باختر (انگریزی: Bactria) ایک قدیم ایشیائی سلطنت جو موجودہ افغانستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے علاقوں پر مشتمل تھی۔ یہ علاقہ سکندر اعظم کے فتح کرنے کے بعد کئی نسلوں تک یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ 256 ق م میں یہاں ایک آزاد یونانی سلطنت قائم ہوئی۔ 125 ق م میں ایک خانہ بدوش قبیلے یوہ چیھ نے (جو غالباً ایرانی تھا) اس کو روند ڈالا۔ اس کے بعد وہ ملی جلی پارتھیا اور یونانی تہذیب، جس نے یہاں فروغ پایا تھا، ختم ہو گئی۔ باختر کا دار السلطنت شہر بکترا (بلخ) تھا جو اب افغانستان میں واقع ہے۔

باختر
بلخ
2500/2000 ق م–900/1000 عیسوی
باختر is located in مغربی اور وسطی ایشیا
باختر
باختر
خطۂ باختر کا مقام

باختر کے قدیم شہر

دار الحکومتبلخ
تاریخ
تاریخی دورقدیم
• 
2500/2000 ق م
• 
900/1000 عیسوی

وجہ تسمیہ ترمیم

باختر یونانی لفظ "Βακτριανή" سے اخذ شدہ ہے۔ اور یہ پشتو لفظ پختار؛ جو بعد میں فارسی میں باختر؛ اور تاجک میں Бохтар؛ چینی میں Daxia|大夏 Dàxià؛ عربی میں باختریا اور اوستا میں بُخدی (Bukhdi) یا پُختی (Pukhti) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جغرافیہ ترمیم

 
باختر کے قدیم شہر

یہ قدیم تاریخی علاقہ جو آمودریا کے جنوب میں اور دریائے سندھ (انڈس) کے مغرب میں واقع ہے، ایرانی سلطنت کی مشرقی حدود پر واقع تھا جو موجودہ افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان اور پاکستان کے علاقوں پر مشتمل تھا۔

تاریخ ترمیم

وسط ایشیا میں تہذیب کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہاں بسنے والی قوموں اور گروہوں کو نوعِ انسانی کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں آباد خاندانوں کو نسلِ انسانی کا ابتدائی مسکن شمار کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے عربوں نے اس خطّۂ اراضی کو اُمّ البلاد کا نام دیا ہے۔ ابتدا میں یہ چند خاندانوں کا مسکن رہا جو بعد میں میل جول اور سماجی تعلق سے گروہوں اور قبیلوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے، جو بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر ارد گرد کے علاقوں میں نقل مقامی کرتے رہے۔ یہاں وجود میں آنے والی تہذیبوں کو آمو دریا/آکسس تہذیب (Oxus Civilization) بھی کہا جاتا ہے۔

اسی دور میں یہاں بسنے والے ہند یورپی قبائل جنوب میں ہندوستان اور ارد گرد کے ممالک میں پیش قدمی کرتے رہے۔ یہاں رہنے والے قبائل ہند یورپی نسل سے تعلق رکھنے والی مختلف قوموں اور قبیلوں پر مشتمل ہیں جن کا باقاعدہ ذکر تاریخ میں 600 ق م ميں ملتا ہے جب اس علاقہ کو سائرس نے شکست دینے کے بعد فارس کے زیرِ نگین کر لیا تھا۔ اس سے قبل یہ علاقہ یا تو ماد (Medes) سلطنت کا حصّہ تھا یا پھر مختلف قبائل کی ایک آزاد قبائلی ریاست رہی ہوگی۔

سکندر کے ہاتھوں ایران کی فتح کے بعد حد درجہ کوشش کے باوجود اس علاقہ میں اُسے کامیابی نصیب نہ ہوئی اور سکندر اپنی موت تک وہاں امن قائم کرنے اور قبائل کو زیر کرنے میں ناکام رہا۔ بعد میں 323 قبل مسیح میں وسط ایشیا میں سلوقی (Seleucid) ریاست قائم ہوئی۔ یہ یونانی میساڈونی ریاست بڑھتے بڑھتے مغرب میں اناطولیہ، میسوپوٹامیا (Mesopotamia)، فارس، ترکمانستان اور پاکستان کے کچھ علاقوں تک پھیل گئی۔ پھر یہاں ساکائی (Saka)، یوہ چیھ اور ساسانی ریاستیں قائم ہوئیں۔ بالآخر ساسانیوں کو خلافتِ راشدہ کے عہد میں شکست ہوئی اور ان ریاستوں کی تاریخ کا ایک باب بند ہوا۔

باختر تہذیب آمو دریا کی انہی گم کردہ تہذیبوں میں سے ہے جس کے باقیات مذکورہ علاقوں، بالخصوص تاجکستان اور افغانستان ميں آج بھی موجود ہیں۔ افغانسان میں بلخ کا علاقہ اسی باختر تہذیب کی نشانی ہے۔ پارسی مذہب کے بانی و پیغمبر زرتشت کی پیدائش بھی اسے علاقے میں ہوئی۔ یہ کبھی زرتشتی رہا پھر بدھ مت اور بالآخر خلافتِ راشدہ اور اموی دور میں 7 صدی عیسوی میں مسلمان ہوا۔

کوہ بابا یعنی ہندو کش کے شمال میں دریائے جیحون تک جو علاقہ چلا گیا ہے اس کو قدیم زمانے میں باختر (Bectar) کہا جاتا تھا، اب اس کو ترکستان کہا جاتا ہے۔ اس کے موجودہ انتظامی مراکز مزار شریف، تاش کرگان اور میمنہ ہیں۔[1] باختر یا باختریا (Bectaria/Bectar) جس کو دارا کے کتبے میں باختریش (Bectarish) کہا گیا ہے اور ہیروڈوٹس (Herodatieis) نے اس کا پختولیس Paktolies کے نام سے تذکرہ کیا ہے۔ تاہم بعد کے یونانی ماخذوں میں اس کا تذکرہ باکترا (Baktra) کے نام سے ملتا ہے اور اس کے لیے رگ وید (Reg Veda) میں پکھتا اور پکتھ اور اوستا میں اس کا نام بختہ اور بخت آیا ہے۔ (دیکھیے پختون)

باختر وسط ایشیا سے آنے والے قبائل کا پہلا پڑاؤ تھا۔ اس کا سب سے پہلا تذکرہ دارا اول (Daruess 1) کے کتبہ بہستون (Behistun) میں باختریش کے نام سے ملتا ہے۔ یہاں ہخامنش (Hakhamaniess) کی دوسری شاخ حکمران تھی اور یہاں خورس (Cyrus) کے زمانے میں دارا اول کا باپ ہستاسب یا گستاسب (Hystaspes or Gastaspes) حکمران تھا۔ یہ کوئی آزاد حکومت نہیں تھی بلکہ ہخامنشیوں کی بزرگ شاخ کی زیر دست تھی اور اس نے خورس اور میدی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ مگر جلد ہی خورس نے اسے اپنی حکومت میں ضم کر لیا۔[2] ہخامنشیوں سے یہ علاقہ سکندر نے چھینا۔ سکندر کے جانشین سلوکیوں (Seleucidses) کے دور میں یہاں آزاد یونانی حکومت قائم ہوئی۔ جب سیتھیوں کو یوچیوں نے دریائے سیحوں اور جیحوں کے درمیانی علاقے سے نکالا تو وہ باختر سے یونانیوں کو نکال کر باختر پر قابض ہو گئے۔ جب یوچیوں کو دریائے سیحون اور جیحوں کے درمیانی علاقے سے نکلنا پڑا تو وہ باختر آ گئے اور انھوں نے باختر سے سیھتیوں کو نکال دیا اور باختر پانچ سو سال کے لیے یوچیوں کے قبضے میں آ گیا۔ یوچیوں کو ہنوں نے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ مگر جلد ہی ساسانیوں نے ترکوں کی مدد سے ہنوں کو شکست دے دی۔ مگر پھر اس علاقے پر ترک چھا گئے۔ (دیکھیے یونانی، سیتھی، یوچی اور ہن)

باختر زرتشتوں کا مقدس مقام تھا۔ بعض روایات کے مطابق یہاں زرتشت کی پیدائش ہوئی تھی اور یہاں کے حکمران گشتاسب نے سب سے پہلے دین زرتشتی قبول کیا تھا اور یہیں توران کے بادشاہ نے ایک آتش کدے میں داخل ہوکر زرتشت کو قتل کیا تھا۔ باختر کا دار الحکومت بلخ تھا۔ تاہم سکندر کی مہموں میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ سب سے پہلے اس کا ذکر یونانی نوآبادی کی حثیت سے بختاپا (Boxtapa) کی شکل میں ملتا ہے۔ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ یہ زرتشتیوں کا مقدس مقام تھا، لیکن بعد میں یہاں بدھ مذہب چھا گیا۔ ہیونگ سانگ جب یہاں آیا تو بودھوں کی ایک سو عبادت گاہیں تھیں اور عربوں کی آمد کے وقت یہ شہر بدھ مذہب کا مرکز تھا۔ یہاں آنے والے اکثر قبائل نے بدھ مذہب قبول کر لیا تھا۔ بعد میں اس شہر نے متواتر ترقی کی، مگر آہستہ آہستہ یہ شہر ویران ہوتا چلا گیا اور آبادی کا بیشتر حصہ مزار شریف منتقل ہو گیا جو اب اس صوبے کا صدر مقام ہے۔ اب یہ ایک قبضے کی شکل اختیار کر چکا ہے مگر وسیع و عریض کھنڈر اس کے ماضی کی شان و شوکت اور اس کی قدامت کی نشان دہی کرتے ہیں۔[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. افغانستان۔ معارف اسلامیہ
  2. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 139، 140
  3. بلخ، شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا