جنسی انقلاب (انگریزی: Sexual revolution)، جسے جنسی آزادی کا دور بھی قرار دیا جاتا ہے، ایک سماجی تحریک تھی جو جنسیت اور بین شخصی تعلقات سے متعلق برتاؤ کے ضوابط کو ریاستہائے متحدہ امریکا میں چیلنج کیا، جس کے بعد یہ وسیع پیمانے پر دنیا بھر 1960ء سے 1980ء کے بیچ پھیل گیا۔[1] جنسی آزادی میں روایتی صنف مخالف یک زوجگی کے ازدواجی تعلقات کے علاوہ کی زیادہ سے زیادہ قبولیت شامل تھی۔[2] مانع حمل ادویہ کا عام ہونا، بر سر عام عریانیت، فحاشی، قبل از شادی جماع، ہم جنس پسندی، مشت زنی جنسیت کی متبادل قسمیں ہیں اور اسقاط حمل کو قانونی بنانے اس کے آگے کا قدم تھا۔ [3][4]

سابقہ جنسی انقلابات ترمیم

مغربی ثقافت کے کئی ادوار کو "پہلا جنسی انقلاب" کہا گیا ہے، جس کی وجہ 1960ء کا انقلاب دوسرے یا مزید بعد کے مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ "جنسی انقلاب" کی اصطلاح بھی 1920ء سے استعمال کی جا رہی ہے۔[5]

جنسی انقلاب پر گفتگو کرتے ہوئے مؤرخین[6] اول و دوم جنسی انقلاب میں فرق کرتے ہیں۔ اولین جنسی انقلاب (1870ء1910ء) کے دوران میں قفقازیوں کے لیے وکٹوریائی اخلاقیات ان کی عالمی قبولیت کھو چکے تھے۔ تاہم اس سے "اجازت دہندہ سماج" کا عروج نہیں ہوا۔ اس دور کی نظیر میں جنسیت کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف قسمیں کا ظاہر ہونا ہے۔

کلاسیکی پروفیسر کائیل ہارپر "پہلے جنسی انقلاب" کے محاورے کو قدیم روم میں جنسیت کی نوعیتوں کے مسیحیت کی جانب سے ہٹائے جاتے کو کہتے ہیں جب اس مذہب کو روم کی سلطنت اپنا چکی تھی۔ رومیوں نے عصمت فروشی، دوجنسیت پرستی اور امرد پرستی کو قبول کر لیا تھا اور انھیں قانونًا درست قرار دیا۔ مردوں کی بے راہ روی ایک معمول تھی اور صحت مندی سمجھی جاتی تھی جب تک کہ مردانگی بر قرار رکھی جائے اور جس میں دخول پانے والے ساتھی موجود ہوں۔ اس کے بر عکس نسوانی عرت و آبرو معزز خواتین کے لیے ضروری تھی، تاکہ خاندان کا نسب ایک گونہ ہو۔ آزادانہ رویوں پر بعد میں مسیحیانہ رکاوٹیں لگائی گئی جو ہم جنس پسندانہ افعال اور شادی کے علاوہ کسی بھی جماع پر مرکوز تھے (جس میں غلاموں اور فاحشاؤں کے زمرے شامل تھے)۔[7]

تاریخ کے پروفیسر فرامرز دابھوئی والا با شعوری کے دور کو مملکت متحدہ میں تبدیلی کا اہم دور قرار دیتے ہیں۔ [8] اس دور میں آزادیت کو بہت ترقی دی گئی اور مقبول بنایا گیا۔ شہروں کے لیے نقل مقام کرنا جماع کے نئے مواقع فراہم کرنے لگا اور اس سے ضوابط کے دیہی علاقوں کے علاوہ شہروں میں نافذ کرنا مشکل بنانے لگا۔ کیتھولک چرچ میں بداعمالی (جسے کچھ پروٹسٹنٹ "بابل کی قحبہ" کہتے ہیں) مذہبی ذمے داریوں کی ساکھ کو آلودہ کرتے گیا اور شہری پولیس طاقتوں کا عروج جرم کو گناہ سے الگ کرنے میں مدد گار ثابت ہوا۔ کل ملا کر شادی کے دائرے سے ہٹ کر جماع کے لیے برداشت کا جذبہ بڑھ گیا، جس میں قحبہ گری، داشتہ اور قبل از شادی جماع ہے۔ ان افعال کو کئی آزادیت پسند قرار دے رہے تھے۔ ازدواجی بے وفائی کسی تعزیراتی جرم جس کے لیے سزائے موت طے ہو کی بجائے شہری معاملہ بن گیا۔ شادی شدہ جوڑوں کے بچوں کا تناسب 1650ء کے ایک فیصد سے بڑھ کر 1800ء میں ایک چوتھائی ہو گیا، جب کہ حاملہ دلہنوں کی تعداد 40 فی صد تھی۔[9] مشت زنی، ہم جنس پسندی اور آبرو ریزی کو عمومًا کم ہی برداشت کیا جاتا تھا۔ عورتوں کو شہوت سے زیادہ غیر فعال ساتھی سمجھا جانے لگا، جن کی پاک دامنی نیک نامی کے لیے ضروری تھی۔[10]

تاریخ کے پروفیسر کیوین ایف وائٹ جیسے تبصرہ نگاروں نے "پہلے جنسی انقلاب" جیسے محاورے کو غُراتے 20ء کے دہے] کے لیے استعمال کیے ہیں۔[11] وکٹوریائی دور کے رویوں کو پہلی جنگ عظیم اور ریاستہائے متحدہ میں نشہ بندی نے کسی طرح سے غیر مستحکم کیا تھا۔ اسی دوران میں خواتین کے حق رائے دہی کی تحریک رائے دہی کے حقوق لانے میں کامیاب رہی، 20ء کی باغیانہ لڑکیوں کی ذیلی تہذیب شادی سے پہلے جماع اور "مانوسیت لانے والی پارٹیوں" کی دل دادہ تھی۔

محرکات ترمیم

 
نوجوان پناما سٹی بیچ میں گیلے ٹی شرٹ مقابلے میں 2004ء کے اسپرنگ بریک کے دوران میں حصہ لیتے ہوئے۔

غیر روایتی برتاؤ کی علامات (مثلًا جنسی امراض، ما ورائے شادی پیدائشیں، کم عمروں کے حمل) 1950ء سے ڈرامائی طور پر بڑھنے لگے۔[12] عورتوں کا جنسیت کی جانب، ہم جنس پسندی، قبل از شادی جماع اور جنسی آزادی کے اظہار کے رجحانات بڑھنے لگے۔[حوالہ درکار]

ویلہیلم ریک اور ایلفریڈ کینسے جیسے ماہرین نفسیات اور سائنس دان ان تبدیلیوں پر اثر انداز ہوئے۔[حوالہ درکار] ان کے علاوہ مزید تبدیلیاں ادب اور فلموں کی عکاسی رہے، جس کے ساتھ اس دور کی سماجی تحریکیں بھی شامل تھی، جس میں مد مقابل ثقاوت تھی، جو نسوانی تحریک تھی اور اس کے ساتھ ہم جنس پسندوں کی تحریک بھی تھی۔ [13] مد مقابل ثقافت انقلابی ثقافتی تبدیلی میں معاون رہی جو جنسی انقلاب کا سماجی تانا بانا تھا۔[13][بہتر ماخذ درکار]

جنسی انقلاب شروع کرنے کا سہرا ان لوگوں کو جاتا ہے جو یہ یقین رکھتے تھے کہ جنسی جذبات کو دبانے کے اثرات مضر ہیں۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جس کے بارے میں پہلے ویلہیلم ریک، ڈی ایچ لارینس، سگمنڈ فرائڈ اور ما ورائے حقیقت پسندی تحریک کی جانب سے پہلے کیا جا چکا ہے۔[حوالہ درکار]

مد مقابل ثقافت جسم اور دماغ کے کھلے پن کی علمبردار تھی اور یہ چاہتی تھی کہ شخصی خود جدید امریکا کی اخلاقی اور قانونی بندشوں سے آزاد ہو، جس کے ساتھ ساتھ 1940–50 کے دہے کے اخلاق سے عمومی دور ہو۔[14] 1960ء کا جنسی انقلاب اس یقین سے آگے بڑھا کہ شہوانیت کو زندگی کے عام حصے کی طرح منایا جانا چاہیے اور خاندان، صنعتیائی گئی سماجی اخلاقیات، مذہب اور ریاست کی جانب سے دبایا نہیں جانا چاہیے۔[15]

1960ء میں مانع حمل گولیوں کا ایجاد کیا جانا خواتین کو ایک آسان اور بھروسے مند حمل روکنے کا ذریعہ فراہم کیا۔ ایک اور امکانی وجہ زچگی سے جڑی سائنس میں وسیع ترقی ہے، جس کی وجہ سے بہت ساری خواتین کی زندگی کو بچایا جا سکا جو دوران میں حمل مر جایا کرتی تھی، جس کی وجہ سے عورتوں کی متوقع زندگی بڑھ گئی۔ تیسری اور اس سے زیادہ بالواسطہ وجہ یہ رہی مغربی دنیا بھر میں 1940ء سے 1950ء کے دوران میں بڑے پیمانے پر بچے پیدا ہوئے — "بچہ افزوں پیڑھی" — جن میں سے کئی نسبتًا آسودہ اور محفوظ حالات میں بڑے ہوئے، جو متوسط طبقے سے آتے تھے۔ انھیں تعلیم اور تفریح کے پہلے بہتر مواقع ملے۔ یہ لوگ اپنی آبادیاتی موجودگی اور سماجی اور تعلیمی پس منظر کی وجہ سے سمجھ میں قبولیت کے جذبے اور غیر رسمی رویوں کے محرک بنے۔

پنسلین کی دریافت کی وجہ سے آتشک کی اموات میں قابل لحاظ کمی دیکھی گئی، جس کی وجہ سے 1950ء کے اواخر میں غیر روایتی جماع میں اضافے کو فروغ ملا۔[12][16]

حوالہ جات ترمیم

  1. Allyn, 2000.
  2. Escoffier, 2003.
  3. جرمین گریئر اور دی فیمیل ایونک
  4. "Abc-Clio"۔ Greenwood.com۔ 2011-07-09 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2011 
  5. The term appeared as early as 1929; the book Is Sex Necessary? by Thurber & White, has a chapter titled The Sexual Revolution: Being a Rather Complete Survey of the Entire Sexual Scene۔
    According to Konstantin Dushenko، the term was in use in Russia in 1925. "(no title)"۔ 04 مئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اکتوبر 2008 
  6. The First Sexual Revolution: The Emergence of Male Heterosexuality in Moderm America. By Kevin White (New York: New York University Press: 1992)
  7. Kyle Harper (جنوری 2018)۔ "The First Sexual Revolution / How Christianity transformed the ancient world" 
  8. Faramerz Dabhoiwala (2012)۔ The Origins of Sex: A History of the First Sexual Revolution۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-989241-9 
  9. Quoted at [1]
  10. Summarized at [2]
  11. Kevin F. White (1992)۔ The First Sexual Revolution: The Emergence of Male Heterosexuality in Modern America۔ New York University Press۔ ISBN 978-0-8147-9258-2 
  12. ^ ا ب Andrew Francis (2013)۔ "The Wages of Sin: How the Discovery of Penicillin Reshaped Modern Sexuality"۔ Archives of Sexual Behavior۔ 42 (1): 5–13۔ PMID 23054260۔ doi:10.1007/s10508-012-0018-4 
  13. ^ ا ب
  14. Kevin Slack, "Liberalism Radicalized: The Sexual Revolution, Multiculturalism, and the Rise of Identity Politics," "Liberalism Radicalized: The Sexual Revolution, Multiculturalism, and the Rise of Identity Politics"۔ 2013-10-02 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2013 
  15. Maurice Isserman (2012)۔ America Divided۔ New York, NY: Oxford University Press۔ صفحہ: 138–140۔ ISBN 978-0-19-976506-5 
  16. "Did Penicillin Kickstart the Sexual Revolution?"۔ 2013-10-05 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2013