بالاجی وشوناتھ (1662ء – 1720ء) جو پیشوا بالاجی وشوناتھ کے نام سے معروف ہیں، مرہٹہ سلطنت کے چھٹے اور موروثی پیشواؤں میں پہلے پیشوا ہیں جن کا تعلق ایک چت پاون کوکنستھ برہمن ہندو خاندان سے تھا جسے اٹھارویں صدی عیسوی میں مرہٹہ سلطنت پر خاصا اثر و رسوخ حاصل تھا۔

بالاجی وشوناتھ
(مراٹھی میں: बाळाजी विश्वनाथ भट ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تفصیل=
تفصیل=

پرشورام تریمبک کلکرنی
باجی راؤ اول
معلومات شخصیت
پیدائش 1 جنوری 1662ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شری وردھن   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 اپریل 1720ء (58 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ساسواڑ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب براہمن، ہندو مت
اولاد باجیراؤ اول   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

بالاجی وشوناتھ نے نوجوان مرہٹہ حکمران شاہو اول کی سلطنت کے استحکام میں خاصی مدد کی جو مغلوں کے حملوں سے ناتواں ہو رہی تھی۔ انھیں مرہٹہ ریاست کا دوسرا بانی بھی کہا جاتا ہے۔[2] بعد ازاں ان کا بیٹا باجی راؤ پیشوا بنا۔ ان کے دوسرے فرزند چمناجی اپا نے وسائی قلعہ حاصل کیا تھا۔

ابتدائی زندگی ترمیم

بالاجی وشوناتھ (بھٹ) چت پاون کوکنستھ برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔[3][4][5] ان کا آبائی وطن کوکن کی ساحلی پٹی تھا جو اب مہاراشٹر میں شامل ہے۔ ان کا خاندان ریاست جنجیرہ کے شیدی کے زیر نگین شری وردھن کا موروثی دیشمکھ تھا۔[6] بالاجی مغربی گھاٹ کے اوپری حصے میں ملازمت کی تلاش میں آئے اور متعدد مرہٹہ جرنیلوں کی کمان میں کرائے کے سپاہی کی حیثیت سے کام کیا۔

چھترپتی سمبھاجی یا ان کے بھائی راجا رام اول کے دور حکومت میں بالاجی وشوناتھ مرہٹہ سلطنت کے انتظام و انصرام کا حصہ بنے۔ کچھ عرصے انھوں نے جنجیرہ میں مرہٹہ جرنیل دھناجی جادھو کے محاسب کے طور پر بھی کام کیا۔[7] 1699ء سے 1702ء تک بالاجی پونہ کے اور 1704ء سے 1707ء تک دولت آباد کے سر صوبیدار رہے۔ دھناجی کی وفات تک بالاجی نے اپنے آپ کو ایک ایماندار اور قابل افسر منوا لیا تھا۔

دھناجی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اور جانشین چندر راؤ جادھو سے ان کی نہیں بنی اور وہ چھترپتی شاہو کے پاس چلے گئے جہاں ان کی صلاحیتوں نے شاہو کو متاثر کیا اور انھیں اپنا معاون بنا لیا۔[8][9]

حوالہ جات ترمیم

  1. https://pantheon.world/profile/person/Balaji_Vishwanath
  2. Sailendra Sen (2013)۔ A Textbook of Medieval Indian History۔ Primus Books۔ صفحہ: 202–204۔ ISBN 978-9-38060-734-4 
  3. J. J. Roy Burman (2002-01-01)۔ Hindu-Muslim Syncretic Shrines and Communities (بزبان انگریزی)۔ Mittal Publications۔ ISBN 9788170998396۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2018 
  4. Milton B. Singer، Bernard S. Cohn (1970-01-01)۔ Structure and Change in Indian Society (بزبان انگریزی)۔ Transaction Publishers۔ ISBN 9780202369334۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2018 
  5. Anupama Rao (2009-01-01)۔ The Caste Question: Dalits and the Politics of Modern India (بزبان انگریزی)۔ University of California Press۔ ISBN 9780520255593۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2018 
  6. K.S. Bharathi (2009)۔ Encyclopaedia Eminent Thinkers (Vol. 22 : The Political Thought of Mahadev Govind Ranade۔ New Delhi: Concept Publishing Company۔ صفحہ: 11۔ ISBN 81-8069-582-4 
  7. Gazetteer of the Bombay Presidency, Volume XIX, SATARA، 1885، صفحہ: 254 
  8. Jasvant Lal Mehta، Advanced study in the history of modern India 1707–1803، ISBN 1-932705-54-6 
  9. t-Colonel Sir Wolseley Haig L (1967)۔ The Cambridge History of India. Volume 3 (III). Turks and Afghans۔ Cambridge UK: Cambridge University press۔ صفحہ: 392–396۔ ISBN 9781343884571۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2017