حبیب بن مظاہر اسدی (عربی: حبيب بن مظاهر الأسدي) بنو اسد قبیلہ سے صحابی رسول تھے۔ جنھوں نے واقعہ کربلا میں امام حسین کی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ وہ واقعہ کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے ایک تھے۔

حبیب بن مظاہر اسدی
Habib ibn Madhahir
عربی: حبيب بن مظاهر
(عربی:
وجہ شہرترفقا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علی بن ابی طالب
وفاتجمعہ، 10 محرم (مہینہ), 61 ہجری / 10 اکتوبر، 680 (عیسوی تقویم) (عمر 75)
مقام تدفینکربلا، عراق
موت کی وجہواقعہ کربلا
والدمظاہر
مذہباسلام

نام و نسب ترمیم

نام حبیب کنیہ ابو ثور تھا۔ نسب یوں تھا حبیب بن مظاہر بن رئاب بن اشتر۔ آپ ہجرت سے 13 سال پہلے یمن کے قبیلہ بنو اسد میں پیدا ہوئے۔ میں مدینہ آ کر رہنے لگے۔

صحابیت ترمیم

حبیب بن مظاہر اسدی خاندان بنو اسد کے معروف فرد اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور امام علی علیہ السلام، امام حسن و امام حسین علیہم السلام کے وفادار ساتھی تھے۔[1] عسقلانی ان کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ حبیب بن مظاہر بن رئاب بن الاشتر۔۔۔الاسدی کان صحابیاً لہ ادراک وعمر حتی قتل مع الحسینؑ یوم الطف مع ابن عمہ ربیۃ بن خوط بن رئاب مکنی اباثور۔[2]

فضیلت و عظمت ترمیم

معتبر منابع میں ان کے حالات زندگی اور کربلا میں جہاد کا ذکر مفصل ملتا ہے۔ حبیب بن مظاہر حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد خاص اور وفادار صحابی تھے اپنے مولا علیؑ کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کی، بہت سے علوم پر دسترس تھی زہد و تقویٰ کے مالک تھے ان کاشمار پارسایان شب اورشیران روز میں ہوتا ہے ہرشب ختم قرآن کرتے تھے۔[3]

صاحب رجال کشی (اختیار معرفۃ الرجال)، فضیل بن زبیر کے حوالہ سے حضرت حبیب بن مظاہر اورمیثم تمار کے مابین ہونے والے مکالمے کو نقل کرتے ہیں جس میں یہ دونوں حضرات اپنی شہادت سے متعلق پیش آنے والے حالات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے یہ تربیت شدہ شاگردعلم باطن اور علم بلایا و منایا (آئندہ آنے والی مشکلات ومصائب) پر کس قدر تسلط رکھتے تھے۔ [4]

حضرت حبیب بن مظاہر کا شمار راویان حدیث میں بھی ہوتا ہے روایت میں ہے کہ حبیب ایک مرتبہ امام حسینؑ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ حضرات قبل از خلقت آدمؑ کس صورت میں تھے؟ حضرت امام حسینؑ نے فرمایا: ہم نور کی مانند تھے اور عرش الٰہی کے گرد طواف کر رہے تھے اور فرشتوں کو تسبیح و تحمید و تہلیل سکھاتے تھے۔[5]

قیام امام حسین میں کردار ترمیم

حضرت حبیب ان افراد میں شامل تھے۔ جنھوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔[6] پھر جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو سب سے پہلا شخص جس نے حضرت مسلم کی حمایت اور وفاداری کا اعلان کیا عابس بن ابی شبیب شاکری تھے اس کے بعد حبیب بن مظاہر کھڑے ہوئے اور عابس شاکری کی بات کی تائید کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: خدا تم پررحم کرے کہ تونے بہترین انداز میں مختصر الفاظ کے ساتھ اپنے دل کاحال بیان کر دیا خدا کی قسم میں بھی اسی نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہوں جسے عابس نے بیان کیا ہے۔[7]

اس طرح حبیب حضرت مسلم کے بہترین حامی تھے اور مسلم بن عوسجہ کے ساتھ مل کر حضرت مسلم بن عقیل کے لیے لوگوں سے بیعت لیتے تھے[8] لیکن جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد اہل کوفہ کی بے وفائی کی وجہ سے ان کے قبیلہ والوں نے مجبوراً ان دونوں (حبیب اور مسلم بن عوسجہ) کو مخفی کر دیا لیکن جونہی حبیب بن مظاہر کو امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی خبر ملی تو رات کے وقت سے فائدہ اٹھا کرحضرت ؑ سے جاملے حالت یہ تھی کہ دن کو مخفی ہو جاتے اور رات کو سفر کرتے یہاں تک کہ اپنی دلی آرزو کو پا لیا۔[9]

اگرچہ بعض منابع نے ذکر کیا ہے کہ حضرت امام حسینؑ کو جب جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی توآپؑ نے حبیب بن مظاہر کوخط لکھ کر بلایا۔[10]لیکن یہ مطلب معتبر ذرائع کی رو سے ثابت نہیں ہے۔[11]

کربلا پہنچنے کے بعد جب عمر بن سعد کے لشکر میں اضافہ ہوتا دیکھا تو امام ؑ سے اجازت لے کر اپنے قبیلہ بنی اسد کے پاس گئے اور مفصل خطاب کے بعد انھیں امام حسینؑ کی مدد و نصرت کے لیے درخواست کی جس کاخلاصہ ملاحظہ فرمائیے: میں تمھارے لیے بہترین تحفہ لایا ہوں وہ یہ کہ درخواست کرتا ہوں فرزند رسولؐ کی مدد کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔ نواسۂ رسولؐ آج عمر سعد کے بائیس ہزار لشکر کے محاصرہ میں ہے آپ لوگ میرے ہم قبیلہ ہیں میری بات پر توجہ کریں تاکہ دنیا و آخرت کی سعادت تمھیں نصیب ہو سکے خدا کی قسم تم میں سے جوبھی فرزند رسول خداؐ کے قدموں میں جان قربان کرے گا مقام اعلیٰ علیین پر حضرت رسول خداؐ کے ساتھ محشور ہوگا۔[12]حضرت حبیب کی تقریر اتنی موثر تھی کہ بہت سے لوگوں نے اس آواز پرلبیک کہا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کاساتھ دینے کے لیے آمادہ و تیارہوگئے لیکن ارزق بن حرب صیدادی (جو اسی قبیلہ کا ملعون تھا) نے چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ ان افراد پر حملہ کر کے انھیں منتشر کر دیا حبیب نے یہ اطلاع حضرت امامؑ کو پہنچائی جب حضرت امام حسینؑ اپنے خدا سے راز و نیاز کرنے کے لیے عصر تاسوعا (نہم محرم) کو دشمن سے مہلت طلب کی تو اس دوران میں، حبیب نے لشکر عمر سعد کو موعظہ ونصیحت کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! کتنی بری قوم ہو گی کہ جب فردائے قیامت اپنے پیغمبرؐ کے حضور حاضر ہوں گے توایسے حال میں کہ اسی رسولؐ کے نواسہ اور ان کے یار و انصار کے خون سے اس کے ہاتھ آلودہ ہوں گے۔

شہادت کی موت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جب شب عاشور اپنے ساتھ یزید بن حصین سے مزاح کرتے ہیں تو یزید بن حصین نے کہا کہ یہ کیسا وقت ہے مزاح کا؟ جبکہ ہم دشمن کے محاصرے میں ہیں اورہم موت کے منہ میں جانے والے ہیں تو حبیب نے کہا اے دوست اس سے بہتر کون سا خوشی کا وقت ہو گا جبکہ ہم بہت جلد اپنے دشمن کے ہاتھوں شہید ہو کر بہشت میں پہنچنے والے ہیں۔[13]

ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب ہلال بن نافع نے حبیب بن مظاہر کوبتایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا پریشان ہیں کہ میرے بھائی حسینؑ کے صحابی کہیں بے وفائی نہ کرجائیں توآپ تمام اصحاب کو جمع کرکے درخیمہ پر لائے اورحضرت زینب ؑ کی خدمت میں صمیم دل سے اظہار وفاداری کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا دوبارہ عہد کیا تاکہ حضرت زینبؑ کی یہ پریشانی ختم ہو سکے۔[14]

شہادت ترمیم

صبح روز عاشور حضرت امام حسینؑ نے اپنے لشکر کو منظم کیا دائیں طرف موجود لشکر کی کمانڈ زہیربن قین اور بائیں طرف حبیب بن مظاہر جبکہ قلب لشکر کی سربراہی حضرت ابوالفضل العباس ؑ کے سپرد کی اسی اثنا میں دشمن کے سپاہی وارد میدان ہوکر مبارزہ طلب کرتے ہیں تو حبیب مقابلہ کے لیے آمادہ ہوئے لیکن حضرت امام ؑ نے روک لیا اس طرح ظہر عاشور جب امام ؑ نے لشکر عمر بن سعد سے نماز ادا کرنے کی خاطر جنگ بندی کے لیے کہا توایک ملعون نے گستاخی کرتے ہوئے کیا کہ تمھاری نماز قبول نہیں ہوگی(نعوذباللہ)اس وقت حضرت حبیب سے برداشت نہ ہوا اور فوراً یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے: اے حمار(گدھے)!تیرے خیال باطل میں آل پیغمبرؐ کی نماز قبول نہیں؟! اور تمھاری نماز قبول ہے؟!! اس طرح دونوں کامقابلہ ہوا حبیب نے اس ملعون کوزمین پرگرادیا پھر باقاعدہ رجز پڑھتے ہوئے وارد میدان ہوئے شدید جنگ کی دشمن کے کئی افراد کوواصل جہنم کیا لیکن ایک تیمی شخص نے تلوار کاوار کیا جس کی تاب نہ لاکرآپ شہید ہو گئے اس نے آپ کے سرکوجداکرلیا اسی سرکو بعد میں گھوڑے کی گردن میں باندھ کر کوفہ میں پھرایا گیا گویا کوفہ کا نامور مجاہد اہل کوفہ سے یہ کہہ رہا تھا دیکھو یہ سرآل رسولؐ کی خاطر کٹ سکتا ہے لیکن دشمن کے سامنے جھک نہیں سکتا۔[15]السلام علیک یاحبیب بن مظاہرالاسدی۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. رجال، شیخ طوسی ؒ، ص38، 68
  2. الاصابہ، حرف حا (حبیب بن مظاہر )
  3. سفینۃ البحار، ج2، ص26
  4. تفصیلی مکالمہ ملاحظہ ہو۔ رجال کشی ص78
  5. بحارالانوار، مجلسی، ج 40، ص311۔(تسبیح یعنی سبحان اللہ'تحمید یعنی الحمد للہ، اورتہلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا)
  6. تاریخ الطبری، ج5، ص352
  7. تاریخ الطبری، ج5، ص355
  8. ابصارالعین، سماوی، ص78
  9. اعیان الشیعہ، ج2، ص554
  10. اسرار الشہادہ، ص 396
  11. شہدائے کربلا، ص134
  12. الفتوح، ج5، ص159
  13. اخیارالرجال، الکشی، ص79
  14. الدّمعۃ الساکبہ، ج4، ص274
  15. شہدائے کربلا، ص135

سانچے ترمیم