بھیرہ (انگریزی: Bhera) پاکستان کا ایک آباد مقام جو پنجاب، پاکستان میں واقع ہے۔ مدارس اسلامیہ کی ایک حسین کڑی دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا ہے جس کی بنیاد غازی اسلام پیر محمد کرم شاہ نے 1925ء میں رکھی۔ علوم جدیدہ و قدیمہ پر مشتمل نصاب مرتب فرمایا۔ یہاں سے فارغ التحصیل علماءزندگی کے مختلف شعبوں میں بطریق احسن فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔[1] بھیرہ کا شہر اس مشہور شاہراہ پر واقع تھا جو کابل سے ہندوستان تجارت کی غرض کے لیے استعمال ہوتی تھی۔


بھیرا
شہر
جامع مسجد شیر شاہ سوری, 1540
جامع مسجد شیر شاہ سوری, 1540
بھیرہ Bhera is located in پنجاب، پاکستان
بھیرہ Bhera
بھیرہ
Bhera
بھیرہ Bhera is located in پاکستان
بھیرہ Bhera
بھیرہ
Bhera
بھیرہ کا مقام
متناسقات: 32°28′52″N 72°54′25″E / 32.48111°N 72.90694°E / 32.48111; 72.90694متناسقات: 32°28′52″N 72°54′25″E / 32.48111°N 72.90694°E / 32.48111; 72.90694
ملک پاکستان
صوبہپنجاب
ضلعضلع سرگودھا
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)

بھیرہ شہر کے کل سات دروازے تھے جن میں سے تین جزوی یا مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ دریائے جہلم کی طرف سے اگر بھیرہ میں داخل ہوئیں تو "چڑی چوگ دروازہ" کی طرف سے شہر میں داخل ہوں گے۔ اگر لاہور کی طرف سے بھیرہ شہر میں داخل ہونے لگیں تو لاہوری دروازہ سے داخل ہوں گے جسے 1869ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ معلوم نہیں کن ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر لاہوری دروازے کا نام تبدیل کر کے گنج منڈی دروازہ رکھ دیا گیا ہے۔ ملتان کی طرف سے آنے پر ملتانی دروازے سے بھیرہ شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ جسے 1863ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ بھیرہ کے ان چار دروازوں میں سے بھی صرف گنج منڈی دروازہ آج بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہے جبکہ باقی تین دروازوں کو بعد میں از نو تعمیر کیا گیا۔

نام کی وجہ تسمیہ ترمیم

اہل علاقہ کے مطابق لفظ "بھیرہ" کی اصل یہ ہے کہ اصلا اسے "بے راہ" کہا جاتا تھا کیونکہ اس علاقے کو آنے والے راستے نہایت ہی معدوم ہوا کرتے تھے۔ ایک طرف دریائے جہلم ہونے کے سبب یہ دیگر علاقوں سے کٹا ہوا ہے اور ساتھ ہی کلر کہار کا پہاڑی سلسلہ بھی ہے۔ بعد میں یہ لفظ "بے راہ" سے "بھیرہ" بن گیا۔

تاریخ ترمیم

بھیرہ مسلسل 2400 سال سے آباد ایک قدیم شہر ہے جس نے سکندر یونانی راجہ پورس غزنوی خلجی لودھی تغلق مغلیہ خاندان سوری خاندان سکھا شاہی انگریز راج کو قریب سے دیکھا ہے، لاہور سے اسلام آباد موٹر وے ، M-2 پر سفر کریں تو بھیرہ انٹر چنیج آتا ہے، تحصیل بھیرہ کی کل آبادی ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے اس میں 16 یونین کونسلز اور میونسپل کمیٹی کے 12 وارڈز ہیں... یہ پنچاب کا قدیم ترین شہر ہے، تاریخ بھیرہ بہت قدیم اور تاریخی لحاظ سے اہم ہے۔ 326 قبل مسیح سکندر اعظم نے ہندوستان کے حکمران راجا پورس سے جو لڑائی لڑی، اس کے دورآن اس کا مشہور گھوڑا، بیوس فیلس مارا گیا بیوس فیلس کو قدیم زبان سنسکرت میں بھیرہ کہتے ہیں،سکندر نے یونان اور ایشیا کے درمیان تمام لڑائیاں اس پر سوار ہو کر ہی لڑی تھیں۔ اس کی موت سے اسے بہت دکھ ہوا اور اس نے گھوڑے کے نام پر شہر کہ بنیاد ڈالی سکندر اعظم نے لڑائی کے لیے دریاؕئے جہلم عبور کرنے سے پہلے چار روز تک بھیرہ شہرمیں قیام کیا ، مشہور چنی سیاح فاھیان نے اپنے ہند کے سفر نا مے میں بھیرہ شہر کا ذکر کیا ہے۔اس نے بھیرہ سے دریاے جہلم کو عبور کیا، جو اس وقت کی عظم ریاست تھا ،عظیم مغل باڈشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی سوانح تزک بابری میں بھیرہ کاذ کر کیا ہے۔ لفظ بھیرہ کے کئی ایک ماخذ ہیں لیکن جس پر اتفاق ہے کہ یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور اس کا مفہوم ،ایسی جگہ ہے جہاں کوئی خوف نہ ھو ، قدیم بھیرہ شہر در یائے جہلم کے دائیں کنارے آباد تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے جب ھندوستان پر حملہ کیا تو دوران سفر یہاں چار دن قیام کیا اور باضابطہ طور پر اپنا عامل یعنی گورنر مقرر کیا اور پہلی اسلامی حکومت کا حصہ بنایا.. 1545ء میں پٹھانوں کے جھگڑے کے دوران یہ شہر تباہ ھو گیا ،لیکن اس کی جفرافیائی اہمیت کی وجہ سے شیر شاہ سوری نے دوبارہ اسے دریائے جہلم کے بائیٰں کنارے تعمیر کیا ،اس نے ایک شاہی جامع مسجد بھی تعمیر کی جو ابھی موجود ہے۔ 1300سال قبل بھیرہ علم وفن سیکھنے کی اہم جگہ تھی، لوگ یہاں علم طب اور جغرافیہ کا علم سیکھنے دور دراز سے آتے تھے۔ یہ سرزمین صوفیوں کی آماجگاہ بھی رہی ہے، میراں صاحب اسیے صوفی تھے جہنوں نے لوگوں کو اس علاقے میں مشرف بہ اسلام کیا ، لوگ ان کے مزار پر حاضری دے کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ عظیم مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں یہاں شاہی ٹکسال قائم ھوا ،جہاں سونے اور چاندی کے سکے بنتے تھے، بھیرہ شہر میں اسلام کی خدمت کے لیے 3 صدیوں سے مسلسل مصروف عمل خاندان بگویہ بہت اہمیت کا حامل ہے اس خاندان کی گواہی آج بھی شیر شاہی مسجد اور جامعہ عزیزیہ کے در و دیوار دے رہے ہیں، خاندان کے مورث اعلٰی مولانا احمد الدین بگوی ہیں تین صدیوں پر محیط اس خانوادہ کی خدمات پر صاحبزادہ انوار احمد بگوی نے چار ضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب تذکار بگویہ لکھی ہے جامع مسجد بگویہ کے موجودہ مہتمم صاحبزادہ ابرار احمد بگوی صاحب ہیں جو بین المذاہب امن کمیٹی کے ارکان بھی ہیں..پیر کرم شاہ صاحب الازھری اور ان کے والد محترم پیر محمد شاہ ...خواجہ خان محمد اوربے شمار نامور شخصیات اسی مدرسہ کی فیض یافتہ ہیں.... بھیرہ کی معروف شخصیات میں سید غلام رضا شاہ بخاری۔ سید بادشاہ حسین شاہ بخاری, پیر سید حسن امیر گیلانی۔ سادات خاندان۔ خاندان بگویہ پیر کرم شاہ صاحب خواجہ محمد حسین پراچہ انوارالحق پراچہ ھارون پراچہ ,مولانا جلال الدین حقانی اور محسن علی صدر ہیں بھیرہ شہر اپنی دستکاریوں ،لوہے کے برتنوں ،تلوار سازی ،لکڑی کے فرنیچر، کندہ کاری اور برتن سازی کی وجہ سے بہت مشہور تھا، انگلستان میں بکنگھم محل کے دروازوں پر کندہ کاری کے لیے کاریگر بھیرہ شہر سے لے جائے گئے ،اب بھیرہ کی مہندی ،پھینیاں اور پتیسہ مشہور ہے اس عظیم قدیم شہر کو حکومتی سطح پر بالکل نظر انداز کرویا گیا اور اس کی صحیح تاریخی اہیمت کو اجاگر نہیں کیا گیا۔

مشہور شخصیات ترمیم

اس محلہ میں سادات خاندان اور قریشی خاندان مقیم ہیں جن کا تعلق فقہ جعفریہ شیعہ اثنا عشریہ سے ہے مشہور مداح اہلبیت ذاکر ملک جعفر طیار کا تعلق اسی محلہ سے ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Bhera"