جادھو پور یونیورسٹی بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتا میں واقع ایک عوامی ریاستی یونیورسٹی ہے۔ اس کی تاسیس 1955ء میں عمل میں آئی تھی۔

جادھو پور یونیورسٹی
دیگر نام
JU
سابقہ نام
Bengal Technical Institute (The National Council of Education, Bengal) (1906–1955)
Jadavpur University (merger in 1955–present)
شعارTo Know Is To Grow
قسمعوامی جامعہ
قیام24 دسمبر 1955؛ خطا: پہلا پیرامیٹر وقت یا تاریخ کے طور پر پارس نہیں ہو سکا۔ (24 دسمبر 1955)
چانسلرGovernor of West Bengal
وائس چانسلرSuranjan Das
طلبہ11,064[1]
انڈر گریجویٹ6,283[1]
پوسٹ گریجویٹ3,588[1]
مقامجادوپور، کولکاتا، ، بھارت
کیمپسشہری علاقہ
AcronymJU
وابستگیاںیونیورسٹی گرانٹس کمیشن (بھارت)، NAAC، AIU، AICTE
ویب سائٹwww.jaduniv.edu.in

تاریخ ترمیم

قومی کونسل برائے تعلیم، بنگال ترمیم

بھارت کی 3 یونیورسٹیاں جدید ہندوستان کے ابتدائی یونورسٹیاں ہیں ان میں مدراس یونیورسٹی، بامبے یونیرسٹی اور کلکتہ یونیورسٹی شامل ہیں۔ برطانوی حکومت نے 1857ء میں بھارت کے اعلیٰ طبقہ کومغربی فلسفہ پڑھانے کے لیے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو قائم کیا تھا۔ ان کا ایک اور مقصد ایسے ہندوستانی پیدا کرنا تھا جو اپنی فکر اور سوچ سے برطانوی ہوں۔ یعنی ہندوستانی خون میں مغربی دماغ ہو۔[2] اسی منصوبہ کے تحت 1904ء میں یونیوسٹیز ایکٹ پاس ہوا۔ اس ایکٹ کی وجہ سے حکومت کلکتہ یونیورسٹی میں زیادہ گورے لوگوں کو گھسانے میں کامیاب ہو گئی جس سے انھیں یونیوسرٹی کی پالیسی کو کنٹرول کرنا آسان ہو گیا۔


تحریک آزادی ہند کے نامور لیڈر بھارت میں تعلیم کے فروغ کے علم بردار کلکتہ یونیورسٹی کو “گولیدھیر غلام خانہ“ کہنے لگے کیونکہ وہاں کے کئی گریجویٹ برطانوی حکومت میں آئی سی ایس آفیسر بن گئے تھے۔ اسی لیے وقت کے مفکروں نے ایک ایسے تعلیمی ادارہ کی ضرورت محسوس کی جہاں کے فارغین تعلیم کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت اور آزادی کا جذبہ بھی اپنے اندر رکھتے ہوں۔ عین اسی وقت گورنر جنرل ہند جارج کرزن نے تقسیم بنگال کا فیصلہ کر لیا جس کا ایک حصہ مشرقی بنگال (جو اب بنگلہ دیش ہے) اور دوسرا حصہ مغربی بنگال اور اوڈیشا پر مشتمل تھا۔ بنگال کے نوجوان سودیشی تحریک میں پیش پیش تھے لہذا یونیوسرٹی کے طلبہ اس میں کثرت سے حصہ لیتے تھے مگر کارلائل نے طلبہ پر کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔ اب بنگال کے پڑھے لکھے طبقہ میں یہ محسوس کیا جانے لگا کہ انگریزی فکر کے اداروں کی جگہ بنگالی اور قومی فکر کے تعلیمی اداروں کا ہونا ناگزیز ہو گیا ہے۔[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ JU information brochure for MSc, BTech Retrieved 25 نومبر 2011
  2. Frances Pritchett۔ "Minute on Education (1835) by Thomas Babington Macaulay"۔ www.columbia.edu۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 ستمبر 2016