بلوچی زبان

پاکستان کی ایک اہم صوبائی زبان

بلوچی زبان (Balochi language) بلوچ قوم کی زبان ہے۔ ہند یورپی خاندانِ السنہ کی ایک شاخ ہند ایرانی جو مروجہ فارسی سے قبل رائج تھی، کی ایک بولی ہے۔ پاکستانی صوبہ بلوچستان، عمان، ایرانی بلوچستان، سیستان، کردستان اور خلیج فارس سمیت یورپ کے کئی ممالک میں بولی جاتی ہے۔

بلوٚچی
بلوٚچی Balóchi
فائل:Balóchi.png
مقامی پاکستان، ایران، افغانستان، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، عمان
مقامی متکلمین
20 Million (2023)ne2023
لہجے
رسمی حیثیت
دفتری زبان
 پاکستان (بلوچستان) (صوبائی)
منظم از{بلوچی اکیڈمی کوئٹہ}
زبان رموز
آیزو 639-2bal
آیزو 639-3balمشمولہ رمز
انفرادی رموز:
bgp – مشرقی بلوچی
bgn – رخشانی (مغربی) بلوچی
bcc – جنوبی بلوچی
ktl – کوروشی
کرہ لسانی58-AAB-a> 58-AAB-aa (مشرقی بلوچی) + 58-AAB-ab (مغربی بلوچی) + 58-AAB-ac (جنوبی بلوچی) + 58-AAB-ad (بشکردی)

بلوچی ادب ترمیم

بلوچی ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا رند دور جو 1430ء سے 1600ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔ دوسرا خوانین کا دور جس کی مدت 1600ء سے 1850ء تک ہے۔ تیسرا دور برطانوی دور جو 1850ء سے شروع ہوا اور اگست 1947ء میں تمام ہوا۔ چوتھا ہمعصر دور جس کا آغاز قیام پاکستان سے ہوا۔

کلاسیکی دور ترمیم

رند یا کلاسیکی دور میں بلوچ شعرا نے چار بیت طرز کی رزمیہ داستانیں اور مشہور بلوچ رومان نظم کیے۔ اُس دور کے شعرا میں سردار اعظم میر چاکر خان رند، مہناز، گراناز، میر بیو رغ رند، سردار گوہرام لاشاری، ، شے مریدو ھانی ، میر شہداد رند، میر جمال رند اور شے مبارک قابل ذکر ہیں۔ خوانین قلات کے دور میں خان عبد اللہ خان، جیئند رند، جام درک ڈومبکی، محمد خان گیشکوری، مٹھا خان مری اور حیدربالاچانی شعرا نے شہرت پائی۔ برطانوی دور نے ملا فاضل رند ،ملاقاسم رند، مست توکلی ، رحم علی مری،پلیہ کھوسہ ،محمد علی چگھا، رحمن چاکرانی ،جوانسال بگٹی، بہرام جکرانی، حضور بخش جتوئی ،ملاعبدالنبی رند، ملاعزت پنجگوری، نور محمد بمپُشتی، ملاابراہیم سربازی، ملا بہرام سربازی اور اسماعیل پل آبادی جیسے شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ترمیم

قیام پاکستان کے بعد بلوچی ادب کی ترقی و فروغ کے لیے مؤثر کوششیں کی گئیں۔ 1949ء میں بلوچستان رائٹر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1951ء میں بلوچ دیوان کی تشکیل ہوئی اور بلوچی زبان کا ایک ماہوار مجلہ ’’اومان‘‘ کا اجرا ہوا۔ کچھ عرصے بعد ماہنامہ بلوچی جاری کیا گیا۔ اس کے فوری بعد ماہنامہ اولس اور ہفت روزہ ’’دیر‘‘ شائع ہوئے۔ 1959ء میں بلوچی اکادمی قائم ہوئی جس کے زیر اہتمام متعدد بلوچی کلاسیکی کتب شائع ہو چکی ہیں۔

ہمعصر بلوچی شعرا میں سیّد ظہور شاہ ہاشمی، عطا شاد، مراد ساحر، میر گل خان نصیر، مومن بزدار، اسحاق شمیم، ملک محمد طوقی، صدیق آزاد ،اکبر بارکزئی، مراد آوارانی، میر عبد القیوم بلوچ، میر مٹھا خان اور ملک محمد پناہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ نئی پود میں امان اللہ گچکی، نعمت اللہ گچکی، عبد الحکیم بلوچ، عبد الغفار ندیم ،اللہ بخش بزدار،قاضى مبارک ،سيد خان بزدار، عبد الغفور لغارى، عزیز سنگھور اور صورت خان مری نے بلوچی ادب کے ناقدین کو کافی متاثر کیا ہے۔

چند حقائق ترمیم

  1. اس زبان کی تقریباً لگ بھگ 20 ملین بولنے والے ہیں، انھیں دنیا کے سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر بولی جانے والے 60 زبانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
  2. ایک وسیع علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے۔ جنوب مشرقی ایران، جنوب مغربی پاکستان اور جنوب مشرقی افغانستان (جو ایک وسیع خطے جسے "بلوچستان" کے نام سے جانا جاتا ہے) کے علاوہ عرب، ترکمانستان، افریقہ اور دیگر علاقوں کے بلوچ تارکین وطن کی زبان ہیں۔ اور بصورت دیگر وسطی ایشیا کو مشرقِ وسطیٰ سے ملانے والی زبان۔
  3. اس زبان (بلوچی) کی ایک تاریخی پس منظر ہے، اس کی قدیم فارسی، سنسکرت، اوستائی اور پارتھین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
  4. ان کے بے شمار لہجے ہیں، مگر پھر بھی یہ سب (لہجے) ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں (ہر بلوچ انھیں باآسانی سمجھ سکتا ہے)۔
  5. ان کی بڑے پیمانے کی ادبی سرمایہ اور کلاسیک (اساطیر) ہیں، جن میں سے زیادہ ابھی تک (دیگر زبانوں میں) ترجمہ نہیں ہوئے ہیں۔
  6. اردو بولنے والوں کے لیے انکا سیکھنا نسبتاً آسان ہے، اگر قواعد کو دیکھا جائے تو بلوچی ایک آسان زبان ہے۔ ان کی "اسم" کی کوئی جنس نہیں ہوتی، "اسم" کو تعریف کی ضرورت نہیں اور تقریباً تمام تر فعل با قاعدگی سے ماضی میں جا کے کھڑے ہوتے ہیں۔
  7. بلوچی ہند یورپی زبانوں کے خاندان کی ہند ایرانی شاخ کا حصہ ہے۔ لہذا، اگر کچھ بلوچی سیکھی جائے تو یقینی طور پر یہ فارسی اور کوردی سیکھنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔
  8. اس زبان کو سیکھنا آپ کو ان سارے لوگوں سے ایک اور الگ سا درجہ دیتا ہے جن کو دیگر ایرانی زبانوں کی کم تعلیم حاصل ہے۔

بیرونی روابط ترمیم