بنگلہ دیش کے عام انتخابات، 2018ء

جاتیہ سنسد انتخابات 2018ء

بنگلہ دیش میں 30 دسمبر 2018ء کو جاتیہ سنسد کے ارکان کو منتخب کرنے کے لیے عام انتخابات ہوئے۔[1] مختلف سیاسی جماعتیں جاتیہ سنسد کی 300 نشستوں کے لیے مقابلہ آرا ہوئیں۔ ان میں بنگلہ دیش عوامی لیگ، جاتیہ اوکیہ فرنٹ نمایاں طور پر شامل تھیں۔ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کو تشدد اور بے قاعدگیوں کے الزامات کے ساتھ فتح نصیب ہوئی۔[2] قائد حزب اختلاف کمال حسین نے نتائج کو مسترد کیا اور انتخابات کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے معتدل حکومت کے زیر اہتمام نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔[3][4]

بنگلہ دیش کے عام انتخابات، 2018ء

→ 2014ء 30 دسمبر 2018

جاتیہ سنسد کی کُل 300 نشستیں
جیت کے لیے 151 نشستیں درکار
  پہلی بڑی جماعت دوسری بڑی جماعت
 
قائد حسینہ واجد کمال حسین
جماعت بنگلہ دیش عوامی لیگ گن فورم
اتحاد عظیم اتحاد جاتیہ اوکیہ فرنٹ
قائد از 1981ء 2018ء
قائد کی نشست گوپال گنج-3 حصہ نہیں لیا تھا
آخری انتخابات 234 نئی
نشستیں جیتیں 257 8
نشستوں میں اضافہ/کمی Increase23 Increase8
فیصد 76.88% 12.33%

جاتیہ سنسد کے حلقے

وزیر اعظم قبل انتخابات

حسینہ واجد
بنگلہ دیش عوامی لیگ

منتخب وزیر اعظم

حسینہ واجد
بنگلہ دیش عوامی لیگ

انتخابی نظام ترمیم

جاتیہ سنسد میں کُل 350 نشستیں ہیں جن میں 300 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے[5] اور باقی 50 نشستیں خواتین کے لیے محفوظ میں جہاں انتخاب میں حصہ لینے والی جماعتوں کے تناسب نشستیں تقسیم ہوتی ہیں۔[6] ہر رکن کی مدت پانچ سال کے لیے ہوتی ہے۔

لگ بھگ 100 ملین رائے دہندگان ملک بھر کے 40،199 پولنگ اسٹیشنوں سے ووٹ دیے۔[7] چھ حلقوں میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں استعمال کی گئی۔[8]

پس منظر ترمیم

گذشتہ عام انتخابات 2014ء میں ہوئے تھے اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکیں خالدہ ضیا کی قیادت والی بنگلہ دیش کی حزب اختلاف جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اس انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ نتیجہ کے طور پر موجودہ وزیر اعظم حسینہ واجد کی قیادت والی بنگلہ دیش عوامی لیگ کو براہ راست فاتح قرار دیا گیا اور 154 نشستوں میں سے 127 نشستوں پر عوامی لیگ کے امیدوار بغیر الیکشن لڑے فاتح قرار پائے۔[9] باقی کی نششتوں پر روشن ارشاد کی جماعت (جاتیہ پارٹی) کے 20 امیدوار، جاتیہ سماج تانترک دل کے 3، ورکرز پارٹی کے دو اور جاتیہ پارٹی (منجو) کے ایک امیدوار فاتح قرار پائے۔[10]

تشدد اور حزب اختلاف کے بائیکاٹ کی وجہ سے ووٹر ٹرن آؤٹ محض 22% فیصد رہا۔[11][12] 147 نشستوں میں سے 139 نشستوں کے نتائج کا اعلان ہوا جس میں عوامی لیگ کو 147 نشستیں حاصل ہوئیں، جاتیہ پارٹی کو 13، ورکرز پارٹی کو چار، جاتیہ سماج تانترک دَل کو دو اور طریقت فیڈریشن اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ فرنٹ نے ایک ایک نشستیں حاصل کیں۔[10] باقی کی 8 نشستوں پر ووٹنگ ملتوی کر دی گئی کیونکہ وہاں تشدد کے واقعات رونما ہوئے تھے۔[10] نئے منتخب ارکان پارلیمان نے 9 جنوری کو حلف لیا۔[13] حال ہی میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے یہ اعلان کیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کو تیار ہے بشرطیکہ موجودہ پارلیمان تحلیل کر دی جائے اور الیکشن کمیشن میں غیر جانبدار ارکان کا تقرر ہو۔[14] جاتیہ پارٹی کے چیئرمین اور سابق صدر بنگلہ دیش حسین ارشاد نے کہا کہ وہ عوامی لیگ کے زیر قیادت عظیم اتحاد کو خیر آباد کہہ کر اپنا خود کا ایک اتحاد بنانا چاہتے ہیں جس میں بایاں بازو کی جمہوری جماعتیں اور اسلامی جمہوری جماعتیں شامل ہوں گی۔[15] 14 ستمبر 2017ء کو الیکشن کمیشن کے سربراہ نے یہ یقین دلاتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہے۔[16] تاہم بنگلہ دیش کی عدالت عظمیٰ نے بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء کو انتخابات لڑنے کے لیے غیر اہل قرار دیتے ہوئے[17] بدعنوانی کے جرم میں 7 سال قید کی سزا سنائی۔[18]

مہم ترمیم

اگست 2018ء میں سابق صدر اور جاتیہ پارٹی کے چئیرمین حسین ارشاد نے بتایا دیا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہی میں قائم بڑے اتحاد کو چھوڑ کر بائیں بازو کی جمہوری اور اسلامی جماعتوں کی اتحاد میں شامل ہوجائے۔[19] تاہم نومبر 2018ء میں ان کی جماعت نے اعلان کیا کہ وہ عوامی لیگ کے زیر قیادت اتحاد میں شامل ہوں گے۔[20] 28 دسمبر کو ارشاد نے اعلان کیا کہ ان کے جو امیدوار آزاد نشستوں سے لڑ رہے ہیں وہ حکمران جماعت عوامی لیگ کے اتحادی امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ اور انھوں نے اپنیے دائرہ حمایت کو اپنی (ان کی) بہن وزیر اعظم شیخ حسینہ تک پھیلا دیا۔[21] ارشاد ذاتی طور پر ڈھاکہ-17 کی نشست سے عوامی لیگ کے امیدوار کی حمایت میں دستبردار ہو گئے[21] تاہم انھوں نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت کے مضبوط امیدوار دوڑ میں شامل رہیں گے[21]

13 اکتوبر 2018ء کو گنو فورم، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، جاتیہ سماج تانترک دل-جے ایس ڈی اور ناگورک اویکا پر مشتمل جاتیہ اوکیہ فرنٹ (قومی اتحاد محاذ) کا قیام عمل میں لایا گیا۔[22][23][24] جس کی سربراہی گانو فورم کے صدر اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر کمال حسین کر رہے ہیں۔ 18 دسمبر کو اتحاد نے ایک 14 نکاتی منشور کا اعلان کیا جس میں وزیر اعظم کے اختیارات میں کمی کا بھی وعدہ کیا گیا۔[25]

بی این پی کے بینر تلے ممنوع جماعتی امیدواروں کی نامزدگیاں الیکشن کے انعقاد میں ایک تنازع تھیں۔ 2013ء میں سخت گیر موقف رکھنے والی دائیں بازو کی اسلام پسند پارٹی، جماعت اسلامی کے آئین مخالف کردار کی وجہ سے ہائی کورٹ نے اس پر دوبارہ رجسٹریشن اور انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی تھی۔[26][27] تاہم 25 جماعتی اراکین الیکشن کی دوڑ میں شامل ہو گئے جن میں سے 22 بی این پی کے نامزد کردہ اور 3 آزاد حیثیت سے آئے۔[28][29] اس کے خلاف ایک تفتیش بھی مقرر کی گئی لیکن 23 دسمبر کو الیکشن کمیشن کے سیکریٹری ہلال الدین احمد نے کہا موجودہ وقت میں جماعتی قائدین کی اہلیت کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔[29] انتخابات سے چند ہی روز قبل 26 دسمبر کو جاتیہ اوکیہ فرنٹ کے سربراہ کمال حسین نے اپنے اتحاد کی طرف سے جماعت اسلامی کے انتخابات میں حصہ لینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”اگر مجھے علم ہوتا کہ کہ جماعتی قائدین کو بی این پی کے ٹکٹ دیے جائیں گے تو میں کبھی بھی اس میں شامل نہ ہوتا“۔[30] تاہم میڈیا نے نومبر کے آخر میں ہی اس بات کی اطلاع دے دی تھی کہ ایسا ہونے والا ہے۔[31][32]

الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق 28 دسمبر کی صبح 8:00 بجے انتخابی مہم موقوف کردی گئی۔[33]

اشتراک و اتحاد ترمیم

اتحاد قائد ارکان امیدوار 2014ء میں حاصل شدہ نشستیں
عظیم اتحاد حسینہ واجد بنگلہ دیش عوامی لیگ 258 234
جاتیہ پارٹی (ارشار) 27 34
ورکرز پارٹی آف بنگلہ دیش 5 6
جاتیہ سماج تانترک دَل 3 5
بکلپ دھارا بنگلہ دیش 3
جاتیہ پارٹی (منجو) 4 2
بنگلہ دیش طریقت فیڈریشن 2
بنگلہ دیش نیشنلسٹ فرنٹ 1
جاتیہ اوکیہ فرنٹ کمال حسین بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی 240 بائیکاٹ
جمعیت علمائے اسلام بنگلہ دیش 22
گنو فورم 7
جاتیہ سماج تانترک دل-جے ایس ڈی 4
ناگورک اوکیہ 4
کرشک شرامک جنتا لیگ 4
بنگلہ دیش جاتیہ لیگ 19
بنگلہ دیش خلافت مجلس
بنگلہ دیش مسلم لیگ
جاتیہ گاننترک پارٹی
جاتیہ اوکیہ پروکریہ
کلیان پارٹء
لبرل ڈیموکریٹک پارٹی
لیفٹ ڈیموکریٹک الائنس کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش 83 بائیکاٹ
ریولیوشنری ورکرز پارٹء
گونوشونگٹھی آندولون
یونائیٹیڈ کمیونسٹ لیگ آف بنگلہ دیش
بیسد (مارکسی)
گاننترک بپلوبی آندولون
سماج تانترک آندولون

متعلق واقعات ترمیم

تشدد ترمیم

9 سے 12 دسمبر 2018ء کے بیچ، 47 پُرتشدد واقعات رونما ہوئے، جس میں 8 افراد جاں بحق اور 560 زخمی ہوئے۔[34]

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ترجمان کے بقول 26 دسمبر 2018ء تک حزب اختلاف کے امیدواروں پر 2،833 حملوں میں 12،923 افراد (زیادہ تر بنگلہ دیش نیشنلسٹ، جاتیہ اوکیہ فرنٹ اور 20 جماعتی اتحاد کے سرگرم کارکنان) زخمی ہوئے تھے۔[35] 8 نومبر اور 25 دسمبر کے وسط میں بی این پی کے خلاف مختلف اضلاع میں 1،574 مقدمات درج کیے گئے۔ اسی عرصے کے دوران 15،568 سرگرم کارکنان گرفتار کیے گئے تھے۔[35]

بنگلہ دیش اخبار دی ڈیلی اسٹار کے مطابق کم از کم 56 امیدواروں (زیادہ تر بی این پی کے) پر حملے ہوئے، تقریباً 1،190 افراد زخمی ہوئے اور 10 و 28 دسمبر کے درمیان، مہم کے دوران بی این پی اور جماعت اسلامی کے 800 سے زائد گرفتار کیے گئے۔[33]

انتخابات سے ایک دن قبل 29 دسمبر کو بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری کمیشن (بی ٹی آر سی) نے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار کم کر دی اور کہا کہ انتخابات کے بعد ہی تیز رفتار بحال کی جائے گی۔[36]

انتخابات کے روز، بر سر اقتدار جماعت کے حمایتیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں میں 17 لوگ مارے گئے۔[37]

دھاندلی ترمیم

بی بی سی کے ایک نامہ نگار نے چٹاگانگ کے ایک پولنگ اسٹیشن میں رائے دہی شروع ہونے سے تھوڑی دیر پہلے ہی ووٹوں سے بھرا بیلٹ باکس پایا۔[2] کھانے کے وقفوں کے دوران اکثر جب رائے دہندگان دور ہو جاتے تو بیلٹوں کو بے ایمانی سے گن کر پھیلا دیا جاتا۔[38] مقامی میڈیا کے نامہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے عوامی لیگ کے کارکنان کو پولیس اور الیکشن افسران کی موجودگی میں بیلٹ باکسوں کو بھرتے دیکھا۔[39] بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے ملک بھر سے دھاندلی کے الزامات سنے ہیں اور وعدہ کیا ہے کہ اور وہ ان کی تحقیقات کرے گا۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. EC reschedules election date to December 30 Dhaka Tribune, 12 November 2018
  2. ^ ا ب پ Bangladesh election: Opposition demands new vote BBC News, 30 December 2018
  3. "Bangladesh election: Sheikh Hasina wins new term as prime minister"۔ بی بی سی نیوز۔ 31 دسمبر 2018۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2018 
  4. "PM Hasina's Awami League registers landslide victory in Bangladesh"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 31 دسمبر 2018۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2018 
  5. Electoral system IPU
  6. Nizam Ahmed and Sadik Hasan Alangkar or Ahangkar? Reserved-Seat Women Members in the Bangladesh Parliament آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ springer.com (Error: unknown archive URL)
  7. "All you need to know about the 2018 Bangladesh election and what it means for India"۔ منی کنٹرول۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  8. "EVM voting exercise in selected constituencies on Thursday"۔ ڈھاکہ ٹریبیون۔ 2018-12-26۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  9. "BBC News – Clashes and boycott mar Bangladesh election"۔ Bbc.co.uk۔ 12 دسمبر 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2014 
  10. ^ ا ب پ "Repolls ordered in 8 constituencies"۔ bdnews24.com۔ 14 ستمبر 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2014 
  11. Ellen Barry (5 جنوری 2014)۔ "Low Turnout in Bangladesh Elections Amid Boycott and Violence"۔ The New York Times۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2014 
  12. "Bangladesh ruling party wins after boycotted vote"۔ The New York Times۔ 6 جنوری 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2014 
  13. "Newly elected Bangladesh MPs sworn in"۔ Al Jazeera English۔ 9 جنوری 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2018 
  14. "Fakhrul: General elections will not be allowed without a level playing field"۔ 25 جولائی 2017۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2018 
  15. "Ershad hopes PM will allow Jatiya Party ministers to resign"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2018 
  16. "BNP will join national polls: CEC"۔ 23 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2018 
  17. HC ruling apparently a blow to Khaleda The Daily Star, 28 November 2018
  18. Zia Charitable Trust Graft Case: Khaleda jailed for 7 years The Daily Star, 30 October 2018
  19. Ershad hopes PM will allow Jatiya Party ministers to resign آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ m.bdnews24.com (Error: unknown archive URL) BD News 24, 4 August 2017
  20. Jatiya Party to join AL-led alliance Dhaka Tribune, 5 November 2018
  21. ^ ا ب پ "'I am back for sister Hasina'"۔ دی ڈیلی اسٹار (بزبان انگریزی)۔ 2018-12-28۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  22. "New alliance launched"۔ دی ڈیلی اسٹار۔ 14 اکتوبر 2018۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2018 
  23. Bangladesh opposition parties including BNP to contest election آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ channelnewsasia.com (Error: unknown archive URL) Channel News Asia, 11 November 2018
  24. Bangladesh opposition alliance to contest polls ‘to rescue democracy’ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ asahi.com (Error: unknown archive URL) The Asahi Shimbun, 11 November 2018
  25. "Oikya Front unveils manifesto promising balance of power"۔ ڈھاکہ ٹریبیون۔ 2018-12-17۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  26. "Bangladesh court declares Jamaat illegal | News"۔ الجزیرہ۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  27. "EC scraps Jamaat's registration"۔ دی ڈیلی اسٹار (بزبان انگریزی)۔ 2018-10-30۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  28. "Jamaat to contest election under BNP's symbol in 25 constituencies"۔ ڈھاکہ ٹریبیون۔ 2018-11-28۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  29. ^ ا ب "25 Jamaat men stay in the race"۔ دی ڈیلی اسٹار (بزبان انگریزی)۔ 2018-12-24۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  30. "Kamal: Wouldn't have been part of this had I known about Jamaat"۔ ڈھاکہ ٹریبیون۔ 2018-12-27۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  31. "Jamaat to contest election under BNP's symbol in 25 constituencies"۔ ڈھاکہ ٹریبیون۔ 2018-11-28۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  32. "25 Jamaat men awarded BNP nominations"۔ دی ڈیلی اسٹار (بزبان انگریزی)۔ 2018-11-29۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  33. ^ ا ب "Violence subsides as campaign ends"۔ دی ڈیلی اسٹار (بزبان انگریزی)۔ 2018-12-29۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  34. "Election violence: UN human rights experts express concerns"۔ ڈھاکہ ٹریبیون۔ 2018-12-21۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2018 
  35. ^ ا ب "No end in sight to violence"۔ دی ڈیلی اسٹار (بزبان انگریزی)۔ 2018-12-27۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2018 
  36. "BTRC suspends 3G, 4G services"۔ دی ڈیلی اسٹار (بزبان انگریزی)۔ 2018-12-29۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2018 
  37. Bangladesh election: Opposition demand new vote BBC News, 30 December 2018
  38. https://www.theguardian.com/world/2018/dec/30/bangladesh-election-polls-open-after-campaign-marred-by-violence
  39. https://www.thedailystar.net/bangladesh-national-election-2018/police-aided-ballot-boxes-stuffing-bangladesh-election-2018-1681033