یہ ایک امن پسند اور محنتی قوم ہے ۔ بھارت میں بشتر تیلی اب بھی ہندومت مذہب ہیں ، تاہم پاکستان میں تیلی مسلمان ہیں ۔ ریزلے کی رائے میں اس پیشے کے لوگ قدیم اور وسطی دور میں بھی کمی ہی تھے۔ کیوں کہ امور خانہ داری اور دوسرے تہواروں کے موقع پر ہر ہندو تیل کا استعمال کرتا ہے اور تیل نکالنے کا کام صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کی سماجی پاکزگی غیر مشتبہ ہوتی۔[1] مگر ہندوازم نے ان کو شودر بنا دیا۔

تیلی سماج کی حیثیت ترمیم

ہندو معاشرتی نظام میں ہندو تیلوں کو شودر کا درجہ حاصل ہے[2] لیکن مسلمان عرب نزاد تیلی کی حثیت ویش اور کمی کے برابر ہے[3] جبکہ تھل اور تھر کے تیلیوں کو ملیچھ کہا جاتا تھا (مسلمان عرب نزادوں کو ہندوستان میں بڑی حیثیت حاصل ہے، ان کو شودر ، ویش یا ملیچھ نہیں کہا جا تا) ۔ مسلمان ملکوں میں تیلیوں کو تھوری بوتی سماجی حثیت حاصل ہے، ان کو "ملک" کا لقب دیا گیا کیونکہ عرب اور افغان سلاطین اپنے ناموں کے ساتھ ملک کا لقب اعزاز کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جبکہ ہندو تیلی "ساہو" کا لقب استعمال کرتے ہیں

انگریز کی ہندوستان آمد نے بیجوں سے تیل نکانے کے پیشے کو عروج بخشا۔ انگریز ہندوستان سے بیجوں کا تیل ایسٹ انڈیا کمپنی کے بحری جہازوں سے برطانیہ لے جاتی تھی کیونکہ خالص بیجوں سے حاصل کردہ یہ تیل قدرتی اور صحت بخش تھا۔ اس دور میں بہت سی دوسری ذاتیں اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر اس پیشے سے منسلک ہو گئیں۔ 1940 کی دہائی میں بناسپتی گھی کی آمد کے ساتھ اس پیشہ کی اہمیت کم ہوتی گئی اور اس کی جگہ دوسرے پیشوں نے لے لی۔[4]

سرڈیزل اسپن کے مطابق زیادہ تر تیلی اس قدر صاف رنگت اور کھڑا نین نقشہ رکھتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر ایسا گمان ہوتا ہے جیسے کسی پٹھان کو دیکھ رہے ہوں جس سے ایک بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ماضی میں ان لوگوں کا تعلق اونچی ذات کے لوگوں سے رہا ہے۔ اسپن کے مطابق ان کی عورتیں بھی گورے رنگ کی اور خوبصورت ہوتی ہیں۔یہ لازمی طور پر مسلمانوں کے ساتھ یا اس سے پہلے ہنوں گجروں کے ساتھ بر صغیر آئے۔ [5]

تیلی کو ایک ذات کی بجائے پیشہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا جس میں مختلف ذات اور قبیلوں کے لوگ شامل ہیں کیونکہ زمانہ قدیم سے بیجوں کا تیل نکالنا ایک نفع بخش کاروبار رہا ہے۔ کھانا پکانے میں بیجوں کے تیل کے استمعال کی وجہ سے اس پیشے کو اپنے وقت کا سب سے نفع بخش پیشہ گردانا جانا جاتا تھا۔ ایک طرف جہاں راجپوتوں اور جاٹوں کے مختلف قبائل اس پیشے کو اپنائے ہوئے تھے تو دوسری طرف مختلف اوقات میں مسلم فاتحین کے ساتھ برصغیر آنے والے عرب ترک اور پشتون قبائل بھی اپنی سلطنتیں ختم ہو جانے کے بعد اس پیشے سے منسلک ہو گئے۔ سلطان شہاب الدین غوری اور علاؤ الدین خلجی کی کی سلطنتوں کے زوال کے بعد پشتون اور ترک قبائل جو ان سلاطین کی افواج کے ساتھ ہندوستان آئے تھے اپنی جاگیروں اور جائیدادوں سے محروم کر دیے گئے تو ان قبائل نے حصول آمدن کے لیے اس پیشہ کو اپنا لیا۔ تیلیوں کی بیشتر گوتیں راجپوت ماخذ ہونے کی دعویدار ہیں۔ان کی 53 سے زائد گوتوں میں زیادہ تعداد راجپوت گوتوں کی ہے۔تیلی راجپوت گوتوں میں پنوار، چوہان، کھوکھر، بھٹی، طور، راٹھور، تنوار، سرویا، جوئیہ اور گہلوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ودھڑ، دیمہ، بینتھیہ، جدران، رجوانہ اور سولڈا تھہیم وغیرہ جاٹ گوتیں، پرساد، گھانچی، نربن کھتری ذاتیں جبکہ غوری اور خلجی بالترتیب پشتون اور ترک قبائل ہیں۔ بڑ گوجر کا تعلق گوجر قبیلے سے ہے۔

1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی فتح کے بعد ان راجپوتوں کو چن چن کر سزائیں دی جانے لگیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ ان راجپوت قبائل کے خاندان جان بچانے کے لیے اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں روپوش ہو گئے اور اپنی شناخت بدل کرتیل نکالنے کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔[6][7][8][9]

مسلمان تیلیوں میں برادری کا نظام موجود ہے ۔ پہلے یہ کولھو کے ذریعہ تیل نکالتے تھے مگر مشینوں کے آمد نے ان کے اس کام کو ختم کر دیا ہے اور اب بہت کم تیلی تیل نکالنے کا کام کرتے ہیں ۔ ان میں بہت سوں نے دودھ کی فروخت یا سبزی پھل کی فروخت کاشتکاری یا دیگر کاروبار اپنا لیے ہیں ۔ فیصل آباد سیالکوٹ اور کراچی کے تیلی معاشی لحاظ سے کافی مستحکم ہیں

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. People of India Uttar Pradesh Volume XLII edited by A Hasan & J C Das
  2. "Bid to make Teli an EBC opposed". The Times of India. 26 May 2009. Retrieved 28 November 2013.
  3. 1] People of India Uttar Pradesh Volume XLII edited by A Hasan & J C Das
  4. {{More Citation needed}}
  5. Punjab Ki Zatein 
  6. "Bid to make Teli an EBC opposed"۔ The Times of India۔ 26 May 2009۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2013 
  7. Øyvind Jaer (1995)۔ Karchana: lifeworld-ethnography of an Indian village۔ Scandinavian University Press۔ ISBN 9788200215073 
  8. L. M. Khanna (2002)۔ Incredible story of social justice in India۔ Aravali Books International 
  9. Reinhard Bendix، Seymour Martin Lipset۔ Class, Status, and Power: Social Stratification in Comparative Perspective۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 29 

ماخذ ترمیم

  • ہندوستانی مسلمانوں پر برصغیر کی تہذیب کا اثر ۔ ڈاکٹر محمد عمر
  • پنجاب کی ذاتیں ۔ سر ڈیزل ایپسن
  • ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا ۔ ای ڈی میکلین، ایچ روز