جلال الدین جہانیاں جہاں گشت

ولی الله،صوفی

مخدوم جلال الدين حسین المعروف جہانياں جہاں گشت سلسلہ سہروردیہ کی نمایاں ترین شخصیت ہیں۔

مخدوم جہانیاں جہاں گشت
اوچ میں جہانیاں جہاں گشت کا مزار
پیدائشجمعرات 23 رجب 707ھ/ 18 جنوری 1308ء
اوچ، موجودہ بہاولپور، ضلع بہاولپور، پنجاب، پاکستان
وفاتبدھ 10 ذوالحجہ 785ھ/ 3 فروری 1384ء
(76 سال 16 دن شمسی)

اوچ، موجودہ بہاولپور، ضلع بہاولپور، پنجاب، پاکستان
پیشہصوفی

ولادت ترمیم

اُن کی ولادت باسعادت 14 شعبان المعظم 707ھ بمطابق 7 فروری 1308ء بروز جمعرات اوچ میں ہوئی۔ نام نامی ان کے جد امجد کے اسم گرامی پر جلال الدین رکھا گیا لیکن عام طور پر ’’مخدوم جہانیاں جہاں گشت ‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔

علوم ظاہری و باطنی ترمیم

علوم ظاہری کے حصول کے بعد آپ نے راہ سلوک میں قدم رکھا۔ پہلے اپنے والد احمد کبیرسے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ دوسرا خرقہ حضرت شیخ رکن الدین سے پایا۔ ان خرقہ ہائے خلافت کے علاوہ بھی آپ نے بہت سے بزرگوں سے خرقہ حاصل کرنے کا ذکر کیا ہے جن میں شیخ قوام الدینؒ، شیخ قطب الدین منورؒ، شیخ نصیر الدین چراغ دہلی ؒ، شیخ عبد اللہ یافعیؒ، شیخ عبد اللہ مطریؒ، شیخ ابواسحق گازرونی ؒ، شیخ امام الدین ؒ، سید حمید حسنیؒ، شیخ شرف الدین محمود شاہ تستریؒ، سید احمد کبیر رفاعیؒ، شیخ نجم الدین صنعانی ؒ، شیخ نجم الدین کبریؒ، شیخ اوحد الدین حسینی ؒ اور شیخ نور الدین ؒ ؒ شامل ہیں۔ حضرت مخدوم نے سیرو سیاحت بہت فرمائی اور تقریباً تمام ممالک اسلامی میں گھوم پھر کر علمائے عظام اور صوفیائے کرام سے فیوض و برکات حاصل کیے۔ اسی لیے جہاں گشت کے لقب سے مشہور ہوئے۔ انھیں اس تمام سفر میں کم وبیش دس بارہ سال لگے ہوں گے کیونکہ وہ سات سال مکہ معظمہ اور دو سال مدینہ منورہ میں رہے۔ جن شہروں اور علاقوں میں آپ کا جانا ثابت ہے ان میں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، یمن، عدن، دمشق، لبنان، مدائن، شوکارہ، بصرہ، کوفہ، شیراز، تبریز، خراسان، بلخ، نیشاپور، سمرقند، گازرون، احساء، قطیف، بحرین، غزنی، ملتان، بکھر، الور، ٹھٹہ اور دہلی وغیرہ شامل ہیں۔

اس دور کے بادشاہ ترمیم

 
مخدوم جہانیاں مینیاتور، گلشن شاه جهان.

حضرت مخدوم جہانیاں ؒ نے سات بادشاہوں کا دور حکومت دیکھا جن میں علاؤالدین خلجی، شہاب الدین خلجی، قطب الدین مبارک شاہ، ناصر الدین خسرو، غیاث الدین تغلق، محمد بن تغلق اور فیروز شاہ تغلق شامل ہیں۔ محمد تغلق کے عہد میں آپ شیخ الاسلام بھی مقرر ہوئے اور سیوستان کے علاقے میں چالیس خانقاہوں کا نظام آپ کے سپرد کیا گیا۔ البتہ مخدوم جہانیاںؒ جلد ہی شیخ الاسلام کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے اور شیخ رکن الدین ؒ کی خواب میں زیارت اور نصیحت پر عمل کرتے ہوئے حج پر تشریف لے گئے۔ فیروز شاہ تغلق سے البتہ آپ کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ سندھ کے معاملات اور ٹھٹہ کی مہم کے دوران حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ نے فیروز شاہ، جام جونہ اور جام بانبھیہ کے درمیان مصالحانہ کوششوں کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ حضرت مخدوم ہر دوسرے تیسرے سال دہلی تشریف لے کر جاتے اور وہاں خاصے دن قیام فرماتے۔ الدر المنظوم سے ان کے دہلی کے قیام سے متعلق کئی معلومات ہم تک پہنچتی ہیں۔

رشدو ہدایت ترمیم

حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ کی تمام زندگی رشد وہدایت سے عبارت تھی۔ سفر و حضر میں تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ جاری رہتا۔ اوچ کی خانقاہ میں مریدین و طالبین کا کثیر مجمع ہوتا۔ دور دور سے طالبانِ علم و نظر اکتساب فیض کے لیے حاضر ہوتے۔ علما دین، مفتیان شرع اور مشائخ کرام بھی آپ کے تبحر علمی کے پیش نظر مختلف مسائل شریعت و تصوف کا حل آپ سے کراتے۔ مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ پیروی شریعت و سنت کی ہمیشہ تلقین فرماتے۔ خود اتباع سنت میں شدت سے عمل پیرا رہتے۔ فرماتے کہ جو شخص گفتار و کردار و رفتار میں متبع سنت نہیں وہ ولی نہیں ہو سکتا۔ فرماتے تھے کہ سنت کی احتیاط ایسی کرنی چاہیے کہ موت کی حالت میں بھی سنت کی اتباع میں کمی نہ ہو۔

خلفاء و مریدین ترمیم

جوخانقاہ میں رہ کرسلوک کی منازل طے کرتے اور خرقہ خلافت و اجازت حاصل کر کے سلسلہ کی اشاعت میں مشغول ہو جاتے۔ اس طریقہ کار کے توسط سے حضرت مخدوم کے خلفاء اورپھر ان کے فیض یافتگان پنجاب، سندھ، یو۔ پی، بہار، بنگال، گجرات، کاٹھیا واڑ، دکن، مدراس وغیرہ میں پھیل گئے۔ علاوہ ازیں اکثر مقامات پر حضرت مخدوم کی اولاد کا سلسلہ بھی پھیلا۔ حضرت مخدوم کسی شخص کے اسلام لانے کے بعد اس کی باحسن وجوہ تربیت فرماتے تھے تاکہ اس شخص کی تبلیغ سے اس کا پورا قبیلہ یا پوری قوم مسلمان ہو جائے۔ آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کرنے والوں میں پنجاب کے بعض اہم قبائل مثلاً نون اور کھرل خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

وفات ترمیم

78 برس کی عمر میں آپ خالق حقیقی سے جا ملے، سال وفات 785ھ/1384ء ہے۔ (10 ذی الحجہ) 3 فروری کے دن، عید قربان چہار شنبہ کی نماز دوگانہ ادا کرنے کے بعد طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور غروب آفتاب کے ساتھ رشد و ہدایت، فلاح و خیر اور علم و فضل کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ کا مزار اوچ میں واقع ہے۔[1]

  1. یادگار سہروردیہ،ابو الفیض قلندر علی سہرردی،صفحہ 206،حسیب خاور سہروردی لاہور