جان ملٹن (انگریزی: John Milton؛ 9 دسمبر 1608 – 8 نومبر 1674) انگریزی کا ایک عظیم شاعر جس کے کلام کو نہ صرف انگریزی ادب میں بلکہ عالمی ادب میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی بعض نظمیں دنیا کے اعلیٰ ترین ادب میں شمار کی جاتی ہیں۔ جان ملٹن کی شاعری کی عظمت پر سب کو اتفاق ہے لیکن اس کی نجی زندگی، اس کی سیاست اور اس کے مذہبی خیالات کے بارے میں اس کے نقادوں میں ہمیشہ سخت اختلاف رہا ہے۔

جان ملٹن
(انگریزی میں: John Milton ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 9 دسمبر 1608ء[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 نومبر 1674ء (66 سال)[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لندن[4]،  سینٹ لوکس  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات گردے فیل  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش چالفونت سینٹ جیلیس (1665–)  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت انگلستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عارضہ اندھا پن  ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی کرسٹس
سینٹ پالز اسکول
جیزس کالج  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر[3]،  مصنف[3][5]،  سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان لاطینی زبان،  یونانی زبان،  عبرانی،  انگریزی[6][7]،  فرانسیسی،  ابتدائی جدید ہسپانوی،  آرامی،  سریانی زبان،  اطالوی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں فردوس گمشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
باب ادب

سوانح ترمیم

ملٹن لندن میں پیدا ہوا اور سینٹ پال اسکول اور کرائسٹ کالج، کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔ اس نے انگریزی اور لاطینی دونوں میں شاعری کی۔ شروع میں وہ کلیسیا میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ بعد میں اس نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ اس لیے کہ کلیسیائے انگلستان میں رسم پرستی بہت آ گئی تھی۔ آخر کار اس نے شاعری پر پوری توجہ صرف کرنے کا فیصلہ کیا اور کیمبرج میں تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ اپنے باپ کی دیہی جائداد پر رہنے لگا۔ یہاں اس نے کئی نظمیں لکھیں جن میں اس کی ایک نہایت عظیم نظم لسی ڈس (Lycidas) بھی ہے جو اس نے اپنے دوست ایڈورڈ کنگ کی وفات پر لکھی تھی۔ 1638ء میں اپنی ماں کے انتقال کے بعد وہ اٹلی گیا۔ وہاں سیر کے علاوہ کافی مطالعہ بھی کیا اور اہم شخصیتوں سے ملا۔ ان میں گیلیلیو بھی تھا۔ ایک سال بعد واپس آیا اور بڑے زور شور کے ساتھ کلیسیا میں اصلاح کی مہم میں لگ گیا۔ کئی رسالے لکھے۔ 1643ء میں اس نے میری پاول کے ساتھ شادی کی جو ایک سال بعد اسے چھوڑ کر چلی گئی۔

اسی سال ملٹن نے چار رسالے لکھنے شروع کیے جن پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ ایک میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ نبھ نہ سکے تو طلاق لے لینا اخلاقاً جائز ہے۔ اس نے ایک اور رسالہ پریس کی آزادی پر لکھا جس کا عنوان "آریوپوگٹیکا" (Areopogitica) تھا۔ اسے اس کی نثری تصنیفات میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کی پریس پر لگائی ہوئی سنسر شپ پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ ایک اور رسالہ میں اس نے اس پر بحث کی ہے کہ رعایا اپنے نااہل بادشاہ کو تخت سے ہٹا سکتی ہے اور اسے موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر اسے کرامول نے اپنی حکومت میں سکریٹری یا وزیر بنا لیا اور اسے بیرونی زبانوں کا محکمہ سپرد کیا گیا۔اسی زمانہ میں اس نے برطانوی عوام کی مدافعت میں کئی رسالے لکھے۔

ملٹن کی آنکھیں بچپن سے بہت خراب تھیں جب اتنا سرکاری کام اس کے سر پر آ پڑا تو آنکھیں بالکل جواب دے گئیں اور وہ بالکل اندھا ہو گیا اور اپنے سکریٹری کی مدد سے کام چلانے لگا۔

1663ء میں ملٹن نے ایلزبیتھ من شل سے شادی کر لی۔ وہ آخر تک دولت مشترکہ کی حمایت کرتا رہا اور جب شاہیت دوبارہ قائم (1660ء) ہو گئی تو وہ کچھ عرصہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ اس کی بعض کتابیں جلا دی گئیں۔ عام معافی میں اسے بھی معاف کر دیا گیا اور اس کے بعد سے وہ خاموش زندگی گزارنے لگا۔

وہ ایک زمانہ سے ایک شاہکار نظم لکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اب ایک طویل نظم بلینک ورس میں لکھی جو 1667ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بارہ جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا نام اس نے "فردوسِ گم شدہ" (Paradise Lost) رکھا۔ ہم عصروں نے بے حد تعریف کی اور اس کے بعد سے یہ عظیم رزمیہ نظموں میں شمار ہونے لگی۔ اس میں آدم اور حوا کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ جب وہ باغ عدن میں تھے۔ اس کے ذریعہ اس نے اس دنیا میں پھیلی ہوئی برائیوں کی وجہ سمجھائی ہے۔ "فردوسِ بازیافتہ" (Paradise Regained) اس کی ایک اور طویل بلینک ورس نظم ہے جو چار جلدوں میں ہے۔ اس میں اس نے یہ بتایا ہے کہ کس طرح یسوع آدم سے برتر تھے۔ کس طرح شیطان ان کو ترغیب دینے میں ناکام رہا۔ اسی کے ساتھ اس نے یونانی ٹریجڈی کے نمونہ پر ایک منظوم ڈراما بھی لکھا جس کا قصہ انجیل ہی سے لیا گیا تھا۔ ملٹن اگرچہ بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ مسلک کا تھا لیکن بہت ساری چیزوں کے بارے میں اس کے اپنے ذاتی عقائد تھے جو اس نے اپنے ایک رسالہ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یہ رسالہ اس کی زندگی میں شائع نہیں ہوا۔ اس کا سراغ بہت بعد میں لگا اور پھر یہ شائع ہوا۔

اقبال ترمیم

جان ملٹن 1652ء میں بینائی سے محروم ہو گیا۔ اس نے بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔ اس کی وجہ شہرت اس کی اخلاقی نظم ’’پیراڈایز لوسٹ‘‘ ہے۔ علامہ اقبال ملٹن کی شاعری اور نثر جو ذاتی اعتقاد‘ آزادی اور خودارادیت کے لیے جذبہ پیدا کرتی ہے‘ سے متاثر تھے۔ آپ کا ارادہ تھا کہ آپ واقعہ کربلا کو ملٹن کی نظم کی طرح شاعرانہ انداز میں لکھیں گے۔ علامہ اقبال نے ملٹن سے متعلقہ اپنے مختصر خیالات کو اپنی بیاض میں بھی تحریر کیا۔ [8]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ربط : https://d-nb.info/gnd/118582607  — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb119162033 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب پ https://cs.isabart.org/person/81843 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  4. مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Мильтон Джон
  5. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library — عنوان : Library of the World's Best Literature
  6. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb119162033 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  7. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/7141731
  8. (تحریر و تحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)

ماخذ ترمیم

  • "John Milton | Biography, Works, & Facts"۔ بریٹانیکا