لبنان میں حزب اللہ شیعہ مسلمانوں کی ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم خیال کی جاتی ہے۔ ایران کی پشت پناہی سے انیس سو اسی میں تشکیل پانے والی اس جماعت نے لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلاء کے لیے جدوجہد کی۔


حزب الله
Ḥizbu 'llāh
سیکرٹری جنرلحسن نصر اللہ
تاسیس1985 (رسمی)
صدر دفتربیروت، لبنان
نظریاتاتحاد اسلامیت[1]
سیاسی حیثیتسیاست اسلامیہ
مذہباہل تشیع
پارلمان لبنان
12 / 128
کابینہ لبنان
2 / 30
ویب سائٹ
www.moqawama.org
جنرل سیکٹری حزب اللہ السید مقاوم سیدحسن نصر اللہ

تنظیم کو مئی دوہزار میں اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس عمل کے پس منظر میں جماعت کی عسکری شاخ اسلامی مزاحمت یا اسلامک ریزسسٹینس کا ہاتھ تھا[حوالہ درکار]۔

لبنان پر اسرائیلی قبضے کے بعد علما کے ایک چھوٹے سے گروہ سے ابھرنے والی اس تنظیم کے اوائلی مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور لبنان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء تھا۔

اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لبنان کی کثیر المذہبی ریاست کی جگہ ایرانی طرز کی اسلامی ریاست بنائی جائے مگر بعد میں اسے یہ خیال ترک کرنا پڑا۔

ایران کی طرف سے حزب اللہ کو ایک طویل طرصے تک مالی اور عسکری مدد فراہم کی جاتی رہی ہے[حوالہ درکار]۔ حزب اللہ ماضی میں دباؤ کے لیے غیر ملکی افراد کو اغواء بھی کرتی رہی ہے[حوالہ درکار]۔

لبنان میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور یہ تحریک لبنان میں بسنے والے شیعہ فرقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلاء سے اس تنظیم نے عام لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ اب لبنان کی پارلیمان میں اس جماعت کے امیدواروں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے اس تنظیم نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ جماعت کا اپنا ٹی وی اسٹیشن ’المینار‘ کے نام سے قائم ہے۔

اقوام متحدہ کی قرارداد 1559 کے تحت اس جماعت کی عسکری شاخ نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ قرارداد دو ہزار چار میں منظور کی گئی تھی اور اس میں لبنان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور مسلح گروہوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

لبنان سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ حزب اللہ کا مسلح دھڑا لبنانی فوج میں شامل ہو جائے گا اور سیاسی اور سماجی کاموں کو ترجیح دے جائے گی لیکن سیاسی کامیابی کے حصول کے باوجود حزب اللہ خود کو مزاحمتی تحریک کا نام ہی دیتی ہے اور یہ مزاحمت نہ صرف لبنانیوں بلکہ پورے خطے میں غیر ملکی افواج یا بیرونی قبضے کے خلاف ہے[حوالہ درکار]۔

اسلامی مزاحمت کے نام سے تنظیم کی عسکری شاخ اسرائیل اور لبنان کے مشترکہ سرحدی علاقے میں اب بھی اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے[حوالہ درکار]۔ شیبا فارمز کے علاقے میں سب سے زیادہ تناؤ پایا جاتا ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ شیبا فارمز کا علاقہ لبنان میں شامل ہے لیکن اسرائیل، جسے اقوام متحدہ کی پشت پناہی حاصل ہے، کا کہنا ہے کہ فارمز شامی سرحد کے قریب واقع ہیں اس لیے وہ گولن ہائیٹس کا حصہ ہیں جس پر 1967 سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔ حالانکہ شام خود اس علاقے کو لبنان کا حصہ قرار دے چکا ہے۔

تنظیم کو شام کی مدد بھی حاصل ہے[حوالہ درکار]اور وہ لبنان میں دمشق کے مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہے۔ شام کی حکومت اسرائیل کے ساتھ گولن ہائیٹس کے تنازعے کے پش منظر میں حزب اللہ کو بطور ایک کارڈ کے استعمال کرتی ہے۔

لبنان سے چودہ سو شامی فوجی دستوں کے انخلاء کے لیے شامی حکومت پر دباؤ حزب اللہ کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آیا۔ فروری دوہزار پانچ میں سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد سے لبنان اندرونی سیاسی کشمکش کا شکار ہو گیا۔ رفیق حریری کے قتل کا الزام شام پر لگایا جاتا رہا ہے۔ حکومت مخالف جماعتوں نے حزب اللہ کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے مذاکرات پر زور دیا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لبنان میں سیاسی کشمش کے بعد حزب اللہ محتاط ہے تاہم وہ اب بھی درپردہ شامی حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ وہ ملک میں مغربی مداخلت کے خلاف لبنان کی یک جہتی پر بھی زور دے رہی ہے۔

مارچ میں بیروت میں شام کی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ تاہم اس کے ساتھ حزب اللہ کے سینکڑوں کارکنوں نے بھی لبنانی دار الحکومت کی گلیوں میں شام کے ساتھ تاریخی اور دفاعی تعلعات قائم رکھنے کی حمایت میں مظاہرے کیے جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حزب اللہ کو اب بھی لوگوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

تنظیم کے رہنماؤں کی تقریروں میں واضح طور پر اسرائیل کی تباہی کی بات کی جاتی ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے اور اسرائیل کو وہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

1983 میں بیروت میں حزب اللہ کے کارکنوں کے ایک خودکش بم حملے میں 241 امریکی میرین ہلاک ہو گئے تھے[حوالہ درکار]۔

بیروت میں اسلامی طرز زندگی اپنانے کے لیے حزب اللہ زور دیتی رہی ہے۔ ابتدائی دنوں میں اس کے رہنماؤں نے اسلامی طرز معاشرت اپنانے کے لیے گاؤں دیہاتوں اور ملک کے جنوبی حصوں کی آبادی پر خاص طور پر سختی کی لیکن اس کی اس تحریک کو ملک کے شہری علاقوں میں خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

جون 2006 میں اسرائیل کے دو فوجیوں کے اغوا کے بعد اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ تیس دن سے زیادہ عرصے پر محیط جارحیت میں پورا لبنان راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ اور ہزاروں لوگ شہید ہوئے جبکہ بہت سے بے گھر۔ اس وقت صرف حزب اللہ جیسی چھوٹی جماعت نے اسرائیل کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔ تیس دن سے زیادہ جاری رہنے والی لڑائی۔ میں ایک طرح سے مشرق وسطی کی سب سے بڑی فوجی طاقت کو حزب اللہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 14 اگست 2006 کی صبح کو جنگ بندی کا اعلان ہوا۔

تاہم پارٹی اس بات پر بھی زوردیتی رہی ہے کہ اسلامی اقدار اپنانے کو کہیں لوگ لبنانی معاشرہ میں اسلام نافذ کرنے کی کوشش نہ سمجھ لیں۔

بیرونی مقالات ترمیم

حسن نصر اللہ کون ہیں؟

حزب اللہ: حقیقی قوت کا راز

حوالہ جات ترمیم

  1. Ekaterina Stepanova, Terrorism in Asymmetrical Conflict: Ideological and Structural Aspects آرکائیو شدہ 10 مارچ 2016 بذریعہ وے بیک مشین, Stockholm International Peace Research Institute, Oxford University Press 2008, p. 113