جنسی غلامی یا جنسی استحصال (انگریزی: Sexual slavery) ایک قدیم دور سے چلے آ رہا رواج رہا ہے، جس کے تحت ایک یا اس سے زیادہ اشخاص کو یہ اختیار تھا کہ زبر دستی سے یا باہمی رضا مندی سے کسی اور شخص سے، جو بالعموم عورتیں رہی ہیں، جنسی افعال کروائیں۔ اس میں جبری مزدوری بھی شامل رہی ہے، جس میں ایک شخص کا موقف ہمشہ زیریں رہا ہے۔ کئی بار جبری شادی کو بھی اسی ضمن کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جدید نو آمد شدہ شکلوں میں اشخاص کی جنسی بازار کاری بھی شامل ہے، جیسے کہ بچوں کی جنسی بازار کاری۔

جنسی غلامی میں ایک ہی مالک ہی غلامی بھی ممکن ہے؛ رسمی غلامی کو کئی بار سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے جو گھانا، ٹوگو بنین وغیرہ میں دیکھی گئی ہے۔ غیر جنسی مقاصد کے لیے مروجہ غلامی میں بھی کئی بار جبری جنسی غلامی کا عنصر عمومًا دیکھا گیا ہے۔ جبری قحبہ گری بھی جنسی غلامی کی اضافی شکل بتائی گئی ہے۔ قدیم زمانے میں داشتاؤں کا چلن بھی عام رہا ہے۔

جدید عالمی پس منظر ترمیم

اقوام متحدہ کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں انسانوں کی تجارت کے مجرمانہ واقعات میں سے قریب ساٹھ فیصد کا نتیجہ متاثرہ انسانوں کے جنسی استحصال کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسے افراد میں اکثریت مجبور خواتین کی ہوتی ہے۔عالمی ادارے کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں جرائم پیشہ افراد اور گروہ ہر سال جتنے بھی انسانوں کی تجارت یا اسمگلنگ کرتے ہیں، ان میں سے ہر دس میں سے چھ واقعات کا انجام متاثرہ افراد کا جنسی استحصال یا ان سے جبراﹰ کرائی جانے والی جنسی غلامی ہوتی ہے۔[1]

فعالیت پسندی ترمیم

بھارت میں فعالیت پسندی ترمیم

بھارت کی ایک فعالیت پسند خاتون سنیتا کرشنن نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی جس میں اس نے کئی باتیں بتائی۔ وہ اپنی زندگی جنسی غلامی کے شکار بچوں اور عورتوں کے بچاؤ اور باز آباد کاری کے لیے وقف کر چکی ہیں۔ جنسی غلامی، لاکھوں ڈالرز کا پھیلاؤ رکھنے والی یہ بین الاقوامی منڈی۔ اس متاثر کن گفتگو میں سنیتا تین کہانیاں سنارہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خود پر گزرنے والی قیامت بھی بیان کررہی ہیں۔ اس ویڈیو کے ذریعے ان کا مقصد انسانوں کے ساتھ ہونے والے اس بہیمانہ سلوک کی جانب عام آدمی کی توجہ مبذول کروانا ہے اور ایک کوشش ہے کہ معاشرہ کو ان بے آسرا لوگوں کی مدد کے لیے آمادہ کیا جاسکے۔[2]

جنسی غلامی پر پہلی فلم / ویڈیو ترمیم

2017ء میں جنوبی کوریا نے ایسی ویڈیو شائع کی جو اُن کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی فوجیوں کے لیے جنسی غلام کے طور پر رکھی جانے والی جنوبی کوریائی خواتین کی ہے۔ یہ ویڈیو چین میں امریکی فوجیوں نے فلمبند کی اور اسے سیول نیشنل یونیورسٹی میں یو ایس آرکائیوز سے تحقیق کاروں نے تلاش کیا ہے۔ تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم کو جنوبی کوریا کی حکومت کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔[3]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم