حقوقِ نسواں سے مراد وہ حقوق (rights) اور قانونی استحقاق (entitlement) ہیں جن کا مطالبہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں خواتین اور لڑکیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے اور جن کے مطالبہ نے انیسویں صدی کی حقوق نسواں تحریک (women's rights movement) اور بیسویں صدی کی تحریکِ نسائیت (feminist movement) کو بنیاد فراہم کی۔ دنیا کے کئی ممالک میں ان حقوق کو قانونی اور سماجی تحفظ حاصل ہے لیکن بہت سے ممالک میں ان حقوق کو غصب یا نظر انداز کیا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کی اصطلاح میں تمام انسانی حقوق شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر اس موضوع میں وہی حقوق شامل کیے جاتے ہیں جن کے استحقاق کے حوالے سے معاشرہ مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھتا ہے۔ چنانچہ حقوقِ نسواں کی اصطلاح عام طور پر جن حقوق کے لیے استعمال کی جاتی ہے ان میں خواتین کے لیے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں

یونان ترمیم

اگرچہ قدیم یونان میں زیادہ تر خواتین سیاسی حقوق اور سماجی برابری سے محروم تھیں تاہم آرکیک دور (آٹھویں صدی قبل مسیح تا پانچویں صدی قبل مسیح) میں انھیں یک گونہ آزادی بھی حاصل تھی[1]۔ محفوظ ریکارڈز سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈیلفی، گورٹن، تھیسلے، میگارا اور سپارٹا کے قدیم شہروں میں خواتین زمین و جائداد کی ملیکیت کا حق رکھتی تھیں۔[2] تاہم آرکیک دور کے بعد خواتین کا سماجی مقام بہت گر گیا تھا اور بہت سے ایسے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا جو صنفی تفاوت اور استحصال کا باعث بنے۔[1]

کلاسیکی اتھینز میں خواتین کو قانونی شہریت حاصل نہیں تھی۔ ان کی سماجی حیثیت کا تعین مرد (kyrios) کی سربراہی میں ایک گھرانے (oikos) کا حصہ ہونے کی بنیاد پر تھا۔ شادی سے پہلے عورت کا سر پرست باپ یا کوئی مرد رشتہ دار ہوا کرتا تھا۔ شادی کے بعد عورت کا سرپرست (kyrios) شوہر ہوتا تھا۔ خواتین براہ راست قانونی کارروائی نہیں کرسکتی تھیں بلکہ یہ معاملات عورت کے مجاز پر مرد کے زیر نگرانی چلتے تھے۔ ایتھنز کی خواتین کا جائداد رکھنے کا حق محدود تھا اور اسی وجہ سے عورتوں کو مکمل شہری نہیں گردانا جاتا تھا کیونکہ شہریت اور قانونی استحقاق کی تعریف جائداد کے حوالوں سے کی جاتی تھی۔ تاہم خواتین جہیز، تحائف اور وراثت کے ذریعوں سے جائداد کی مالک بن سکتی تھیں اگرچہ عورت کا سرپرست (kyrios) اس جائداد کی خرید و فروخت کا مجاز تھا۔ عورتیں اناج کی ایک مخصوص مقدار سے کم قیمت کے مالی معاہدات کرنے کا حق رکھتی تھیں اور اس لحاظ سے تجارتی معاملات میں ایک محدود حد تک عمل دخل رکھ سکتی تھیں۔ عورتوں کی طرح غلاموں کو بھی مکمل شہریت حاصل نہیں تھی لیکن پھر بھی چند نادر حالات میں وہ آزاد ہو کر مکمل شہریت حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن صنف شہریت کے حصول میں ایک مستقل رکاوٹ تھی اور قدیم اتھینز کی جمہوریہ میں کسی عورت کو کبھی بھی مکمل شہریت حاصل نہیں ہوئی۔

اسلام میں عورتوں کے حقوق ترمیم

اسلام انسانیت کے لیے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقت ور کے زیرنگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ تاریخِ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ قدیم یونانی فکر سے حالیہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر دیا۔ ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کر مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی مسیحی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔ سینٹ جیروم (St. Jerome) نے کہا:

"Woman is the gate of the devil, the path of wickedness, the sting of the serpent, in a word a perilous object."

مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گذرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے womyn کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انھوں نے نوعی امتیاز (Gender Discrimination) سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔ مختلف اَدوار میں حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین میں (1820-1906) ۔Susan B. Anthony کا نام نمایاں ہے جس نے National Woman's Suffrage Association قائم کی۔ اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی، جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے fair hiring paid maternity leave practices اور affordable child care کی منظوری دی گئی۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی۔ Jeanette Rankin of Montana پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہو سکی۔

جب کہ اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اسلام نے مرد کی طرح عورت کوبھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقاء کی اَعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی زندگی میں خواتین کے کردار کا مندرجہ بالا تذکرہ اس کی عملی نظیر پیش کرتا ہے۔

خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کا کنونشن ترمیم

 
خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کا کنونشن میں شرکت
  دستخط اور توثیق
  قبول یا کامیاب
  غیر تسلیم شدہ ریاست, معاہدہ پر عمل
  صرف دستخط
  نا منظور

انسانی حقوق کے آفاقی منشور جو 1948ء میں اپنایا گیا مردوں اور عورتوں کی مساوی حقوق کی بات کی گئی۔ 1979ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کے کنونشن (Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination Against Women) کو منظور کیا گیا۔

مطالعہ حیثیت 2011 بلحاظ ملک ترمیم

نیوز ویک میگزین نے 26 ستمبر 2011ء کے شمارے دنیا بھر کے ممالک میں حقوق نسواں اور معیار زندکی پر ایک مطالعہ شائع کیا۔[3] جس کے عوامل قانونی انصاف، صحت اور صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، اقتصادی مواقع اور سیاسی طاقت کی بنیاد پر تھے۔[4]</ref> According to the study, the best and worst were:[5]

سر فہرست دس مملک
درجہ ملک مجموعی انصاف صحت تعلیم معاشیات سیاست
1   آئس لینڈ
100.0
100.0
90.5
96.7
88.0
92.8
2   سویڈن
99.2
90.8
94.8
95.5
90.3
93.1
3   کینیڈا
96.6
100.0
92.7
92.0
91.0
66.9
4   ڈنمارک
95.3
86.1
94.9
97.6
88.5
78.4
5   فن لینڈ
92.8
80.2
91.4
91.3
86.8
100.0
6   سویٹزرلینڈ
91.9
87.9
94.4
97.3
82.6
74.6
7   ناروے
91.3
79.3
100.0
74.0
93.5
93.9
8   ریاستہائے متحدہ
89.8
82.9
92.8
97.3
83.9
68.6
9   آسٹریلیا
88.2
80.7
93.3
93.9
85.3
65.1
10   نیدرلینڈز
87.7
74.0
95.0
99.0
83.0
68.4
پایان دس ممالک
درجہ ملک مجموعی انصاف صحت تعلیم معاشیات سیاست
165   چاڈ
0.0
20.7
0.0
0.0
70.9
22.2
164   افغانستان
2.0
8.4
2.0
41.1
55.3
16.6
163   یمن
12.1
36.2
44.4
34.1
48.8
0.0
162   جمہوری جمہوریہ کانگو
13.6
6.5
11.4
45.1
67.8
27.2
160   مالی
17.6
22.7
29.9
25.8
64.3
49.8
160   جزائر سلیمان
20.8
0.0
53.6
86.5
46.0
1.9
159   نائجر
21.2
26.5
32.9
47.5
58.6
31.3
158   پاکستان
21.4
49.7
49.6
34.0
50.7
19.3
157   ایتھوپیا
23.7
18.6
27.2
29.9
79.7
37.4
156   سوڈان
26.1
21.1
29.4
70.6
54.5
40.8

مزید پڑھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Don Nardo (2000)۔ Women of Ancient Greece۔ San Diego: Lucent Books۔ صفحہ: 28 
  2. Ute Gerhard (2001)۔ Debating women’s equality: toward a feminist theory of law from a European perspective۔ Rutgers University Press۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-0-8135-2905-9 
  3. Lauren Streib (26 September 2011)۔ "The Best and World Places to be a Woman"۔ Newsweek۔ صفحہ: 30–33 
  4. Lauren Streib۔ "The Best and Worst Places for Women"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2012 
  5. Lauren Streib۔ "The Best and Worst Places for Women"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2012