حسین بن منصور حلاج

مشہور مسلمان صوفی

تعارف و تذکرہ:

آپ کے متعلق عجیب و غریب قسم کے اقوال منقول ہیں۔ لیکن آپ بہت ہی نرالی شان کے بزرگ اور اپنی طرز کے یگانہ روزگار تھے۔ حضرت منصور ہمہ اوقات عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے اور میدان توحید و معرفت میں دوسرے اہل خیر کی طرح آپ بھی شریعت و سنت کے متبعین میں سے تھے۔ آپ اٹھارہ سال کی عمر میں تستر تشریف لے گے اور وہاں دو سال تک حضرت عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ کی صبحت سے فیض یاب ہونے کے بعد بصرہ چلے گے۔ پھر وہاں سے دوحرقہ پہنچے جہاں حضرت عمرو بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ سے صبحت سے فیضیاب ہو کر حضرت یعقوب اقطع کی صاحبزادی سے نکاح کر لیا لیکن حضرت عمرو بن عثان مکی کی ناراضی کے باعث حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بغداد پہنچ گے۔ اور وہاں حضرت جنید نے آپ کو خلوت و سکوت کی تعلیم سے مرصع کیا۔ پھر وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد حجاز تشریف لے گے اور ایک سال قیام کرنے کے بعد جماعت صوفیا کے ہمراہ پھر بغداد آ گے وہاں پر حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ سے نہ معلوم کس قسم کا سوال کیا جس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ تو بہت جلد لکڑی کا سر سرخ کرے گا یعنی سولی چڑھا دیا جائے گا۔ حضرت منصور رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ جب مجھے سولی دی جاے گی تو آپ اہل ظاہر کا لباس اختیار کر لیں گے۔

چنانچہ بیان کیا گیا ہے جس وقت علما نے متفقہ طور پر حسین منصور کو قابل گردن زدنی ہونے کا فتویٰ دیا تو خلیفہ وقت نے کہا حضرت جنید بغدادی جب تک فتویٰ پر دستخط نہ کریں گے منصور کو پھانسی نہیں دے سکتا اور جب یہ اطلاع حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچی تو آپ نے مدرسہ جا کر پہلے علما ظاہر کا لباس زیب تن کیا اس کے بعد یہ فتویٰ دیا کہ ہم ظاہر کے اعتبار سے منصور کو سولی پر چڑھانے کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت منصور رحمتہ الله علیہ کے کسی مسلہ کا جواب نہیں دیا تو وہ حضرت جنید سے ملاقات کیے بغیر خفا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ تستر چلے گے اور ایک سال تک وہیں مقیم رہے اور وہاں کے لوگ آپ کے بے حد معتقد ہو گے۔ لیکن آپ اپنی فطرت کے مطابق اہل ظاہر کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے جس کی وجہ سے لوگوں میں آپ کے خلاف نفرت و حسد کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ مختلف ممالک میں مقیم رہ کر آخر میں فارس پہنچے اور اہل فارس کو بلند پایہ تصانیف پیش کی اور اپنے وعظ و نصیحت میں ایسے رموز نہاں کا انکشاف کیا کہ لوگوں نے آپ کو حلاج الاسرار کے خطاب سے نواز دیا۔ پھر بصرہ پہنچ کر دوبارہ صوفیا کا لباس اختیار کر کے مکہ معظمہ کا عزم کیا اور راستے میں بے شمار صوفیا سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ مکہ معظمہ سے واپسی کے بعد ایک سال بصرہ میں قیام کیا اور اہواز ہوتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے اور وہاں سے خراسان و ماوراءالنہر ہوتے ہوئے چین پہنچ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جن ممالک میں پہنچے وہاں کے لوگوں نے آپ کے اوصاف کے مطابق خطابات سے نوازا۔ گھوم پھر کر آپ مکہ معظمہ پہنچ گے۔ اور دو سال قیام کے بعد جب واپسی ہوئی تو آپ میں اس درجہ تغیر پیدا ہو گیا اور آپ کا کلام لوگوں کی فہم سے باہر ہو گیا۔ اور جن ممالک میں آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے جاتے وہاں کے لوگ آپ کو نکال دیتے۔ جس کی وجہ سے آپ نے ایسی ایسی اذیتیں برداشت کیں کے کسی دوسرے صوفی کو ایسی تکالیف کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔

اناالحق

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے اناالحق کا غیر شرعی جملہ نکل گیا لیکن آپ کو کافر کہنے میں اس لیے تردد ہے کہ آپ کا قول حقیقت میں خدا کا قول تھا اور حضرت مصنف شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ جو مشائخ آپ کی بزرگی کے قائل نہیں ہیں اُن کے اقوال صوفیا کی شان کے مطابق نہیں برہنائے حسد انھوں نے آپ کو موردالزام گردانا ہے اس لیے اُن مشائخ کے اقوال کو قابلِ قبول کہنا دانشمندی کے خلاف ہے۔

اکثر صوفیا نے آپ کی بزرگی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ تصوف سے قطعاً ناواقف تھے۔ ہمیشہ شوق و سوز کے عالم میں مستغرق رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف مغلق و مشکل عبارات کا مجموعہ تھیں۔ حتٰی کہ بعض لوگوں نے تو کافر و ساحر تک کا خطاب دے دیا اور بعض کاحیال ہے کہ آپ اہل حلول میں سے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ آپ کا تکیہ اتحاد پر تھا۔

لیکن حضرت مصنف حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توحید کا معمولی سا واقف بھی آپ کو حلول و اتحاد کا علمبردار نہیں کہہ سکتا بلکہ اس قسم کا اعتراض کرنے والا خود ناواقف توحید ہے۔ اور اگر ان چیزوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔

چنانچہ بغداد میں ایک جماعت نے حلول اتحاد کے چکر میں گمراہ ہو کر خود کو حلاجی کہنے سے بھی گریز نہیں کیا حالانکہ انھوں نے صحیح معنوں میں آپ کے کلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس زمرے میں تقلید شرط نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اس مرتبہ پر فائز فرما دے۔ مصنف حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ درخت سے انی انااللہ کی صدا کو تو جائز قرار دیتے ہیں اور اگر یہی جملہ آپ کی زبان سے نکل گیا تو خلاف شرع بتاتے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جس طرح حضرت عمرؓ کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اسی طرح آپ کی زبان سے بھی کلام کیا اور یہی جواب حلول و اتحاد کے واہیات تصورات کو بھی دور کر سکتا ہے۔

حضرت عبد اللہ خفیف رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق حسین بن منصور عالم ربانی ہوئے ہیں اور حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہاں تک فرما دیا کہ مجھ میں اور حسین بن منصور میں صرف اتنا سا فرق ہے کہ اُن کو لوگوں نے دانشور سمجھ کر ہلاک کر دیا اور مجھ کو دیوانہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ بہرحال انہی اقوال کی مطابقت میں حضرت مصنف شیخ فرید الدین عطار فرماتے ہیں کہ اگر حسین بن منصور حقیقت میں مطعون و ملعون ہوتے تو پھر یہ دونوں عظیم بزرگ ان کی شان میں اتنے بہتر الفاظ کیسے استعمال کر سکتے تھے۔ لہذا ان دونوں بزرگوں کے اقوال حضرت حسین بن منصور کے صوفی ہونے کے لیے بہت کافی ہیں۔

عشق اور سولی

جس وقت آپ کو سولی دی جانے والی تھی تو ایک لاکھ افراد کا وہاں اجتماع تھا۔ اور آپ ہر سمت دیکھ کر حق حق اور اناالحق کہہ رہے تھے۔ اس وقت کسی اہل نے پوچھا عشق کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا کہ آج، کل اور پرسوں میں تجھے معلوم ہو جاے گا۔ چنانچہ اسی دن آپ کو پھانسی دی گئی۔ اگلے دن آپ کی نعش کو جلایا گیا اور تیسرے دن آپ کی راکھ کو دریائے دجلہ میں ڈال دیا گیا۔ گویا آپ کے قول کے مطابق عشق کا صحیح مفہوم یہ تھا۔

حلاج کہنے کی وجہ

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو حلاج اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ روئی کے ذخیرے پر سے گذرے اور عجیب انداز میں کچھ اشارہ کیا جس کی وجہ سے وہ روئی خود بخود دھنک گئی۔

دوستی کا مفہوم

ہر رات آپ رحمۃ اللہ علیہ چار سو رکعتیں نماز ادا کیا کرتے تھے اور اس فعل کو اپنے اوپر فرض قرار دے لیا تھا۔ اور جب لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ ایسے بلند مراتب کے بعد آپ اذیتیں کیوں برداشت کرتے ہیں؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ دوستی کا مفہوم یہی ہے کہ مصائب پر صبر کیا جائے اور جو اُس کی راہ میں فنا ہو جاتے ہیں تو راحت و غم کا کوئی احساس باقی نہیں رہتا۔

آپ کی عاجزی

میدان عرفات میں آپ نے کہا کہ اے اللہ! تو سرگرداں لوگوں کو راہ دکھانے والا ہے اور اگر میں واقعی کافر ہوں تو میرے کفر میں اضافہ فرما دے۔ پھر جب سب لوگ رخصت ہو گے تو آپ نے دعا کی کہ اے خدا! میں تجھ کو واحد تصور کرتے ہوئے تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا اور تیرے انعامات پر اپنے عجز کی وجہ سے شکر بھی ادا نہیں کر سکتا لہذا تو میرے بجائے اپنا شکرخود ہی ادا کر لے اس لیے کہ بندوں سے تیرا شکر کسی طرح بھی ادا نہیں ہو سکتا۔

صبر کا مفہوم

فرمایا کہ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھانسی پر لٹکا دیا جائے جب بھی منہ سے اف نہ نکلے، چنانچہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سولی پر چڑھایا گیا تو اف تک نہیں کی۔

آپ کی کرامات

☆ حضرت رشید خرد سمرقندی بیان کیا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ بہت سے لوگ سفر حج میں آپ کے ہمراہ تھے اور کئی روز سے کوئی غذا نصیب نہیں ہوئی تھی چنانچہ جب آپ سے سب نے بھوک کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ طبیعت سری کھانے کو چاہتی ہے تو آپ نے سب کی صف بندی کر کے بیٹھا دیا اور جب اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ لے جاتے تو ایک بھنی ہوئی سری اور دو گرم روٹیاں نکال نکال کر سب کے سامنے رکھتے جاتے۔ اس طرح اُن چار سو افراد نے جو آپ کے ہمراہ تھے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا۔

اور آگے چل کر۔لوگوں نے کہا

☆ ہماری طبعیت خرموں کو چاہتی ہے چنانچہ آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا مجھے زور زور سے ہلاو اور جب لوگوں نے یہ عمل کیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جسم سے اس قدر خرمے جھڑے کے لوگ سیر ہو گے۔

☆ مریدوں کی جماعت نے کسی جنگل میں آپ سے انجیر کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے جیسے ہی فضا میں ہاتھ بلند کیا تو انجیر سے لبریز ایک طباق آپ کے ہاتھ میں آ گیا اور آپ نے پوری جماعت کو کھلا دیا۔

☆ اسی طرح جب مریدوں نے حلوے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے ان کو حلوہ پیش کر دیا تو لوگوں نے جب عرض کیا کہ ایسا حلوہ تو بغداد کے بازاروں میں ملتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ میرے لیے بغداد کا بازار اور جنگل مساوی ہیں۔ سنا گیا ہے اسی دن بغداد کے باب الطاقہ کے بازار میں کسی حلوائی کا حلوے سے بھرا ہوا طباق گم ہو گیا اور جب آپ کی جماعت بغداد پہنچی تو حلوائی نے اپنا طباق شناخت کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھارے پاس سے کہاں سے آیا؟ اور جب لوگوں نے اسے پورا واقعہ بتایا تو وہ حلوائی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت سے متاثر ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گیا۔


ارشادات

☆ فرمایا کہ خدا کی یاد میں دنیا و آخرت کو فراموش کر دینے والا ہی واصل بالله ہوتا ہے۔

☆ فرمایا خدا کے سوا ہر شے سے مستغنی ہو کر عبادت کرنا فقر ہے۔

☆ فرمایا صوفی اپنی ذات میں اس لیے واحد ہوتا ہے کہ نہ تو کسی کو جانتا ہے اور نہ کوئی اس سے واقف ہوتا ہے۔

☆ فرمایا نورِ ایمانی کے ذریعے خدا کی جستجو کرو۔

☆ فرمایا کہ حکمت ایک تیر ہے اور تیر انداز خدا تعالیٰ ہے اور مخلوق اس کا نشانہ۔

☆ فرمایا مومن وہ ہے جو امارات کو معیوب تصور کرتے ہوئے قناعت اختیار کرئے۔

☆ فرمایا کہ سب سے بڑا اخلاق جفائے مخلوق پر صبر کرنا اور اللہ کو پہچانا ہے۔

☆ فرمایا کہ عمل کو کدورت سے پاک رکھنے کا نام اخلاق ہے۔

☆ فرمایا کہ بندوں کی بصیرت، عارفوں کی معرفت، علما کا نور اور گذشتہ نجات پانے والوں کا راستہ ازل سے ابد تک ایک ہی ذات سے وابستہ ہے۔

☆ فرمایا کہ میدان رضا میں یقن کی حیثیت ایک اژدھے جیسی ہے جس طرح جنگل میں ذرے کی حیثیت ہوتی ہے اس طرح پورا عامل اس اژدھے کے منہ میں رہتا ہے۔

☆ فرمایا بندگی کی منازل طے کرنے والا آزاد ہو جاتا ہے۔

☆ فرمایا کہ مرید سایہ توبہ اور مراد سایہ عصمت میں رہتا ہے اور مرید وہ ہے جس کے مکشوفات پر اجتہاد کا غلبہ ہو۔ اور مراد وہ ہے جس کے مکشوفات اجتہاد پر سبقت لے جایں۔

☆ فرمایا کہ انبیا جیسا زہد آج تک کسی کو حاصل نہ ہو سکا۔

☆ فرمایا کہ ذاتِ خداوندی جس پر منکشف ہونا چاہتی ہے تو ادنیٰ سی شے کو قبول کر کے منکشف ہو جاتی ہے ورنہ اعمال صالحہ کو بھی قبول نہیں کرتی۔

☆ فرمایا کہ جب تک مصائب پر صبر نہ کیا جاے عنائت حاصل نہیں ہوتی۔

حوالہ جات

تذکرۃُ الاولیاء

از شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ