جامی حیدرآبادی

اردو زبان کے شاعر اور مصنف

جامی حیدرآبادی یا خورشید احمد حیدرآبادی (پیدائش:15 مئی 1915ء— وفات: 8 مارچ 1972ء) اردو زبان کے شاعر اور مصنف تھے۔ علاوہ ازیں وہ مترجم بھی تھے۔

جامی حیدرآبادی
معلومات شخصیت
پیدائش 15 مئی 1915ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 مارچ 1972ء (57 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو،  فارسی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

جامی 15 مئی 1915ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔جامی کا اصل نام خورشید احمد  تھا۔ اُن کا خاندان حیدرآباد دکن کا علمی گھرانہ شمار ہوتا تھا۔ یہ خاندان پربھنی (مہاراشٹر) میں آباد تھا جہاں سے اُن کے نانا قاضی صدیق احمد تخلیص فہیم، نقل مکانی کرکے حیدرآباد دکن آگئے اور یہاں وکیل سرکار مقرر ہو گئے۔ جامی کے والد مولوی محمد یعقوب بھی عالم دین تھے۔ ابھی جامی کم سن ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے بعد تعلیم و تربیت اپنی والدہ اور نانی کی نگرانی میں پائی۔ عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ بعد میں 1932ء میں جامعہ پنجاب، لاہور سے منشی فاضل کا اِمتحان پاس کر لیا اور کسبِ معاش کے لیے محکمہ آبکاری میں ملازم ہو گئے اور اِس محکمے میں انسپکٹری کے عہدے تک ترقی کی۔ جلد ہی اِس عہدے سے دِل اُچاٹ ہو گیا اور مستعفی ہو گئے۔[1]

شعرگوئی ترمیم

جامی نے بائیس سال کی عمر میں 1937ء میں ہی شعرگوئی شروع کردی تھی۔ شعرگوئی میں فصاحت جنگ جلیل پوری سے مشورہ کرتے رہے۔ اُن کی وفات کے بعد کچھ دِن بعد علی اخترحیدرآبادی اور جوش ملیح آبادی سے بھی اصلاح لیتے رہے۔ وہ شاعری میں علامہ محمد اقبال، فراق گورکھپوری اور فیض احمد فیض سے بہت متاثر ہوئے۔ شعرگوئی میں جلد ہی منازل طے کرتے گئے اور اِس میں غزل اور نظم دونوں میں دلچسپی تھی۔جس قدر اُن کا کلام شائع ہو سکا، اُس سے کہیں زیادہ انھوں نے اپنا کلام دوسروں کی نذر کر دیا۔ جامی کی بدولت حیدرآباد دکن کے کئی افراد صاحب سخن ہوئے۔ جامی صحیح معنوں میں شاعر اور خادمِ ادب تھے، بلکہ احباب کی نجی مجالس تک میں بھی شعر سنانے کے روادار نہیں ہوتے تھے۔ اُدھر پچھلے دو چار سال سے احباب کے اصرار پر کبھی کبھی مشاعرے میں چلے جاتے لیکن اِس طرح جیسے کوئی گناہ سرزد ہو رہا ہو۔ تمام عمر تجرد میں گزار دی اور شادی نہیں کی۔

تصانیف ترمیم

ادارۂ ادبیات اردو کی طرف سے اُن کی متعدد کتب شائع ہوئیں جن میں بچوں کے لیے بعض کتابچے بھی شامل ہیں۔ جامی کے تین ابتدائی شعری مجموعے، شرارے، نشانِ راہ اور منزل کی طرف شائع ہوئے۔ 1958ء میں انھوں نے رنگِ سخن تبدیل کر لیا اور اِس تبدیلیٔ رنگِ سخن کے بعد دو اور شعری مجموعے شائع ہوئے: رخسار (یہ سحریہ انجمن ترقی اُردو، آندھراپردیش سے 1964ء میں شائع ہوا تھا) اور دوسرا مجموعہ کلام برگِ آوارہ (یہ 1968ء میں شائع ہوا تھا)۔ تیسرا دِیوان بھی مرتب کرچکے تھے مگر اِس کے چھپنے کی نوبت نہ آسکی اور خود جامی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جامی کی وفات کے بعد یہ مجموعہ کلام ’’یاد کی خوشبو‘‘ کے عنوان سے حیدرآباد دکن سے 1971ء میں شائع ہوا تھا۔[2]

اواخر عمر اور وفات ترمیم

صحت ہمیشہ بالعموم اچھی رہی۔ اگرچہ آخری ایام میں مختلف عوارض کی شکایت ہونے لگی تھی۔ بدقسمتی سے آٹھ مہینے تک مرضِ سرطان میں مبتلا رہے۔مرضِ سرطان میں حالت تشویشناک ہو گئی تو 18 فروری 1972ء کو بغرضِ علاج دواخانہ عثمانیہ، حیدرآباد دکن میں داخل کروادیے گئے۔ اِسی دواخانے میں 8 مارچ 1972ء کی شام کو انتقال کرگئے۔ ہوش و حواس آخری دم تک درسست رہے اور وقتِ اِنتقال سے چند منٹ قبل بھی بات چیت کرتے رہے۔ میت کو اُن کے محلہ سلطانپورہ میں منتقل کر دیا گیا اور اگلے روز 9 مارچ 1972ء کو بعد نمازِ عصر جنازہ اُٹھایا گیا اور احاطہ چیونٹی شاہ کے قبرستان، عثمانپورہ میں سپردِ خاک ہوئے۔[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 181۔ مطبوعہ دہلی
  2. مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 182۔ مطبوعہ دہلی
  3. مالک رام: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 183۔ مطبوعہ دہلی