بودلہ بہار

سندھ کے صوفی بزرگ

بودلہ بہار (انگریزی: Bodla Bahar) (سندھی: بودلو بهار) (پیدائش: 1238ء-وفات: 1298ء) کا اصل نام مخدوم سکندر تھا۔ آپ سیہون شریف کے بڑے درویش اور لعل شہباز قلندر کے خاص خدمت گار تھے۔ آپ کا تعلق ملتان سے تھا۔[1][2]

مخدوم سکندر بودلہ بہار
سندھی: بودلو بهار
مزارِ مخدوم بودلہ بہار
لقببودلہ بہار
دیگر نامبودلو بہار، بودلہ بہار اور سکندر بودلہ
ذاتی
پیدائش602ھ (1238ء)
وفات694ھ (1298ء)
مدفنسیہون شریف، سندھ، پاکستان
مذہباسلام
دیگر نامبودلو بہار، بودلہ بہار اور سکندر بودلہ
سلسلہسلسلہ قلندری
سلسلہ قادریہ
مرتبہ
استاذعثمان مروندی
مقامسیہون شریف
دوربارہویں / تیرہویں صدی
پیشرولعل شہباز قلندر

ولادت باسعادت ترمیم

مخدوم سکندربودلہ بہار بزرگ 602ھ بمطابق 1238ء میں اُوچ شریف[3] میں پیدا ہوئے۔

حالات زندگی ترمیم

مخدوم سکندر بودلہ بہار بچپن میں صوفی اولیا کی قربت نصیب ہوئی۔ جوانی میں سیہون شریف آئے۔ پہلے درس و تدریس سے وابستہ رہے مگر بعد میں صوفیانہ رموز کے اثر میں تارک الدنیا بن کر روحانی رہبر کی تلاش میں گم رہنے لگے۔

آپ اس صوفیانہ رنگ میں ننگے گھومتے پھرتے تھے۔ پھر آپ کو لعل شہباز قلندر کی قربت نصیب ہوئی اور آپ قلندر شہباز کے ہردلعزیز طلبہ میں سے تھے۔ آپ نے شادی نہیں کی۔ عمر بھر کنوارے اور مجرد رہے۔ روایات کے مطابق ایک ہندو قصاب نے انھیں قتل کیا تھا۔ بودلو بہار کی مزار سیہون شریف کے قلعہ کے قریب اور قلندر شہباز کی مزار کے شمال میں واقع ہے۔ سیہون شریف میں بودلہ بہار کے نام سے کافی (اوتارہ) بھی ہے۔ آپ ہمیشہ سرخ کپڑے پہنا کرتے تھے جس وجہ سے اس کی درگاہ کے متولی اور فقراء بھی سرخ کپڑے پہنتے ہیں۔ بودلو بہار کی مزار کے فقراء روزانہ پائوں میں گنگھرو پہن کر دھمال لگاتے ہیں۔ ۔[1][3][4]

راجا چوپٹ اور بودلہ بہار ترمیم

ایک مشہور روایت ہے کہ جہاں قلندر شہباز کا مزار واقع ہے اس کے قریب ایک قلعہ ہوا کرتا تھا۔ اور سیہوستان پر راجا چوپٹ کی حکومت تھی۔ چوپٹ کے ظالمانہ اقدامات سے عوام الناس سخت بیزار تھے۔[5] چونکہ وہ ایک ہندو راجا تھا اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کو بھی ظالمانہ کارروائیوں کا نشانہ بناتا تھا۔

بودلہ بہار کی شہادت ترمیم

انہی ایام میں لوگوں نے بادشاہ کو بتلایا کہ ایک مجذوب قلندر شہباز کا دیوانہ ہے۔ اور اس کو ساری دنیا میں لعل شہباز قلندر سے زیادہ کوئی عزیز نہیں۔ بادشاہ کو شدید غصہ آیا کہ؛ میرے خلاف لال شہباز کے حق میں نعرے لگانے والا کون ہے؟ اس نے مجذوب کو اپنے پاس بلوایا اور کہا:

کیا تم ہی نعرے بلند کرتے پھرتے ہو؟

راجا چوپٹ کو اس مجذوب نے جواب دیا:

ہاں! میں ہی ہوں نعرے لگاتا ہوں، میرا مرشد لعل سائیں ہے۔

یہ کہہ کر مجذوب شخص نے دوبارہ دیوانہ وار نعرے لگانے شروع کردیے، راجا چوپٹ نے معلوم کیا کہ اس کا نام کیا ہے تو اس کو بتایا گیا کہ اس مجذوب شخص کا نام ”سکندر بودلہ“ ہے۔ راجا چوپٹ نے کہا قلندر کے حق میں نعرے لگانا بند کر! یہ سن کر بودلہ بہار کی آواز میں مزید شدت آگئی۔ اس راجا کی بددماغی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اس نے حکم دیا کہ مجھ سے بغاوت کرنے کے جرم میں اسے مجذوب کو زبح کرکے پکایا جائے۔ اور اس کا گوشت کہا لیا جائے۔[5] اِدھر ان کو زبح کرنے کے بعد ان کو کھایا جا رہا تھا۔ اور اُدھرا لعل شہباز قلندر وارفتگی سے دھمال ڈال رہے تھے۔ لال شہباز قلندر معمول کے مطابق دھمال کے دوران بودلہ بہار کو پکارتے تھے۔ انھوں نے جیسے ہی ان کو پکارا مختلف روایات کے مطابق جن جن لوگوں نے سکندر بودلہ کا گوشت کھایا تھا ان پر عجیب و غریب واردات گذر گئی، جو بوٹیاں وہ کھا چکے تھے ان کے منہوں اور معدوں سے نکل نکل کر لال شہباز قلندر کے پاس جمع ہونا شروع ہوگئیں۔ جب بودلہ کے تمام اعضاء جمع ہو گئے تو ان اعضاء نے ایک جسم کی شکل اختیار کرلی۔ اور دھمال کرکے دوبارہ جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔[5] پھر یہ منظر دیکھ کر راجا چوپٹ گھبرا گیا۔ لال شہباز قلندر نے راجا سے کہا تو نے تو میرے مرید کو شہید کر دیا، تو نے ایسا کیوں کیا؟ راجا نے گھبراتے ہوئے جھوٹ بولا :

اس مجذوب کو اس لیے قتل کروایا کیونکہ میرے قلعے کی ایک دیوار میں کھڑکی ہے۔جہاں اکثر میری بیٹی بیٹھا کرتی ہے اور بالوں کو سنوارتی ہے۔اس کے بالکل سامنے یہ مجذوب رہتا تھا اور وہ میری بیٹی کا عاشق ہو گیا۔ مجھے علم ہوا تو میں نے رسوائی سے بچنے کے لیے اس کا قتل کروادیا۔

لعل شہباز قلندر کی بددُعا ترمیم

لعل شہباز قلندر نے راجا کو نصحیت کی کہ اس کا نتیجہ راجا کو بھگتنا پڑے گا۔ مگر راجا اُلٹا لال شہباز کو دھمکاتے ہوئے محل کی طرف لوٹ گیا۔[6] پھر لال شہباز قلندر اپنے مرید کی یاد میں بے تحاشہ روئے اور راجا چوپٹ کو بددُعا دی اور راجا کے قلعے سمیت اس کی بستی اُلٹ گئی جس کو آج ”اُلٹی بستی“ کہا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی کو جیسے کسی نے پورا کا پورا اُلٹ دیا ہو۔[2]

وصال ترمیم

مخدوم سکندربودلہ بہار کو 694ھ بمطابق 1298ء کو راجا چوپٹ نے شہید کروایا تھا۔[7]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ميمن عبد الغفور سندھی،”عظيم سنڌي انسان“(سندھی کتاب)، عنوان: بـــــودلـــــو بــهــــار رح (1238ع – 1298ع)، مطبوعہ ماڈرن بُک اسٹور لاڑکانہ
  2. ^ ا ب خدا داد خان، ”لب تاریخ سندھ“
  3. ^ ا ب انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ، ٹائٹل؛ بودلو بهار، شاخ؛ شخصیت
  4. اخترحفیظ،طلوع سحر ہے شام قلندر، سندھ سہون سیاحت، اقتباس؛ ”اٹھو رندو طلوع سحر ہے شام قلندر“ گونجنے لگا۔ آج نہ قلندر ہے اور نہ ہی بودلہ بہار رہا ہے۔۔۔
  5. ^ ا ب پ سید ارتضیٰ علی کرمانی، سیرت پاك حضرت عثمان مروندی،عنوان: حضرت سکندر بودلہ بہار علیہ الرحمۃ، صفحہ۔105۔ مطبوعہ لاہور
  6. سید ارتضیٰ علی کرمانی، سیرت پاك حضرت عثمان مروندی،عنوان: حضرت سکندر بودلہ بہار علیہ الرحمۃ، صفحہ۔105-109۔ مطبوعہ لاہور
  7. سید ارتضیٰ علی کرمانی، سیرت پاك حضرت عثمان مروندی،عنوان: حضرت سکندر بودلہ بہار علیہ الرحمۃ،صفحہ۔107۔ مطبوعہ لاہور