20 اکتوبر 1827ء کو عثمانی سلطنت اور برطانیہ، فرانس اور روس کی مشترکہ افواج کے درمیان لڑی جانے والی ایک بحری جنگ جس میں شکست کے ساتھ ہی عثمانی سلطنت کا زوال یقینی ہو گیا۔ یہ جنگ یونان کی جنگ آزادی کے سلسلوں کے اہم ترین معرکوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جنگ خلیج نوارینو کے مغربی ساحلوں پر بحیرۂ آیونین میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں عثمانی سلطنت اور مصر کا بحری بیڑا برطانیہ، فرانس اور روس کے ہاتھوں مکمل تباہی کا شکار ہو گیا۔ یہ تاریخ کی آخری بڑی بحری جنگ تھی جو بادبانی جہازوں کے ذریعے لڑی گئی۔ اس جنگ میں اتحادیوں کی فتح کی سب سے بڑی وجہ ان کے عملے کا بہتر طور پر مسلح اور تربیت یافتہ ہونا تھا جس کے نتیجے میں ایک عظیم فتح ان کا مقدر بنی۔

جنگ نوارینو
بسلسلۂ: جنگ آزادی یونان
ترک روس جنگیں
سلسلہ جنگ آزادی یونان  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمومی معلومات
ملک یونان  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام پیلوس  ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
36°56′09″N 21°41′16″E / 36.935833333333°N 21.687777777778°E / 36.935833333333; 21.687777777778  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
برطانیہ
فرانس
روس
سلطنت عثمانیہ
قائد
ایڈورڈ کوڈرنگٹن
ہنری ڈی رگنی
لوگن ہیڈن
ابراہیم پاشا
امیر طاہر پاشا
محرم بے
کپتان بے
قوت
27 جنگی بحری جہاز (مختلف اقسام کے) 88 جنگی بحری جہاز (مختلف اقسام کے)
نقصانات
181 ہلاک،
480 زخمی
کل: 661
419 ہلاک و زخمی
Map
روسی مصور ولادیمیر کوسوف کی پینٹنگ میں ناوارینو کی جنگ۔
روسی مصور ولادیمیر کوسوف کی پینٹنگ میں ناوارینو کی جنگ۔

پس منظر ترمیم

جنگ نوارینو یونان کی جنگ آزادی میں بہت اہمیت کی حامل تھی۔ جو 1821ء میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف یونانی قوم پرستوں کی جانب سے شروع کی گئی۔ اس وقت یونان پر سلطنت عثمانیہ کے اقتدار کو تین صدیاں گذر چکی تھیں۔ 1827ء میں حکومت کے خلاف بغاوت کا تقریباً خاتمہ ہو چکا تھا جو اس کے طاقتور باجگذار محمد علی پاشا، خدیو مصر، کے صاحبزادے ابراہیم پاشا کی زیر نگرانی فوج نے کچل کر رکھ دی تھی۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کے خلاف ہمیشہ سازشوں میں مصروف مغربی قوتوں نے یونانیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور برطانیہ، فرانس اور روس نے یونان کی آزادی کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کے لیے عثمانیوں کو میدان جنگ میں جا لیا۔ آرتھوڈوکس فرقے کی واحد عظیم قوت ہونے کے باعث روس ہمیشہ یونان اور بلقان کے دیگر ہم فرقہ عیسائیوں کی مدد کا بہانہ بنا کر سلطنت عثمانیہ کے معاملات میں مداخلت کرتا تھا جس کا واحد سبب قسطنطنیہ پر قبضہ کرنا تھا اور جنگ نوارینو میں شکست کو روس نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کی پرانی خواہش پوری کرنے کا موقع سمجھتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور روسی افواج مالدووا اور ولاچیا پر قبضہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہیں اور پے در پے کامیابیوں کے بعد بالآخر سلطان محمود ثانی کو 1829ء میں ایک معاہدے پر دستخط کرنا پڑے جو معاہدۂ ادرنہ کہلاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یونان خود مختار ہو گیا تاہم بدستور سلطنت عثمانیہ کی باجگذاری میں رہا۔ لیکن یونان کی آزادی کا مسئلہ مستقل طور پر 1832ء میں لندن کانفرنس میں حل ہوا۔