بیگ یا بے۔ ترکی اور تاتاری زبان کا ایک اعزازی خطاب کسی زمانے میں شاہزدگان، امرا اور معززین کے لیے مخصوص تھا۔ لیکن بعد میں فوجی افسروں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ سلجوقی ترک یورپ گئے تو بیگ کا لفظ بے رہ گیا۔لفظ بیگ کا استعمال مغل قوم میں ایل خانی سلطنت کے بانی ہلاکو خان کی چوتھی پُشت سے امیرایکوتمربانی کے خاندان کے لڑکے امیر شکل بیگ کے نام کی نسبت سے شروع ہوا اور امیرشکل بیگ کی اولاد نے متواتر لفظ بیگ استعمال کیا ۔ امیر تیمور کی اپنی خودنوشت “تزک تیموری” مترجم سید ابوہاشم ندوی کے صفحہ 89 پر درج ہے کہ "بیگ باشی" ایک فوجی یونٹ کا نام ہے یہ فوجی اس کے عزیز ترین ماتحت ہوتے تھے۔ترکستان میں قدیم ایّام سے رواج چلا آتا ہے کہ میدان کارزار میں جو شخص جان بازی کرتا ہے اس کو بیگ کے خطاب سے سرفراز کیا جاتا ہے بیگ کے لغوی معنی سردار اور چیف کے ہیں اور پاک و ہند کے برلاس مغل اپنے نام کے ساتھ بیگ کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ یہ لوگ منگولیا یا ترکستان کے تھے۔ شہنشاہ بابر کے ساتھ ہندوستان آئے اور بیگ کہلائے۔ • بیگم کا لفظ بیگ ہی کا مونث ہے۔ بیگم سے ہی بیگی اور بی بی کے لفظ نکلے ہیں۔

اسلامی القاب ترمیم