تتلی اثر (انگریزی : butterfly effect) طبیعیات میں ’’نظریۂ انتشار‘‘ نظریہ شواش (کیاس تھیوری) کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ ابتدائی کیفیت میں چھوٹی چھوٹی سی تبدیلیاں بعد میں آنے والی بہت بڑی تبدیلیوں کو جنم دی سکتی ہیں۔

نظریۂ شواش (جسے نظریۂ انتشار اور’’کیاس تھیوری‘‘ بھی کہا جاتا) ایسے مخصوص حریکی نظامات کے طرزِ عمل کا مطالعہ کرتا ہے جو اپنی ابتدائی حالت پر سخت حساس ہوں۔ اس حساسی کو عرف عام میں ’تتلی اثر‘ کہا جاتا ہے۔ شواشی نظامات میں ابتدائی حالت میں چھوٹے فرق سے نتائج میں بڑا انتشار پیدا ہوتا ہے۔

یہ نظریہ ہماری توجہ ان عوامل کی جانب مبذول کراتا ہے جو بظاہر ایک معمولی دکھائی دینے والی تبدیلی کے نتیجے میں حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئیے اس بات کو کچھ مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرض کیجئے کہ امریکا میں ایک تتلی کسی باغ میں اڑتی چلی جا رہی ہے۔ تتلی کے پروں کی پھرپھراہٹ سے ہوا کے ذرات میں انتشار پھیلے گا اور وہ ذرات اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے کچھ آگے پیچھے ہونے لگیں گے۔ ایک ذرے کی حرکت سے دوسرے ذرے پر کچھ دباؤ پڑے گا اور وہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔ یہی عمل اگلے ذرات پر بھی رونما ہوگا۔ جی ہاں، ہوا کے ذرات میں اس قدر افراتفری پھیل جائے گی جس کا تصور بھی محال ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہوا کے دباؤ میں کمی بیشی کسی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو تبدیلی کی وہ لہر مزید بڑھتے بڑھتے دوسرے علاقوں، شہروں یا ملکوں کا رخ بھی کرسکتی ہے۔

’نظریۂ انتشار‘ کے مطابق اس عمل کو تتلی اثر (بٹر فلائی افیکٹ) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق کسی ایک جگہ پر تتلی کے اڑنے کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ہوا میں ایسا انتشار پھیلے جو بحر اوقیانوس تک میں طوفان لے آئے۔

نتیجہ ترمیم

بلا سوچے سمجھے اور بغیر کسی دور اندیشی کے کیے جانے والے فیصلے آغاز میں بظاہر ویسے ہی بے ضرر دکھائی دیتے ہیں، جیسا کسی تتلی کے پروں کی پھر پھراہٹ، مگر وہی فیصلے بعد میں کئی نسلوں کے لیے روگ بن جاتے ہیں اور ایسے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں، جو اپنے ساتھ خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔