مشہور بابا ولی قندھاری دراصل بابا حسن ابدال تھے۔ وہ نسباً سادات میں سے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی وفات 29-1428ء میں قندھار میں تیمور لنگ (متوفی 1405ء) کے بیٹے بادشاہ شاہ رخ مرزا( متوفی 1447ء) کے دور میں ہوئی تھی۔ قصبہ حسن ابدال کا نام دراصل بابا سید حسن ابدال عرف بابا ولی قندھاری کے نام پر ہے۔ جو 1420ء تک حسن ابدال شہر میں رہے یہیں پر پہاڑی کے اوپر آپ کی مشہور چلہ گاہ ہے(لوگ غلط فہمی سے اس چلہ گاہ کو اپکا مزار سمجھتے ہیں) ۔ پھر قندھار چلے گئے اور وہیں 29-1428ء میں وفات پائی۔ آپ کی کی قبر قندھار(افغانستان) میں دریائے ارغنداب کے کنارے ہے۔ آپ کا شجرہ نسب درج ذیل ہے۔ 1 سید حسن ابدال المعروف بابا ولی قندھاری رح (b.1366 - d.1428) 2 بن سید محمود تارن 3 بن سید اسعد الدین 4 بن سید علی 5 بن سید مودود 6 بن سید عبد العزیز 7 بن سید داؤد 8 بن سید محمود 9 بن سید علاؤ الدین طاہر آب شناس (جد امجد قبیلۂ سادات تارن) ان کے بھائی سید علی النقی الثانی جد سادات رضوی چھولس ہند 10. بن ابو طاہر سید محمد التقی الثانی نیشاپوری 11. بن سید قطب الدین ابو محمد حسن الناصر خراسانی 12. بن سید احمد نقیب القم d.976 13. بن سید محمد الاعرج d.927 14. بن سید کمال الدین احمد 16. بن امامزادہ موسی المبرقع 17. بن امام محمد تقی الجواد علیہ السلام 18. بن امام علی رضا علیہ السلام 19 بن امام موسی کاظم علیہ السلام 20 بن امام جعفر صادق علیہ السلام 21 بن امام محمد باقر علیہ السلام 22 بن امام زین العابدین علیہ السلام 23 بن امام حسین علیہ سلام شہید کربلا 24 بن امام علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم

حسن ابدال
 

انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
تقسیم اعلیٰ ضلع اٹک   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 33°49′10″N 72°41′21″E / 33.819486111111°N 72.689027777778°E / 33.819486111111; 72.689027777778   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلندی
آبادی
کل آبادی
مزید معلومات
فون کوڈ 057  ویکی ڈیٹا پر (P473) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جیو رمز 1177063  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map
  • بابا ولی قندھاری(بابا حسن ابدال)*

}} یہ جی ٹی روڈ پر شاہراہ قراقرم کے شروع پر واقع ہے۔ راولپنڈی سے لگ بھگ 40 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع اس قصبے کی موجودہ آبادی 50،000 سے زیادہ ہے۔ حسن ابدال اپنے خوبصورت تاریخی مقامات اور سکھ مذہب کی ایک اہم عبادت گاہ گردوارہ پنجہ صاحب کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہر سال دنیا کے مختلف حصوں سے ہزاروں سکھ زاٰئرین بیساکھی کے میلہ پر گردوارہ پنجہ صاحب پر حاضر ہو کر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ دوسرے تاریخی مقامات میں مقبرہ لالہ رخ کے نام سے مشہور مغلیہ دور کا ایک مقبرہ اور بابا حسن ابدال کا حجرہ شامل ہیں۔ مقبرہ لالہ رخ کے نام سے مشہور تاریخی مقام چوکور احاطے میں واقع ایک قبر اور مچھلیوں والے تازہ پانی کے ایک چشمے پر مشتمل ہے۔ شہر حسن ابدال ایک پہاڑی کے دامن میں آباد ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس پہاڑی کی سب سے بلند چوٹی پر حسن نیکہ نام کے ایک ولی اللہ کا مقام قیام ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق انہی ولی اللہ کا اصلی نام بابا حسن ابدال ہے اور قصبے کا نام بھی انہی کے نام سے ماخوذ ہے [2]۔

تاریخ ترمیم

یہ قصبہ(جو اب ایک شہر بن چکا ہے) حسن نیکہ عرف ( حسن ابدال ) جو افغان شہنشاہ احمد شاہ ابدالی کے فوج کا ایک سردار حسن گورگ (نورزئی) کے نام سے منسوب ہے مشہور چینی سیاح ھیون تسانگ جس کا اس مقام سے اٹھارویں صدی عیسوی میں گذر ہوا ایلاپاترا نامی ایک مقدس چشمے کا ذکر کرتا ہے جو ٹیکسلا سے 70 لی شمال مغرب میں ،یعنی حسن ابدال کے موجودہ مقام پر واقع تھا [3] - اس قصبے کا ذکر آئن اکبری میں اس حوالے سے آیا ہے کہ شمس الدین نے یہاں اپنے لیے ایک مقبرہ تعمیر کروایا تھا جس میں حکیم ابو فتح دفن ہے۔ کشمیر سے واپسی پر اکبر کے یہاں سے گذرنے کا بھی ذکر ہے [3]۔ ولیٔم فنچ نے اپنے ہندوستان کے سفر کی روداد میں سنہ 1808 اور1821 عیسوی کے حسن ابدال کو ایک خوشگوار قصبہ بیان کیا ہے جس کے قریب سے ایک ندی گذرتی ہے اور جہاں کے شفاف پانی کے چشموں میں تیرتی مچھلیوں کی ناکوں میں سنہری نتھوں کا ذکر ہے۔ پانی اس قدر شفاف تھا کہ چشمے کی تہ میں پڑا سکہ بھی صاف نظر آتا تھا[2]۔ اس جگہ کی تعریف میں اس نے چھوٹی سی پہاڑی کے دامن سے نکلنے والے چشمے کے انتہائی شفاف اور میٹھے پانی کا ذکر کیا ہے[2]۔ مختلف مغل بادشاہوں کے کشمیر کی جانب سفر پر اس جگہ سے ہو کر گذرنے کا ذکر ملتا ہے ۔ تزك جہانگیری میں ہے کہ یہاں دلزاک افغان قبیلہ کی بڑی تعداد آباد تھی جو آنے جانے والے مسافروں کو تنگ کرتے تھے شکایات ملنے پر بادشاہ نے دلزاک افغان قبیلہ کے ہزاروں خاندانوں کو حسن ابدال سے نکال کر مرکزی ہندوستان اور لاہور روانہ کر دیا بعد میں انہی میں سے کچھ خاندان سرائے صالح میں بھی آباد ہوئے تھے

[4] ۔سکھ مذہب کے بانی گرونانک 1521ء میں حسن ابدال پہنچے۔ ان کی جائے قیام پر بعد میں ان کی یاد میں ایک گوردوارہ تعمیر کیا گیا۔ گوردوارے میں پتھرکی ایک چٹان پر ہاتھ کا ایک نشان کندہ ہے جسے باباگورونانک کی ایک کرامت کا نتیجہ بتایا جاتاہے[4]۔

تعلیم ترمیم

شہر میں کئی سرکاری پرائمری اسکول، لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایک ہائی اسکول ،لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ایک اعلیٰ ثانوی اسکول اور خواتین کے لیے ایک ڈگری کالج ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1.    "صفحہ حسن ابدال في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2024ء 
  2. ^ ا ب پ "hasan+abdal"&as_brr=3&hl=de&sig=Z5_20CBS92CyBclJnBAb6JKoT_w#PPA224,M1 ھندوستان کے اولین انگریز سیاح از رام چندر پرشاد (ماخذ انگریزی زبان میں ہے)
  3. ^ ا ب "hasan+abdal"&as_brr=3&hl=de&sig=jcibcMgGHZlxuYwDYR0wWDwJOso#PPA278,M1 ای۔ جے۔ برل کا پہلا اسلامی دائرۃ المعارف 1913۔1936 (ماخذ انگریزی زبان میں ہے)
  4. ^ ا ب "آرکیالوجیائی اور تاریخی مقامات(ماخذ انگریزی زبان میں ہے)"۔ 04 جولا‎ئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جون 2009 
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔