جس کے معنی اصل کی طرف لوٹ جانے کے ہیں یہ اسمعیلی مذہب کا اہم رکن ہے۔ شیعوں کے تمام فرقے تاویل کے قائل ہیں۔ ان کے یہاں اس آیت ’’ لا یعلم تا ویلہ الا اللہ والر سخون فی العلم یقولون آمنا بہ ‘‘ میں الا للہ پر وقف کرنا درست نہیں ہے۔ ان کے نذدیک وہ علمائ بھی جو علم میں راسخ رہے ہیں، یعنی انبیا، اوصیا اور ائمہ تاویل کرتے ہیں۔ لیکن جس فرقہ نے اس فن کو ترقی دی اور خاص طور پر تمام احکام، عبادت اور قصص انبیا کی تاویلوں کے متعلق کتابیں لکھیں وہ اسمعیلیہ ہیں۔ بعض صوفیا بھی تاویل کے قائل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام انبیا کی شریعتیں رموز و ممثولات پر مبنی ہیں جو تاویل میں بیان کیے جاتے ہیں۔ یعنی جو نبی شریعت کوئی نبی وضع کرتا ہے، اس کے احکام میں ایسے رموز کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ جو اس کا اصل مقصود ہوتا ہے۔ تاویل کا عربی میں معنی اصل کی طرف لوٹنے کے ہیں۔ تاویل کو شریعت کی حکمت، دین کا راز اور علم روحانی بھی کہتے ہیں۔ جس کی تعلیم کے لیے ہر نبی اپنا ایک وصی مقرر کرتا ہے۔ بنی کا فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام بتائے اور وصی کا کام یہ ہے کہ وہ ان کو تاویلوں سے آگاہ کرے ۔

تاویل کا منظر عام پر آنا ترمیم

اسمعیلیوں کی تاویلیں زیادہ دیر مخفی نہ رہیں اور آہستہ آہستہ منظر عام پر آگئیں۔ بعض غیر اسمعیلی مورخوں نے مثلاً بغدادی، شہر ستانی اور مقریزی نے اپنی تصنیفات میں بؑض تاویلیں ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے بعض اسمعیلیوں کی مصنفوں کی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان میں داعی ناصر خسرو کی ’ وجہ دین ‘، تاویل الدعام ‘ قاضی نعمان بن محمد، تاویل الزکوٰۃ ‘ داعی جعفر بن منصور الیمن اور مجالس المستنصریہ ہیں۔ مگر ان میں سب سے اہم اور مستند کتاب ’ اخوان الصفا ‘ ہے۔ یہاں تاویلوں کی کچھ مثالیں پیش کر رہے ہیں ۔

وضو
وضو گناہوں سے نفس کا پاک کرنا یا دعوت کے اضداد سے برات کرنا یا حضرت علیؓ کا اقرار کرنا کیوں کہ وضو اور علی میں تین حروف ہیں یا دعوت کے اضداد سے برات کرنا یا حصرت علیؓ کا اقرار کرنا۔ کیوں کے وضو اور علیؓ میں تین تین لفظ ہیں ۔
وضو کے احداث ( ریح، بول، براز ) نفس کی نجاستیں۔ ( نفاق، شرک، کفر )
کلی کرنا امام کا اقرار کرنا اور اس کی اطاعت کرنا ۔
مسواک کرنا دعوت کے حدود کا اعتقاد رکھنا اور ان پر کوئی الزام نہ آنے دینا۔ ( دانت کے ممثول دعوت کی حدود ہیں )
منہ دھونا امام اور سات ناطقوں اور سات امام کا اقرار کرنا۔ کیوں کہ انسان کے چہرے میں سات سوراخ ہیں ۔
ڈارھی کے بالوں کو اچھی طرح صاف کرنا انبیا اور ائمہ کی تصدیق اس طرح کرنا کہ ان میں کوئی چھوٹ نہیں جائے ۔
سیدھا ہاتھ دھونا نبی یا امام کی اطاعت کرنا یا وصی کی دعوت کا اقرار کرنا، کیوں کہ دونوں ہاتھ آستینوں میں پوشیدہ رہتے ہیں۔ ( یہ دونوں ہاتھوں کو دھونے کی تاویل ہے )
بایاں ہاتھ دھونا وصی یا حجت کی اطاعت کرنا ۔
سر کا مسح کرنا رسول خدا کا اقرار کرنا اور آپ کی شریعت پر چلنا یا نفس شریفہ کا اقرار کرنا۔ سر کا مسح اس طرح کرنا کہ بال اٹھنے نہ پائیں۔ یعنی امام کا اپنے کلام کو اشارے کے طور پر بیان کرنا جس میں شرح کی تصریح نہ ہو ۔
سیدھے پاؤں کامسح کرنا امام یا داعی کا اقرار کرنا ۔
بائیں پاؤں کا مسح کرنا حجت یا ماذون کرنا ۔
دھونا اطاعت کرنا ۔
مسح کرنا اقرار کرنا اقرار کرنا
پانی نہ ہونے کی صورت میں تیم کرنا دعوت کے حدود نہ ہونے کی حالت میں کسی مومن ( مستجیب ) سے متعلق ہونا ۔
ناخن کترنا اور طہارت کے دیگر احکام مستحق کو ظاہر کشف کرکے باطن بتانا یا اہل ظاہر کے ظاہر کو نکال دینا ۔
نماز
نماز پڑھنا داعی کی دعوت میں داخل ہونا یا رسول خدا کا اقرار کرنا۔ کیوں کہ صلوٰۃ اور محمد میں چار حروف ہیں۔
قبلہ کی طرف متوجہ ہونا امام کی طرف متوجہ ہونا ۔
ظہر کی نماز رسول خدا کی دعوت داخل ہونا۔ کیوں کہ آپ کے نام محمد میں چار حروف ہیں اور ظہر کی چار رکعتیں ہیں ۔
عصر کی نماز حضرت علیؓ یا صاحب القیامہ کی دعوت میں داخل ہونا ۔
مغرب کی نماز آدم کی دعوت میں داخل ہونا۔ کیوں کہ آدم اور مغرب میں تین حروف ہیں
عشا کی نماز چار نقیبوں کی دعوت میں داخل ہونا جو بارہ نقیبوں میں بڑی فضیلت والے ہیں ۔
فجر کی نماز مہدی اور اس کی حجت میں داخل ہونا ۔
تکبیر الحرام یعنی دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابلے میں لانا، جس میں سات سوراخ ہیں امام، حجت اور سات ناطقوں کا اقرار کرنا اور ان کے درمیان فرق نہ کرنا ۔
قیام کی حالت میں ایک ہاتھ کو دوسرے میں ضم کرنا حجت کو امام سے نہ امام کو حجت سے نہ چھپانا۔ یا وصی کا حجتوں کو بارہ جزائر کی طرف بھیجنا یا رسول خدا جن کی طرف رتبہ و وصایت اور رتبہ امامت میں ضم تھے، وصی یا امام کو قائم کرنا۔
رکوع و سجود حجت اور امام کی معرفت اور اطاعت۔
روزہ
ماہ رمضان حضرت علیؓ کیوں کہ ہر نبی کے بارہ حجت ہوتے ہیں، جس طرح ہر سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں اور ماہ رمضان نواں مہینا جس میں مولود پیدا ہوتا ہے یا امام معز کیوں کہ ساتویں مہینے میں بچہ پیدا ہوتا ہے یا امام محمد بن اسمعیل، کیوں کہ یہ امام رسول خدا سے نویں ہیں ۔
ماہ رمضان کے روزے رکھنا شریعت کا باطنی علم اہل طاہر سے چھپانا ۔
ماہ رمضان کے تیس دن حضرت علی اور امام مہدی کے درمیان دس امام، دس حجتیں اور دس ابواب ہیں ۔
لیلتہ قدر خاتم الائمہ کی حجت یا حضرت فاطمہؓ جن کی طرف یہ رات منسوب ہے ۔
سورۃ القدر اس میں تیس کلمات ہیں اس طرح ماہ رمضان کے تیس دن ہیں حضرت علیؓ اور خاتم الائمہ کے درمیان پندرہ امام ہوں گے جو پندرہ حجتیں بھی ہوں گے، ہر امام قبل اس کے کہ وہ امام ہو حجت ہوتا ہے ۔
عید الفطر امام مہدی کا ظہور جو 290ھ میں ہوا ۔
عید الضحٰی صاحب القیامہ کا ظہور ۔
زکوٰۃ
زکواۃ ادا کرنا مفید ( استاد ) کا مستفید ( شاگرد ) کو پڑھانا ۔
سونا، چاندی، پیتل وغیرہ علم ناطق، علم اساس، علم داعی بحسب مراتب، ناطق کا اساس کو اپنے علم کا چالیسواں حصہ سیکھانا ۔
اونٹ، گائے اور بکرے اور ان زکوٰۃ ناطق، اساس اور داعیوں کا اپنے زمانے میں دعوت کی حدود قائم کرنا ۔
حج
بیت اللہ کا قصد امام کی طرف متوجہ ہونا ۔
کعبہ رسول خدا۔
باب کعبہ حضرت علیٰ ۔
حجر اسود امام الزماں کی وہ حجت جو ان کے بعد امام ہو ۔
لبیک کہنا امام کی دعوت دینا ۔
خانہ کعبہ کا سات بار طواف کرنا سات اماموں کے احکام کی پیروی کرنا، جن میں ساتواں قائم ہونا ۔
صٰفائ و مروہ رسول خدا و حضرت علیؓ ۔
بیعت اللہ کو پردوں سے ڈھانکنا باطنی شریعت کو ظاہر ڈھانکنا ۔
لا الہ الا اللہ
لا الہ حدود سفلیہ ( اس لیے اس میں نفی ہے )
الا اللہ حدود علویہ ( اس لیے اس میں اثبات ہے )
لا اساس
الہ ناطق
الا لوح
اللہ قلم
سات فصیلیں۔ لا، ا، لہ، ا، لا، ا، اللہ سات ناطق یا امام ۔
محمد رسول اللہ سرنامے کا متن
تین کلمہ۔ محمد، رسول، اللہ اسرافیل، میکائیل، جبرئیل، حجت، لاحق ۔
چھ فصیلیں محمد، ر، سو، ل، ا، للہ = چھ ناطق جو اولعزم ہیں ( آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور رسول اللہ )
بارہ حروف م، ح، د، ر، س، و، ل، ا، ل، ل، ہ = بارہ لواحق یعنی حجتیں جو زمین کے بارہ جزایر میں بھیجے جاتے ہیں

احکام عبادت کے علاوہ قصص انبیا کی تاویلات کی گئی ہیں اور ان میں بار بار دعوت اور اس کی حدود کی طرف اشارہ کیا گیا ہے

تاویلوں میں اختلاف کا سبب ترمیم

تاویلوں میں یکسانی ضروری نہیں ہے۔ اس لیے ان میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ مختلف داعی مختلف داعی تاویلیں کرتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی داعی شریعت کے ایک ہی حکم کی مختلف وجہوں اور مختلف تاویلیں کر سکتا ہے۔ اس کی تائید میں امام جعفرؒ کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ تاویل کی سات بلکہ ستر وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یعنی بہت سی ہو سکتی ہیں۔ دعوت کے اصول اور اس کے حدود ارکان کے مراتب و مدارج کو قائم رکھ کر مختلف تاویلیں کی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ سامع کی لیاقت، تقاجائے وقت اور حد امکان کے لحاظ سے تاویلیں کی جاتی ہیں اور ایک ہی تاولی دوسری تاویل سے ادنیٰ یا اعلیٰ ہو سکتی ہے۔

تاویل کرنے والوں کو ہدایت ترمیم

تاویل کرنے والے داعیوں کو سخت ہدایت کی گئیں ہیں۔ پہلی یہ ان کو تاویل کی حدود سے متجاوز نہ ہوں۔ یعنی انھوں نے جیسی سنی ہوں ویسی ہی دوسروں کو سنائیں اور اس میں کوئی رد و بدل نہ کریں۔ ورنہ دین میں خلل پڑجائے گا۔ دوسری یہ تاویل کونے والے میں پہلے ’ رمز و اشارہ ‘ سے کام لیں جس کا نام ’ حد الرضاع ‘ رکھا گیا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اپنے مقاصد کی تصریح کریں۔ تیسری یہ کہ اس بات کی احتیاط کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سنسنے والا معرفت باطن کو کافی سمجھ کر ظاہری شریعت کے احکام کو معطل کر دے اور حرام کو حلال سمجھ لے اور ظاہر کو اپنے اصل سے ہی ساخت کر دے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے یہ سنا کہ جنت سے دعوت اور ’ ظاہر و تقلید ‘ مراد جہنم مراد ہے تو انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ جنت و جہنم یہی ہیں۔ ان کے سوا کوئی اور جنت و جہنم نہیں ہے اور بعض مستجیبوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ اعمال شریعت کے مثولات دعوت کے ’ حدود ‘ ہیں تو انھوں نے حدود کو مان کر ظاہری اعمال کر دیے۔ دوسری صدی کے نصف اول کے بڑے داعی مغیرہ اور ابو خطاب جب اس راز سے واقف ہوئے کہ شراب کا باطن فلاں حد ہے تو انھوں نے اس حد سے پ رہی ز کرکے شراب کو حلال سمجھ لیا۔ قاضی نعمان بن حمد نے اس خطرے سے بہت ڈرایا ہے اور ہر مجلس کے آخر میں بار بار ہدایت کی ہے کہ باطن کی معرفت کے ساتھ ظاہری عمل بھی ضروری ہے۔ یہی اسباب تھے جن سے فاطمین کے عہد میں مختلف فرقے پیدا ہوئے۔ ماخذ

ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر