھک سمہیتا کی 10.11، میترایانی سمہیتا کی 2.1، ایتاریا برہمنا کی 5.16، تیتریا برہمنا کی 2.7.11 اور پنکاوی مستی برہمنا کی 21.14۔[17]

رامائن ترمیم

 
بہار سے اگستیہ کا بارہویں صدی کا مجسمہ

دانشور اگستیہ کا ہندو داستان رامائن کے متعدد ابواب میں تذکرہ ہے، جس میں ان کی سنیاسی زندگی کو دریائے گوداوری کے کناروں پر گزارتے ہوئے بیان موجود ہے۔[38]

رامائن میں بیان کیا گیا ہے کہ اگستیہ اور لوپا مدرا ونداک جنگل میں رہتے ہیں، جو وندھیا پہاڑوں کی جنوبی ڈھلانوں میں واقع ہے۔ رام نے اگستیہ کی ایک ایسے شخص کے طور پر تعریف کی ہے جو وہ کام بھی کر سکتا ہے، جس کو دیوتا نا ممکن سمجھیں۔ رام نے ان کو ایک ایسے دانشور کے طور پر بیان کیا ہے جس نے وندھیا پہاڑوں سے کہا تھا کہ وہ نیچے ہو جائیں تاکہ سورج، چاند اور دیگر زندگی رکھنے والے اجسام ان کے اوپر سے گذر سکیں۔ ان کو ایک ایسے دانش ور کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے جو دھرم کی قوتوں کو شیطانوں جیسے وِتاپی اور اِلوالا کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جنھوں نے 9,000 انسانوں کو گم راہ اور تباہ کیا۔[7]

رامائن کے مطابق اگستیہ ایک منفرد دانشور ہیں، جن کا قد چھوٹا ہے، بدن بھاری بھرکم ہے، لیکن جنوب میں رہنے کی وجہ سے وہ شیو کی قوتوں اور کیلاش و میرو پہاڑ کے وزن کے مابین توازن قائم رکھتے ہیں۔[39] اگستیہ اور ان کی اہلیہ رام، سیتا اور لکشمن سے ملتے ہیں۔ وہ انھیں الوہی کمان اور تیر دیتے ہیں؛ راون کی شیطانی فطرت بیان کرتے ہیں؛ اور، ولیم بَک، بی۔اے۔ وان نُوٹن اور شرلے ٹرائیسٹ کے مطابق ان کو الوداع کہتے ہوئے یہ مشورہ دیتے ہیں، "رام! شیطان انسانوں سے محبت نہیں کرتے ہیں، لہٰذا انسانوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے"۔[17][40]

مہا بھارت ترمیم

اگستیہ کی کہانی کا عکس دوسری اہم ہندو داستان مہا بھارت میں ملتا ہے۔ تاہم، رام کے بہ جائے کہانی کو ویسمپایانا اور لوماسا کے درمیان گفت گو کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، جو کتاب 3 کی شق 33 میں موجود ہے، ون پرو (جنگل کی کتاب)۔[41]

فائل:Agastya drinks the ocean.jpg
مہارشی پورا سمندر پیتے ہوئے

داستان میں ان کو ایک ایسے دانشور کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس کے معدے میں شکم خوری اور ہضم کرنے کی بے پناہ قوتیں ہیں۔[20] اگستیہ، ایک بار پھر – وندھیا پہاڑوں کو اوپر بڑھنے سے روک دیتے ہیں اور انھیں پست کر دیتے ہیں؛ اور وہ وتاپی اور اِلوالا شیطانوں کو اسی افسانوی انداز میں قتل کرتے ہیں، جیسے رامائن میں بیان کیا گیا ہے۔ وانا پاروا بھی لوپامدر اور اگستیہ کی منگنی اور شادی ہونے کی کہانی بیان کرتی ہے۔ یہ اس افسانوی کہانی پر بھی مشتمل ہے ، جس میں اِندر اور وریترا کے درمیان جنگ کا تذکرہ ہے، جہاں تمام شیطان سمندر میں چھپ جاتے ہیں؛ دیوتا اگستیہ سے مدد کی درخواست کرتے ہیں ، جو ان کے کہنے پر جاتے ہیں اور سمندر کا تمام پانی پی جاتے ہیں؛ جس کے نتیجے میں شیطان دیوتاؤں کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں۔[41]

پُران ترمیم

ہندو مت کے پُرانوں کے ادب میں اگستیہ کے بارے میں متعدد کہانیاں ہیں – زیادہ تفصیل ، زیادہ شان دار اور غیر تسلسل پر مبنی—بہ نسبت ان دیومالائی داستانوں کے ، جو ہندوستان کے ویدوں کے ادب اور داستانوں میں پائی جاتی ہیں۔[6] مثال کے طور پر متسیہ پُران کے باب 61، پدما پُران کے باب 22 اور سات دیگر مہا پُران، اگستیہ کے تمام حالات ِ زندگی بیان کرتے ہیں۔[17][37]بعض ان کو سپتا رشی(سات عظیم رشیوں کا زمرہ) میں سے ایک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں، جبکہ دیگر میں ہندو روایتوں میں وہ آٹھ یا بارہ غیر معمولی دانش وروں میں شمار ہوتے ہیں۔[42] مختلف پُرانوں میں نام اور تفصیلات عدم تسلسل کا شکار ہیں اور یہی عدم تسلسل اسی پُران کے مختلف قلمی نسخوں میں پایا جاتا ہے۔ ان کو مختلف مقامات پر اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے، جس میں انگیراس، اطری، بھریگو، بھارگاو، بھردواج، وشوامتر، واسستھا، کیشواپ، گوتم، جامادگنی اور دیگر شامل ہیں۔[43]

اگستیہ کا نام تمام اہم ہندو روایتوں کے پُرانوں میں بڑے احترام سے لیا جاتا ہے: شیو مت، شکتی مت اور ویشناوی مت۔ بہت سے پُرانے طویل اور تفصیلی انداز میں اگستیہ اور دیگر سپتا رشیوں کی اولادوں کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔[17][43]

تمل تحریریں ترمیم

 
اگستیہ، تمل ناڈو

تمل روایتوں میں، اگستیہ کو تمل زبان کا باپ اور تمل زبان کے قواعد کا مؤلف تصور کیا جاتا ہے؛ انھیں اگاتّیام یا اکاتّیام کہا جاتا ہے۔[44][45][24] تمل روایتوں میں اگستیہ ثقافتی ہیرو ہیں اور متعدد تمل تحریروں میں نمودار ہوتے ہیں۔[46]

اگستیہ کے بارے میں شمالی اور جنوبی (تمل) روایتوں میں یکسانیتیں اور اختلافات ہیں۔ اِراواتھم مہادیون کے مطابق،[24] دونوں روایتیں بیان کرتی ہیں کہ اگستیہ نے شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کی۔ تمل تحریر پُران نورو– جس کی تاریخ سنہ مشترکہ کے آغاز کی دی گئی ہے – یا ممکنہ طور پر دوسری صدی سنہ مشترکہ – کے اشلوک 201 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگستیہ نے بہت سارے لوگوں کے ساتھ جنوب کی جانب ہجرت کی۔[24][47]

شمالی روایتوں میں اگستیہ کا کردار ویدوں کی روایت پھیلانے سنسکرت پر زور دینے پر مشتمل ہے،[48] جبکہ جنوبی روایات میں ان کا کردار آبپاشی، زراعت اور تمل زبان کی اہمیت اجاگر کرنے پر مشتمل ہے۔[24] شمال میں ان کا نسب نامہ نامعلوم ہے اور افسانوی روایتیں اپنے آپ کو اس حد تک کہنے پرمحدود رکھتی ہیں کہ اگستیہ دلدلی کیچڑ سے پیدا ہوئے۔ جنوبی روایتوں میں ، ان کا دلدلی کیچڑ سے ظہور مشترکہ حوالہ ہے، لیکن دو متبادل جنوبی روایات انھیں سنکم (سنگم) قوم کا بتاتی ہیں—اور کہا جاتا ہے انھوں نے اٹّھارہ ویلیر قبیلوں کی دوارکا سے جنوب کی جانب ہجرت میں قیادت کی۔[49][50]

مہادیون کہتے ہیں کہ شمالی روایتی کہانیاں "ناقابل یقین افسانوں کے مجموعے سے زیادہ آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتیں"، جبکہ جنوبی پہلو "زیادہ حقیقت پر مبنی تاریخی واقعات اور زمینی حقائق سے زیادہ میل کھاتے نظر آتے ہیں"۔[24] دیگر اختلاف کرتے ہیں۔ کے۔این۔ شیو راج پِلے کے مطابق، مثال کے طور پر وسطی پہلے ہزاریے سنہ مشترکہ سے پہلے ابتدائی سنگم ادب یا کسی تمل تحریرمیں کچھ نہیں ہے ، جو اگستیہ کا حوالہ دے۔[51][52] رچرڈ ویس کے مطابق، تمل زبان میں اگستیہ کے کردار کا سب سے ابتدائی حوالہ ایرائیاناراکاپورول میں 8 ویں صدی میں ملتا ہے۔ تاہم، تمل روایت کی قرون وسطیٰ کی کہانیوں میں، اگستیہ نے پہلے سنگم دور کی بنیاد رکھی ، جو 4،440 سال پر محیط رہا اور دوسرے سنگم دور میں شامل رہے ، جو مزید 3،700 سال پر محیط رہا۔[53]

تیرومنتی رام بیان کرتے ہیں اگستیہ ایک پرہیزگار دانش ور تھے، جو شمال سے وارد ہوئے اور جنوبی پوتھیگائی پہاڑوں میں بس گئے، کیونکہ ایسا ان سے شیو نے کہا تھا۔ انھیں ایک ایسی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے، جو سنسکرت اور تمل دونوں زبانوں کے ماہر بھی تھے اور ان زبانوں سے محبّت بھی کرتے تھے — دونوں میں معلومات اکٹّہی کیں، لہٰذا ، اتّحاد، امن اور علم کے داعی بنے – بجائے اس کے کہ کسی ایک زبان کی مخالفت کرتے۔[54] اسکند پُران کے مطابق، شیو نے جب پاروتی سے شادی کی تو پوری دنیا نے ہمالیہ کے پہاڑوں کا دورہ کیا ۔ اس کی وجہ سے زمین ایک جانب جھُک گئی۔ شیو نے اگستیہ سے درخواست کی کہ وہ جنوبی خطّے کی جانب چلے جائیں تاکہ زمین میں توازن قائم ہو جائے۔ لہٰذا، اگستیہ شیو کی درخواست پر جنوب کی جانب ہجرت کر گئے۔[55]

سِدّھار ترمیم

 
پھولوں و پھلوں کے ہار پہنا کر اگستیہ مندر میں پوجا۔

تمل ہندو روایات میں اگستیہ کو سب سے پہلا اور سب سے اہم سِدّھار مانا جاتا ہے (تمل: سِتّر؛ سنسکرت: سِدّھا)۔ سِدّھار سنسکرت کی کلماتی جڑ سِدھ سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں "حاصل کرنا یا کامیاب ہونا"۔ پہلے سِدّھار کے طور پر اگستیہ پہلے استاذ مانے جاتے ہیں، کامیاب — وہ دانشور ، جس نے اپنے علم کو فطری اور روحانی دنیاؤں میں کامل کر لیا۔ یہ تمل تصور تبّتی مہا سِدّھاؤں ، سری لنکائی بُدّھوں اور شمالی ہندوستان کی ناتھ ہندو یوگی روایات کے متوازی ہے۔[56]

تیرُو مُلار کے ساتھ، اگستیہ کو دونوں – فلسفیانہ اور عملی میدانوں میں سِدّھار مانا جاتا ہے – زیادہ تر دوسرے سِدّھار کے برعکس جو صرف کسی خاص شعبے یا علم میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگستیہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ ہندوستانی بر صغیر کی تمام تاریخی تحریروں میں ان کا ذکر ملتا ہے۔[56]

وینکٹ رامن کے مطابق، اگستیہ کے بارے میں سِدّھار سے متعلقہ ادب قرونِ وسطیٰ سے لے کر ابتدائی جدید دور کے درمیان ہے۔ خاص طور پر ادویات اور صحت سے متعلق تمل تحریریں، جن میں اگستیہ بہ حیثیت سِدّھار شامل ہیں – ان کو 15ویں صدی اور اس کے بعد تحریر ی طور وجود میں لایا گیا۔ ہارٹ مٹ شرفے کے مطابق، ادویات سے متعلق سب سے قدیم ترین تمل تحریری نسخہ جس میں اگستیہ کا نام لیا گیا، 16 ویں صدی سے پہلے تحریر نہیں کیا گیا تھا۔[5]

بعض تمل تحریروں میں ان کا نام اگاتھیار یا اگستھیار لیا گیا ہے،[57] اور بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان طبّی نسخوں کا مصنف کوئی مختلف شخص ہے۔[58]

کامل ظویلیبل کے مطابق، دانش ور اگستیہ، اکتّیان سِدّھا اور اکتّھیور، اکتّیام کا مصنف – مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے تین یا ممکنہ طور چار مختلف اشخاص تھے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمل روایتوں میں ایک فردِ واحد میں ڈھل گئے۔[59]

بدھ مت کی تحریریں ترمیم

متعدد بدھ مت کی تحریروں میں اگستیہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جیسے ابتدائی بدھ تحریروں جیسے کَلَپ، کانتانتر اور کیندر-ویاکاراناداپتنگ پانینی اور آسواگھوس مزید قدیم سنسکرت شاعرانہ انداز اپناتے ہوئے ، جب انھوں نے بدھ کی تعریف کی، اگستیہ پہلے ہزاریے سنہ مشترکہ کے بدھ تحریروں میں نمودار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمل تحریروں میں اکتّیان کو ایک ایسے دانشور کے طور پر بیان کیا گیا ہے ، جنھوں نے تمل اور سنسکرت قواعد اور عروض اوالوکیتان سے سیکھے (ہونے والے بدھ کا ایک اور نام اوالوکیٹیشور)۔[60][61]

 
دائیں انڈونیشیائی مجسمے میں اگستیہ کو شیو کے ترشول کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، وہ شیو مت میں ایک اعلیٰ رشی خیال کیے جاتے ہیں۔ جنوب مشرقی مندروں میں اگستیہ کی مورتی بنانا بہت عام ہے۔[62][63]

این ای، مونیوس کے مطابق ، مانیمیکالائی اور وراکولیام بہت ساری جنوبی ہندوستانی تحریروں میں دو ایسی تحریریں ہیں، جنھوں نے اگستیہ کا انتخاب کیا ہے اور انھیں ہونے والے بدھ کا شاگرد بتایا ہے۔[60]

اگستیہ دیگر تاریخی بدھ دیومالائی داستانوں میں بھی نمودار ہوئے ہیں، جیسے جٹک کہانیاں۔ مثال کے طور پر آریہ صور کی بدھ تحریرجٹک مالا، جو بدھ کے پچھلے جنموں سے متعلق ہے – اگستیہ کو ساتویں باب میں شامل کرتی ہے۔[64] اگستیہ-جٹک کہانی کی نقّاشی بوروبودور میں کی گئی ہے، جو ابتدائی قرون وسطیٰ کے دور میں مہایان بدھ مندر ہے۔[65]

جاوی اور جنوب مشرقی ایشیائی تحریریں ترمیم

اگستیہ ، جنوب مشرقی ایشیائی مندروں میں نقّاشی کے کاموں اور فنون میں سب سے اہم شخصیات میں شامل ہیں۔ ان کی سب سے زیادہ مقبولیت انڈونیشیا میں تھی ، جب تک اسلام انڈونیشیا کے تمام جزیروں تک نہیں پھیلا تھا۔ ان کے آثار کمبوڈیا، ویتنام اور دیگر خطّوں میں بھی پائے گئے ہیں۔ اگستیہ کا سب سے ابتدائی حوالہ پہلے ہزاریے سنہ مشترکہ کے وسط میں ملتا ہے، لیکن 11ویں صدی کی جاوانی زبان کی تحریر اگستیہ-پرب فلسفے، دیومالائی داستانوں اور خاندانی تاریخ کا لائقِ تحسین آمیزہ ہے، جو دانش ور اگستیہ سے منسوب ہے۔[10][66]

اگستیہ پرب میں سنسکرت اشلوک جاوانی زبان میں شامل کیے گئے ہیں۔ تحریر کو گرو (استاذ، اگستیہ) اور ششیہ (شاگرد، اگستیہ کے بیٹے دِرِڑچِیُت) کے درمیان گفت گو کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔[67] تحریر کا انداز تدریس، فلسفے اور مذہبی تعلیمات کا متزاج ہے، جو ہندو پُرانوں کی طرح مختلف جہتوں کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ جاوانی تحریر کے ابواب میں وجود کا گردشی یا دائرہ جاتی ہندوستانی نظریہ، دوبارہ جنم اور سنسار، سمندر کو بلوہتے ہوئے دنیا کی تخلیق (سمندر منتھن)، سانکھیہ کے نظریات، ہندو فلسفے کا ویدانت مکتب فکر ، شیو دیوتا اور شیو مت پر کلیدی تحریریں، تنتر پر بعض بحثیں، انسانی زندگی کے مختلف ادوار سے منسلک رسومات کا خلاصہ اور دیگر معاملات شامل ہیں۔[67]

حالانکہ اگستیہ–پرب کے تحریر اور کلاسیکی ہندوستانی تصورات کے مابین یکسانی واضح ہے، لیکن جان گونڈا کے مطابق – اس تحریر کی سنسکرت اور یا تمل ہم عصر زبانوں میں موجودگی انڈونیشیا یا ہندوستان میں نہیں پائی گئی ہے۔[68] اسی طرح اگستیہ سے متعلق انڈونیشیائی تحریریں – جن کا دور 10ویں سے 12 ویں صدی تک ہے – شیو مت کے مختلف ذیلی مکاتب فکر جیسے خدا کو ماننے وال شیو سدھانت اور سنیاسی مکتب فکر اگامک پشوپت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں، اوریہ تحریریں اعلان کرتی ہیں کہ مذکورہ مذہبی تعلیمات یکساں طور پر اہل ہیں اور اہمیت کی حامل ہیں۔[68]

 
اگستیہ، نویں صدی کے جاوی ”سامبیساری“ نامی مندر کے جنوبی رخ میں، جو آتش فشاں پھٹنے سے نمودار ہوا تھا۔

جنوب مشرقی ایشیا کے قرون وسطیٰ کے شیو مندروں میں اگستیہ کی موجودگی عام ہے، جیسے جاوا (کاندی) میں پتھر سے بنے مندر۔ شیو، اوما، نندی اور گنیش کی تصاویر کے ساتھ جو بنیادی سمتوں کی جانب رخ کرکے بنائی گئی ہیں، یہ مندر اگستیہ کے مجسموں، نقاشی کے کام اور تصویروں پر مشتمل ہیں — جو جنوبی رخ پر بنائے گئے ہیں۔[69] شیو کا مندر، پرام بانن، جو جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے بڑے ہندو مندر کامپلیکس کے اندر ہے — اس کے اندرونی حصے میں چار جگہیں متعین کی گئی ہیں۔ پرام بانن گروہ کے مندروں میں اس مرکزی مندر نے جنوبی حصہ اگستیہ کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔[70]

760 سنہ مشترکہ میں کی جانے والی ڈنویو نقاشی بنیادی طور پر اگستیہ سے منسوب ہے۔ نقّاشی سے پتا چلتا ہے کہ لکڑی سے بنائے گئے اگستیہ کے مجسمے کو دوبارہ پتھر سے تراش کر نقّاشی کا کام کیا گیا ، جس سے پتا چلتا ہے کہ اگستیہ کی تصویر سازی جنوب مشرقی ایشیا کے قدیم دور میں عام تھی۔[71][72] کمبوڈیا میں 9 ویں صدی کے بادشاہ اِندر ورمن ، جنہیں بڑی تعداد میں مندروں کی تعمیر اور اس سے متعلقہ فنون کے کام کے حوالے سے جانا جاتا ہے – کے بارے میں تحریروں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اگستیہ کی اولادوں میں سے ہیں۔[73][74]

اگستیہ سمہیتا ترمیم

اگستیہ سمہیتا جسے بعض اوقات شنکر سمہیتا کہا جاتا ہے — ایک حصہ ہے جو سکند پُران میں تحریر ہے۔[6] اغلباً اس کو قرونِ وسطیٰ کے دور میں تحریر گیا، لیکن 12 ویں صدی سے قبل۔[75] یہ مختلف اشکال میں موجود ہے اور اس کو اسکند اور اگستیہ کے مابین مکالمے کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے۔ علما جیسے موریز ونٹرنٹز بیان کرتے ہیں کہ اس دستاویز کی بقا پا جانے والی شکل کا مستند ہونامشکوک ہے، کیونکہ کہ شیو کے چاہنے والے جیسے اسکند اور اگستیہ، ویشنو مت اور بھگتی مت (رام کی پوجا) کی تعلیمات دیتے نظر آتے ہیں— جس کے ساتھ اس میں وارنسی اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں شیو کے مندروں کے بارے میں سیاحتی راہ نما ئی فراہم کی گئی ہے۔[76][77]

اگستی ماتا ترمیم

اگستی ماتا کے مصنف کا نام اگستیہ سے منسوب کیا جاتا ہے، جو دسویں صدی سے قبل کا قیمتی پتھروں اور ہیروں سے متعلق تحقیقی کام ہے۔ جس میں ان کے ماخذ، خصوصیات، تجربات اور ان سے زیورات بنانے کے ابواب ہیں۔[75][78][79] ہندوستانی روایتوں میں قیمتی پتھروں اور ہیروں کو تراشنے سے متعلق متعدد دیگر سنسکرت تحریروں کو اگستیہ سے منسوب کیا گیا ہے۔[80]

دیگر ترمیم

اگستیہ کے مزید تذکرے حسب ذیل ہیں:

ورثہ ترمیم

مندریں ترمیم

اگستیہ کے مجسمے اور سنگی نقوش شمالی ہندوستان کے متعدد ابتدائی قرون وسطیٰ مندروں میں نظر آتے ہیں۔ دیو گڑھ (اترپردیش میں مدھیہ پردیش کی سرحد کے نزدیک) میں دش اوتار مندر چھٹی صدی کی گپت بادشاہت کے دور کا ہے، جس میں اگستیہ کی تصاویر کی نقّاشی ہے۔[86] اسی طرح کرناٹک میں انھیں 7 ویں صدی کے مندروں میں قابل احترام انداز میں پیش کیا گیا ہے، جیسے مہاکُوٹہ میں ملک ارجن مندر اور سندور میں پاروتی مندر۔ ہندوستانی برصغیر جزیرہ نما میں وہ چالوکہ دور کے شیو مت کے مندروں کا حصہ ہیں۔[86][87][88]

جنوب ایشیائی اور جنوب مشرقی ایشیائی مندروں کی فنونی مصوری ایک مشترکہ قدر کو ظاہر کرتی ہے، جیسے کہ وہ ایک مرتبان اٹھائے ہوئے ہیں، لیکن دیگر باتوں میں اختلافات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اگستیہ کی تصویر مندر کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر بنی ہوئی ہے اور بعض اوقات داخلی دروازے کے سرپرست اور محافظ (دُوار پال) کے طور پر، بڑھے ہوئے پیٹ کے ساتھ یا اس کے بغیر، بال پیشانی پر جھڑتے ہوئے یا اس کے بغیر، خنجر اور تلوار کے ساتھ یا اس کے بغیر۔[86] چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے مندر، غار، جیسے 8 ویں صدی کے پانڈیہ چٹان سے بنے مندروں کا گروہ، اگستیہ کا سراغ دیتے ہیں۔[86]

ادب ترمیم

پوتھیگائی پہاڑی پر اگستیہ کی سمادھی دریا کا منبع ہے، جس کا حوالہ دونوں داستانوں ایلانگو ادیگال کی سیلاپتی کارم اور چھیتالئی ساتانار کی منی میکالئی میں ملتا ہے۔[89]

اسی طرح سنسکرت کے 9 ویں صدی کے ڈراموں انر گھراگھو اور راج شیکھر کے بال راماین، اگستیہ کی سمادھی کا حوالہ آدم کی چوٹی (شری پد) پر یا اس کے نزدیک دیتے ہیں، جو سری لنکا کا سب سے بلند ترین پہاڑ ہے، جہاں سے گونا ندی/کالا اویا دریا بہتے ہوئے خلیج منّار کی پُٹلم ساحلی جھیل میں جا گرتا ہے۔[90]

عسکری فنون ترمیم

مہا رشی اگستیہ کو سِلبم اور ”ورمک کلئی“ کا بانی اور سرپرست بزرگ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ورمک کلئی میں مختلف بیماریوں میں صحت مند ہونے کے لیے ورمک نقاط استعمال کیے جاتے ہیں۔[91] شیو کے بیٹے موروگن کے بارے میں کہا جاتا ہے انھوں نے دانشور اگستیہ کو یہ فن سکھایا، جنھوں نے اس کو تحریری شکل دی اور اس فن کو دیگر دوسرے سِدّھاروں تک منتقل کیا۔[92][93]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ Laurie Patton 2014, p. 34.
  2. David Shulman 2016, p. 17.
  3. David Shulman 2016, p. 17,25-30: "agasti, Tamil, akatti, "West Indian pea-tree", presumably the origin of the name of the Vedic sage Agastya (likely a Dravidian root"
  4. ^ ا ب پ ت Wendy Doniger (1981)۔ The Rig Veda: An Anthology : One Hundred and Eight Hymns, Selected, Translated and Annotated۔ Penguin Books۔ صفحہ: 167–168۔ ISBN 978-0-14-044402-5۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  5. ^ ا ب Richard S Weiss 2009, p. 49–51.
  6. ^ ا ب پ ت ٹ Roshen Dalal 2010, pp. 7–8.
  7. ^ ا ب William Buck 2000, p. 138–139.
  8. Alf Hiltebeitel 2011, p. 285–286.
  9. Ludo Rocher 1986, pp. 166–167, 212–213, 233.
  10. ^ ا ب پ Jan Gonda 1975, pp. 12–14.
  11. Ludo Rocher 1986, p. 78.
  12. Michael Witzel (1992)۔ مدیران: J. C. Heesterman، وغیرہ۔ Ritual, State, and History in South Asia: Essays in Honour of J.C. Heesterman۔ BRILL Academic۔ صفحہ: 822 footnote 105۔ ISBN 90-04-09467-9۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2018 
  13. ^ ا ب پ ت Roshen Dalal 2014, p. 187,376.
  14. Alf Hiltebeitel 2011, pp. 407.
  15. Alf Hiltebeitel 2011, pp. 400, 404–406 with footnote 74.
  16. Edwin Bryant and Laurie Patton (2005), The Indo-Aryan Controversy, Routledge, آئی ایس بی این 0-700-71462-6, pages 252–253
  17. ^ ا ب پ ت ٹ ث Alain Daniélou 1991, p. 322–323 with footnotes 5 and 6.
  18. ^ ا ب Indian History، Tata McGraw-Hill، صفحہ: 240 
  19. ^ ا ب Stephanie W. Jamison & Joel P. Brereton 2014, pp. 1674–1675.
  20. ^ ا ب پ J. A. B. van Buitenen 1981, p. 187–188.
  21. Hananya Goodman (2012)۔ Between Jerusalem and Benares: Comparative Studies in Judaism and Hinduism۔ State University of New York Press۔ صفحہ: 218–219۔ ISBN 978-1-4384-0437-0۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  22. David Shulman 2014, p. 65.
  23. K. R. Rajagopalan (1957), "Agastya – his non-Aryan Origin", Tamil Culture, Volume VI, Number 4 (Oct. 1957), pages 286-293
  24. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Iravatham Mahadevan (1986) Agastya Legend and the Indus Civilization by கட்டுரையாளர் : ஐராவதம் மகாதேவன் கட்டுரையாளர் பணி : Retired I.A.S, his studies pertaining to the Indus Civilization கட்டுரைப் பிரிவு : Indus Valley Signs - சிந்துவெளி குறியீடுகள் ஆய்விதழ் எண் : 030 - December 1986 பக்கங்கள் آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ulakaththamizh.org (Error: unknown archive URL) pages 29 (see 24-37 for context), Journal of Tamil studies
  25. Arvind Sharma (2011)۔ Hinduism as a Missionary Religion۔ State University of New York Press۔ صفحہ: 76–77۔ ISBN 978-1-4384-3211-3۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  26. Lopamudra The Mahabharata, translated by Kisari Mohan Ganguli (1883 -1896), Book 3: Vana Parva: Tirtha-yatra Parva: Section XCVII.
  27. Arti Dhand (2009)۔ Woman as Fire, Woman as Sage: Sexual Ideology in the Mahabharata۔ State University of New York Press۔ صفحہ: 110۔ ISBN 978-0-7914-7140-1۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  28. Roshen Dalal 2010, p. 294.
  29. ^ ا ب پ ت ٹ Stephanie W. Jamison & Joel P. Brereton 2014, pp. 359–360.
  30. Ralph T.H. Griffith, Rigveda, Mandala 1, Hymn 169, Wikisource; Sanskrit original: त्वे राय इन्द्र तोशतमाः प्रणेतारः कस्य चिदृतायोः । ते षु णो मरुतो मृळयन्तु ये स्मा पुरा गातूयन्तीव देवाः ॥५॥
  31. Govind Sadashiv Ghurye (1977)۔ Indian Acculturation: Agastya and Skanda۔ Popular Prakashan۔ صفحہ: 19–20۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  32. Arvind Sharma (2000)۔ Classical Hindu Thought: An Introduction۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 135۔ ISBN 978-0-19-564441-8۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  33. G.C. Pande (1990)۔ Foundations of Indian Culture, Volume 2۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 184–186۔ ISBN 978-81-208-0712-9۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  34. Kamil Zvelebil 1992, p. 239.
  35. Max Muller, Aitareya Aranyaka, The Upanishads: Part I, Oxford University Press, page 170
  36. Laurie Patton 2014, p. 27–30.
  37. ^ ا ب پ Laurie Patton 1996, p. 413.
  38. Madan Gopal (1990)۔ مدیر: K.S. Gautam۔ India through the ages۔ Publication Division, Ministry of Information and Broadcasting, Government of India۔ صفحہ: 62 
  39. William Buck 2000, p. 139–140.
  40. William Buck 2000, p. 140–142.
  41. ^ ا ب J. A. B. van Buitenen 1981, p. 409–411.
  42. Alain Daniélou 1991, p. 3317–323.
  43. ^ ا ب Laurie Patton 1996, p. 408–414.
  44. Richard S Weiss 2009, p. 50–51, 81–82.
  45. Klaus Klostermaier (2003), A Concise Encyclopedia of Hinduism, Oxford: Oneworld Publications, آئی ایس بی این 1-85168-175-2, page 17
  46. David Shulman 2016, p. 30–31, 38–40.
  47. Alf Hiltebeitel (2009)۔ Rethinking India's Oral and Classical Epics۔ University of Chicago Press۔ صفحہ: 463–464۔ ISBN 978-0-226-34055-5۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  48. Alf Hiltebeitel 2011, p. 294.
  49. Journal of Tamil Studies, Issues 29-32۔ International Institute of Tamil Studies۔ 1986 
  50. Romila Thapar (1978)۔ Ancient Indian Social History: Some Interpretations۔ Orient Blackswan۔ صفحہ: 224 
  51. K.N. Sivaraja Pillai, Agastya in the Tamil Land, University of Madras, pages 15-16
  52. David Shulman 2016, p. 26–27.
  53. Richard S Weiss 2009, p. 81–82.
  54. Richard S Weiss 2009, p. 82.
  55. Swami Parmeshwaranand (2001-01-01)۔ Encyclopaedic Dictionary of Puranas۔ Sarup & Sons, 2001 - Puranas - 1432 pages۔ صفحہ: 9 
  56. ^ ا ب Richard S Weiss 2009, p. 47–48.
  57. Vē. Irā Mātavan̲ (1984)۔ Siddha medical manuscripts in Tamil۔ International Institute of Tamil Studies۔ صفحہ: 28۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  58. P Karthigayan (2016)۔ History of Medical and Spiritual Sciences of Siddhas of Tamil Nadu۔ Notion Press۔ صفحہ: 438۔ ISBN 978-93-5206-552-3۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  59. Kamil Zvelebil 1992, p. 237-238 with note 2.
  60. ^ ا ب Anne E. Monius 2001, pp. 133–135.
  61. John Clifford Holt (1991)۔ Buddha in the Crown: Avalokitesvara in the Buddhist Traditions of Sri Lanka۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 68–69۔ ISBN 978-0-19-536246-6۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  62. Ann R. Kinney، Marijke J. Klokke، Lydia Kieven (2003)۔ Worshiping Siva and Buddha: The Temple Art of East Java۔ University of Hawaii Press۔ صفحہ: 21–25۔ ISBN 978-0-8248-2779-3۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  63. Peter Sharrock، Ian C. Glover، Elizabeth A. Bacus (2008)۔ Interpreting Southeast Asia's Past: Monument, Image and Text۔ National University of Singapore Press۔ صفحہ: 109–110۔ ISBN 978-9971-69-405-0۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  64. Āryaśūra، Peter Khoroche (Translator) (2006)۔ Once the Buddha Was a Monkey: Arya Sura's "Jatakamala"۔ University of Chicago Press۔ صفحہ: 39–46۔ ISBN 978-0-226-78215-7۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  65. Helena A. van Bemmel (1994)۔ Dvarapalas in Indonesia: Temple Guardians and Acculturation۔ CRC Press۔ صفحہ: 35۔ ISBN 978-90-5410-155-0 
  66. Anne E. Monius 2001, pp. 113–114, 207–208.
  67. ^ ا ب Jan Gonda 1975, p. 14.
  68. ^ ا ب Jan Gonda 1975, p. 15.
  69. Peter Sharrock، Ian C. Glover، Elizabeth A. Bacus (2008)۔ Interpreting Southeast Asia's Past: Monument, Image and Text۔ National University of Singapore Press۔ صفحہ: 104–109۔ ISBN 978-9971-69-405-0۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  70. Keat Gin Ooi (2004)۔ Southeast Asia: A Historical Encyclopedia, from Angkor Wat to East Timor۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 1101–1102۔ ISBN 978-1-57607-770-2۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  71. Nicholas Tarling (1992)۔ The Cambridge History of Southeast Asia: Volume 1, From Early Times to c. 1800۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 313۔ ISBN 978-0-521-35505-6۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  72. Veronique Degroot، Marijke J. Klokke (2013)۔ Materializing Southeast Asia's Past: Selected Papers from the 12th International Conference of the European Association of Southeast Asian Archaeologists۔ National University of Singapore Press۔ صفحہ: 116 note 1۔ ISBN 978-9971-69-655-9 
  73. Jean Ph. Vogel (1947)۔ India antiqua۔ Brill Archive۔ صفحہ: 45–46۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  74. Lesya Poerbatjaraka (1926)۔ Agastya in den archipel۔ Universiteit te Leiden (Republished by BRILL)۔ صفحہ: 1–5۔ OCLC 5841432۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  75. ^ ا ب Sures Chandra Banerji (1989)۔ A Companion to Sanskrit Literature۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 121۔ ISBN 978-81-208-0063-2۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  76. Moriz Winternitz، V. Srinivasa Sarma (1996)۔ A History of Indian Literature۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 545–546۔ ISBN 978-81-208-0264-3 
  77. Ludo Rocher 1986, pp. 234–237, 228–229.
  78. Mohsen Manutchehr-Danai (2009)۔ Dictionary of Gems and Gemology۔ Berlin: Springer۔ صفحہ: 10۔ ISBN 978-3-540-72795-8 
  79. Louis Finot (1896)۔ Les lapidaires indiens (بزبان السنسكريتية and الفرنسية)۔ Champion۔ صفحہ: 77–139 
  80. Louis Finot (1896)۔ Les lapidaires indiens (بزبان السنسكريتية and الفرنسية)۔ Champion۔ صفحہ: xiv–xv with footnotes 
  81. Roshen Dalal 2010, p. 221.
  82. John Muir (1873)۔ Original Sanskrit Texts on the Origin and History of the People of India۔ Trübner۔ صفحہ: 473۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  83. Theodor Aufrecht (1892)۔ Florentine Sanskrit Manuscripts۔ G. Kreysing۔ صفحہ: 152۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  84. Kamil Zvelebil 1992, p. 245.
  85. David Shulman 2016, p. 26.
  86. ^ ا ب پ ت Helena A. van Bemmel (1994)۔ Dvarapalas in Indonesia: Temple Guardians and Acculturation۔ CRC Press۔ صفحہ: 35–37, 41–44, 60۔ ISBN 978-90-5410-155-0۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  87. Douglas E. Barrett (1976)۔ The dancing Siva in early south Indian art۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 15۔ ISBN 0856721328۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  88. James C. Harle (1995)۔ Temple Gateways in South India: The Architecture and Iconography of the Cidambaram Gopuras۔ Munshiram Manoharlal۔ صفحہ: 135۔ ISBN 978-81-215-0666-3۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2019 
  89. Ameresh Datta. Sahitya Akademi, 1987 - Indic literature. Encyclopaedia of Indian Literature: A-Devo. pp 115
  90. G.C. Mendis (2006)۔ "The ancient period"۔ Early History of Ceylon (Reprint ایڈیشن)۔ Asian Educational Services۔ صفحہ: 386۔ ISBN 81-206-0209-9 
  91. Phillip B. Zarrilli (1998)۔ When the Body Becomes All Eyes: Paradigms, Discourses and Practices of Power in Kalarippayattu, a South Indian Martial Art۔ Oxford: Oxford University Press 
  92. Luijendijk, D.H. (2005) Kalarippayat: India's Ancient Martial Art, Paladin Press
  93. Zarrilli 1992

کتابیات ترمیم

بیرونی روابط ترمیم