بوطیقا (یونانی: Περὶ ποιητικῆς، لاطینی: De Poetica) ارسطو کی کتاب ہے۔ بوطیقا میں ارسطو نے نقل، فطرت، شاعری کی اصل، شاعری کی اقسام، المیہ کے اصول وغیرہ پر بحث کی ہے اور شاعری کا ایک آفاقی نظریہ پیش کیا ہے۔ ”نقل“ جمالیات کی ایک بنیادی اصطلاح ہے۔ ارسطو اس لفظ کا اطلاق شاعری پر کرتا ہے۔ پروفیسر بوچر کے الفاظ میں ارسطو کے ہاں نقل کا مطلب ہے حقیقی خیال کے مطابق تخلیق کرنا اور خیال کے معنی ہیں اشیا کی اصل جو عالم مثال میں موجود ہے، جس کی ناقص نقلیں اس دنیا میں نظرآتی ہیں۔ عالم حواس کی ہر شے عالم مثال کی نقل ہے۔

بوطیقا
(قدیم یونانی میں: Περὶ ποιητικῆς ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

مصنف ارسطو  ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان قدیم یونانی  ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع شعریات  ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادبی صنف رسالہ  ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ارسطو کے نزدیک انسان حواس کے ذریعہ کسی شے کا ادراک کرتا ہے اور ہر شے کے اندر ایک مثالی ہیئت موجود ہے۔ لیکن خود اس شے سے اس ہیئت کا ادھورا اور نامکمل اظہار ہوتا ہے۔ یہ ہیئت فنکار کے ذہن پر حسی شکل میں اثر انداز ہوتی ہے اور وہ اس کے بھرپور اظہار کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح اس عالم مثال کو سامنے لاتا ہے جودنیائے رنگ وبو میں نامکمل طور پر ظاہر ہوا ہے۔ حواس کے ذریعہ جس دنیا کو محسوس کیا جاتا ہے وہ ”اصل حقیقت“ کے نامکمل اور ادھورے مظاہر ہیں۔

طبعی دنیا کی مختلف شکلیں جدائی اور مثالی شکلوں کی نقلیں تھیں جنہیں اس مادی دنیا میں سونے والے حادثات نے مسخ کر دیا ہے فلسفی کا کام یہ ہے کہ وہ ان اتفاقی اور مسخ شدہ شکلوں کے اندر ”اصل حقیقت“ کو دریافت کرے اور ان قوتوں کو تلاش کرے جو ساری ہستی کا سبب ہیں اور اسے حرکت میں لاتے ہیں۔ یہی کام شاعر کا ہے۔ ارسطو کے اس ”شاعرانہ نقل“ کے نظریہ نے شاعر کو فلسفہ کے اعلیٰ منصب میں ایک اہم مقام عطا کر دیا۔ اس نظریہ کے مطابق نقل تخلیقی عمل ہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی اس کا شعریات کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔[1]

عزیز احمد نے "فن شاعری"کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔

جمیل جالبی نے"بوطیقا" کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔

حوالہ جات ترمیم