حملہ اولی 61 ھ میں کربلا کے مقام پر عاشور کے دن امام حسین کے مختصر قافلے پر ہزاروں یزیدی افواج کا نا جوانمردانہ دھاوا حملہ اولی کہلاتا ہے۔


حقیقتًا تاریخ کا یہ یادگار اور حیرت انگیز واقعہ ہے کہ تیس ہزار فوج کے مقابلہ پر بہتر یا زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی سو نفوس ہوں اور وہ بھی تین دن کے بھوکے پیاسے اور اس کے باوجود وہ فوجِ کثیر اس جماعتِ قلیل سے نقصان پر نقصان اور شکست پر شکست اٹھائے اور اس کے بنائے کچھ نہ بنے۔صبح سے دوپہر کے قریب تک کا وقت آجائے اور حسینی جماعت کی صف مثل ایک مضبوط و محکم آہنی دیوار کے سامنے موجود رہے۔اس کے برخلاف افواجِ یزید میں اضطراب و بدنظمی کے آثار نمایاں ہوں اور وہ کسی ایک طریقہ جنگ پر قائم نہ رہ سکیں۔راوی کا بیان ہے کہ اصحابِ حسین علیہ السلام نے سخت جنگ کی اور ان کے سواروں نے جو تعداد میں صرف بتیس (32) تھے لشکرِ یزید پر تابڑ توڑ حملے کیے اور وہ جس صف پر حملہ کرتے تھے اس کو منتشر کردیتے تھے۔


چنانچہ جب عزرہ بن قیس نے جو لشکر یزید کے سواروں کی فوج کا افسر تھا یہ دیکھا تو اس نے عمر بن سعد کے پاس عبد الرحمٰن بن حصین کو یہ پیغام دیکر بھیجا کہ 'آپ دیکھتے ہیں کہ آج صبح سے اس چھوٹی سی جماعت کے ہاتھوں میری فوج کی کیا حالت ہے؟اب آپ پیادوں کی فوج اور تیراندازوں کے دستوں کو بھیجئے کہ وہ مقابلہ کریں' لشکریزید کے لیے کس درجہ شرم کا مقام تھا کہ اس کے سواروں کا افسر ہمت ہار چکا تھا اور کھلے ہوئے الفاظ میں اقرارِ شکست کر لیا۔اس کے بعد پیادوں کی طرف رجوع کیا گیا اور شبث بن ربعی کو پیادہ فوج کا افسر تھا عمر سعد کا یہ تہدیدی پیغام پہنچا کہ تم آگے کیوں نہیں بڑھتے مگر اس نے حقارت آمیز جواب دیا کہ 'افسوس ہے اس مہم کو سر کرنے کے لیے سواروں کی اتنی بڑی فوج ناکافی سمجھی جائے اور میرے ایسے بڑے سردار کو زحمت دی جائے اور پھر تیراندازوں کی بھی ضرورت محسوس ہورہی ہو کیا میرے سوا کوئی اور اس مہم کو سر کرنے کے لیے نہیں ملتا؟یہ سنکر مجبورًا عمر بن سعد نے حصین بن نمیر کو اسی فوج کے ساتھ جو قادسیہ کی سرحد میں ناکہ بندی کی غرض سے تعینات رہ چکی تھی پانچ سو تیراندازوں کے اضافہ کے ساتھ مامور کیا کہ وہ آگے بڑھے اور خیمہ حسینی کے نزدیک جاکر پاس سے ان پر تیروں کا مینہ برسائے۔


فنِ جنگ کے واقف کار اچھی طرح جانتے ہیں کہ تیروں کی زد کے لیے ایک محدود فاصلہ درمیان میں ہونا ضروری ہے۔مقررہ فاصلہ سے زیادہ تیراندازی ایک طرح سے ہوئی فائروں کی حیثیت رکھتی ہے جس سے گزند نہ پہنچنے کا قوی امکان ہوتا ہے مگر تھوڑی مسافت سے تیروں کی ہنگامہ خیز بارش ایک بے پناہ حملہ ہے۔جس سے محفوظ رہنے کے لیے نہ فنونِ جنگ کام دے سکتے ہیں نہ شجاعت و جرات۔ اسی لیے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ بزدلانہ طریقہ جنگ ہے اور شجاعانِ روزگار کے لیے ننگ۔یہ ظاہر ہے کہ اصلی لشکر گاہ دو متخاصم فریقوں کے ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر ہوتے ہیں یقینًا اسی صورت پر کربلا میں بھی تھے۔


دونوں لشکروں کی صف آرائی بھی اس طریقہ پر ہوتی ہے کہ درمیان میں کافی وسیع مصاف باقی رہے اور یہ مسافت بھی کچھ کم نہیں ہوتی ہے۔پہلی مرتبہ کے تیروں کی بارش کا عنوان یہ تھا کہ عمر سعد نے اپنے لشکر ہی سے جس کی صف آرائی ہو چکی تھی تیر چلایا اور اسی کے ساتھ اس کے لشکر والوں نے بھی تیر رھا کیے لہذا ان تیروں سے جماعتِ حسینی کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا اور نہ ہونا چاھیئے تھا سوا اس کے کہ ان کے ذریعہ سے اعلانِ جنگ ہو گیا۔اور عملی طور سے حرب و ضرب شروع ہو گئی۔مگر اس وقت جس طریقہ سے تیراندازی مقصود تھی اس کی نوعیت بالکل مختلف تھی اس لیے کہ اس مرتبہ پورے طور سے جماعتِ حسینی کو زد پر لاکر تیر برسائے جارھے تھے۔ظاہر ہے کہ تیر کی زد سے ڈھل یا نیز و شمشیر کے ذریعہ تحفظ ممکن نہیں ہے۔البتہ تیر کو خالی دیکر اس سے بچا سکتا ہے مگر یہ اسی وقت کارگر ہو سکتا ہے جب اِدھر اُدھر تیروں کی زَد سے خالی جگہ موجود ہو لیکن تصور میں اس منظر کو سامنے لایا جائے کہ صرف سو ڈیڑھ سو نفوس پر مشتمل جماعتِ حسینی صف باندھے ایستادہ ہے اور ان کے مقابلہ میں ہزاروں کی تعداد میں ایک فوج آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور تیر برسانا شروع کرتی ہے تو وہ کتنی دیر زیادہ دور تک پھیلی ہوئی ہوگی اور جب اس کی طرف سے ایک مرتبہ مجموعی طور پر یک جہت اور ہم آہنگ ہوکر ایک نشانہ پر ایک ہی مرکز کو سامنے رکھے ہوئے بہت دور سے نہیں بلکہ قریب سے تیر برسائے جارھے ہیں تو کیا اس میں کوئی شک ہو سکتا ہے کہ ان تیروں نے ایک عظیم سیلاب ایک بڑے طوفان ، ایک تیز آندھی یا لوہے کی ایک چادر کی طرح چپ و راست ہر طرف سے اس مختصر جماعت کو ڈھانپ لیا ہوگا اور اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا باقی نہ ہوگا جو ان تیروں کی زَد میں نہ آتا ہو۔مگر انصارِ حسین علیہ السلام نے اس بے پناہ تیروں کے سیلاب کا یوں مقابلہ کیا کہ تلواریں سونت لیں اور لوھے کی ان چادروں کو اپنے سینوں سے ریلتے ہوئے دشمن کی فوج پر جا پڑے اور اس میں در آکر شمشیرزنی کرنے لگے۔


یہی وہ عظیم الشان حملہ اور گھمسان کی جنگ ہے جو تاریخوں میں "حملہ اولٰی" کے نام سے مذکور ہے اور یہ ظُہر سے ایک دو گھنٹہ قبل کا واقعہ ہے۔


اصحابِ حسین علیہ السلام نے پھر دشمن کو شکست دی اور فوج کو پسپا کیا مگر اس حملہ کا نتیجہ خود جماعتِ حسینی کے لیے بھی بہت دردانگیز ثابت ہوا چنانچہ جس وقت میدان صاف ہوا اور گرد و غبار دور ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ مختصر تعداد اور زیادہ مختصر ہو چکی تھی اس لیے کہ پچاس آدمی انصارِ حسین علیہ السلام میں سے درجہ شہادت پر فائز ہوئے تھے جن میں سے بعض تیروں کا نشانہ بنائے گئے تھے اور بعض جنگِ مغلوبہ میں شہید کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ جتنے گھوڑے اصحابِ حسین علیہ السلام کی سواری میں تھے وہ سب ختم کر دیے گئے تھے اور چند اصحابِ حسین علیہ السلام بھی جو سوار تھے اب پیادہ ہو گئے تھے۔چنانچہ حُر بن یزید ریاحی بھی جن کا گھوڑا اس سے پہلے ہی زخمی ہو چکا تھا اب پیادہ ہو گئے جس کا تذکرہ ان کے دشمن ایوب بن مشرح خیوانی نے اس طرح کیا ہے کہ میں ہی وہ شخص تھا جس نے حُر کے گھوڑے کو پے کیا۔بس میں نے ایک تیر ایسا لگایا کہ فرس تھرا کر زمین پر گرگیا اور حُر شیر کی مانند جست کرکے اس کی پشت سے علاحدہ ہوئے۔تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے اور اس مضمون کا شعر پڑھ رہے تھے کہ


"اگر تم نے میرا گھوڑا پے کرڈالا تو کوئی حرج نہیں

میں ایک شریف انسان کا فرزند ہوں اور شیر سے زیادہ شجاعت کا مالک ہوں"

دوسرے مشاہد کا بیان ہے کہ ان کا سا میں نے دوسرا شمشیرزنی کرنے والا نہیں دیکھا۔

اس حملہ کے ذیل میں جو پچاس انصارِ حسین علیہ السلام شہید ہوئے ان میں نہیں کہا جا سکتا کہ کون پہلے شہید ہوا اور کون بعد میں ، اس لیے ان کے حالات و واقعات حروفِ تہجی کی ترتیب سے درج کیے جاتے ہیں۔

  1. ادھم بن امیہ عبدی بصری : قبیلہ عبد قیس سے بصرہ کے باشندہ تھے۔بصرہ میں ایک خاتون تھیں ماریہ بنت منقذ عبدیہ جو شیعہ علی علیہ السلام اور محبِ اہلبیت نبوت علیھم السلام تھیں اور ان کے مکان پر اکثر شیعان علی علیہ السلام کا اجتماع ہوتا رھتا تھا۔جب امام حسین علیہ السلام نے مکہ معظمہ سے کوفہ کی روانگی کا قصد کیا اور ابن زیاد بصرہ سے کوفہ کی گورنری پر مامور ہوا اور بصرہ کے نئے گورنر کی جانب سے ناکہ بندی کا انتظام ہوا تاکہ کوئی شخص نصرتِ حسین علیہ السلام کے لیے بصرہ سے نہ جانے پائے تو ماریہ عبدیہ کے مکان پر یزید بن ثبیط قیسی نے نصرتِ حسین علیہ السلام کی غرض سے کوفہ کی طرف جانے کا عزم ظاہر کیا۔چونکہ صریحی طور پر انکا یہ مقصد خطرے سے خالی نہ تھا کچھ زیادہ اشخاص ان کے اس عزم سے ہم آہنگ نہ ہوئے پھر بھی یزید بن ثبیط کے دو فرزند اور چار دوسرے افراد وہ تھے جنھوں نے ان کے ساتھ اتحادِ عمل کیا۔چنانچہ ان سب نے اپنی جانوں پر کھیل کر مقام ابطح پر جو مکہ معظمہ ہی کی حدود میں تھا امام (ع) کی ہمراہی اختیار کی۔ان ہی چار اشخاص میں ایک ادہم بن امیہ عبدی بھی تھے جو روزِعاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  2. امیہ بن سعد بن زید طائی :قبیلہ طے کے بہادر ، جنگ آزما اور شہسوار تھے۔حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے اصحاب میں محسوب ہوتے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ جنگِ صفین میں شرکت بھی کی تھی اور کارِ نمایاں انجام دیا تھا۔اس کے بعد ان کا کوفہ میں قیام رھا۔جب امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں پہنچنے کی خبر ہوئی تو گفتگوئے صلح کے دوران میں کسی عنوان سے کوفہ سے کربلا پہنچے اور امام (ع) کی ہمراہی اختیار کی یہاں تک کہ حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔
  3. جابر بن حجاج تیمی : قبیلہ تیم اللہ بن ثعلبہ میں سے عامر بن نہشل تیمی کے آزاد کردہ غلام تھے۔کوفہ کے باشندہ اور شہسوار تھے۔پہلے جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی حمایت کے لیے کمر بستہ ہوئے تھے مگر حالات کے ناسازگار ثابت ہونے کے بعد مثل دوسرے بہت سے افراد کے وہ بھی اپنے قبیلہ میں روپوش ہو گئے تھے۔جب امام (ع) کے کربلا میں وارد ہونے کی اطلاع ہوئی تو وہ عمر سعد کی فوج کے ساتھ کربلا پہنچے اور خفیہ طریقہ پر اس سے علاحدہ ہوکر انصارِ امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو گئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  4. جبلہ بن علی شیبانی : کوفہ کے باشندہ ، بہادر اور شجاع تھے۔جنگِ صفین میں حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے تھے۔حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی نصرت کے لیے کمر بستہ ہوئے تھے مگر حالات کی ناسازگاری کے بعد وہ بھی اپنے قبیلہ میں روپوش ہو گئے اور جب امام حسین علیہ السلام کربلا میں پہنچ چکے تو وہ بھی کسی نہ کسی صورت سے کوفہ سے آکر انصارِ حسین علیہ السلام میں شامل ہوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  5. جنادہ بن کعب بن حارث انصاری خزرجی : امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی میں مکہ معظمہ سے اپنے متعلقین سمیت آئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  6. جوین بن مالک بن قیس بن ثعلبہ تیمی : قبیلہ بنی تیم میں سکونت رکھتے تھے اس لیے اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتے تھے اور جب کوفہ کے تمام قبائل امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بھیجے جا رہے تھے تو وہ بھی قبیلہ بنی تیم کے ساتھ عمر سعد کی فوج میں شامل ہوکر میدانِ کربلا تک پہنچے اور جب امام حسین علیہ السلام کے پیش کردہ شرائطِ صلح نامنظور کر دیے گئے اور جنگ کا ہونا قطعی قرار پاگیا تو وہ اسی قبیلہ کے چند دوسرے افراد کے ساتھ شب کے وقت عمر سعد کی فوج سے جدا ہوکر رفقائے امام (ع) کی جانب آگئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  7. حارث بن امراؤالقیس بن عابس کندی : شجاعانِ روزگار میں سے عابد و زاھد تھے اکثر لڑائیوں میں کارِ نمایاں انجام دے چکے تھے۔ان کے مذہبی احساس اور ثبات و استقلال کا اس واقعہ سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ قلعہ بحبر کا محاصرہ کرنے والوں میں شامل تھے جب مرتدین کو اس قلعہ سے باہر نکال کر قتل کیا جانے لگا تو حارث نے اپنے حقیقی چچا پر حملہ کیا۔اس نے کہا 'میں تو تمھارا چچا ہوں' حارث نے جواب دیا کہ "مگر اللہ میرا پروردگار ہے اور اس کا حکم مقدم ہے"۔ کربلا میں وہ بھی عمر سعد کی فوج میں داخل ہوکر پہنچے تھے لیکن شرائطِ صلح کے نامنظور ہونے کے بعد اس سے علاحدہ ہوکر اصحابِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ہو گئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  8. حارث بن نبہان : ان کے والد نبہان حضرت حمزہ بن عبد المطلب علیہما السلام کے غلام ، بہادر اور شہسوار تھے۔جنگ اُحد میں جناب حمزہ علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی۔اس کے دو برس بعد نبہان نے دنیا سے رحلت کی۔اس سے بعد سے حارث نے جناب امیر علیہ السلام کی خدمت میں رہنا اختیار کیا اور پھر امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں رہے۔جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ہجرت فرمائی تو حارث بھی ہمراہ رہے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  9. حباب بن حارث : ابن شہر آشوب نے حملہ اولٰی کے شہداء میں ان کا بھی نام درج کیا ہے حالات بالکل معلوم نہیں ہوئے۔
  10. حباب بن عامر بن کعب تیمی : قبیلہ تیم اللات بن ثعلبہ میں سے کوفہ کے باشندہ شیعہ علی علیہ السلام تھے اور جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد وہ اپنے قبیلہ میں روپوش ہو گئے۔جب امام حسین علیہ السلام کی کوفہ کی جانب روانگی کی اطلاع ان کو ہوئی تو وہ خفیہ طور پر کوفہ سے باھر نکلے اور راہ میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر ہمراہ رکاب ہوئے یہاں تک کہ روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  11. حبشہ بن قیس نہمی : پورا نام و نسب حبشہ بن قیس بن سلمۃ بن طریف بن ابان بن سلمہ بن حارثہ ہمدانی نہمی تھا۔حافظ ابن حجر کا بیان ہے کہ ان کے دادا سلمہ بن طریف صحابہ پیغمبر (ص) میں سے تھے اور خود حبشہ بن قیس راوی حدیث تھے۔روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  12. حجاج بن زید سعدی تمیمی : قبیلہ بنی سعد بن تیم میں سے بصرہ کے باشندہ تھے۔امام حسین علیہ السلام نے مکہ معظمہ سے روانگی کے موقع پر چند خطوط رؤسائے بصرہ کے نام روانہ فرمائے تھے جن میں سے ایک مسعود بن عمرو ازدی کے نام تھا۔مسعود نے اپنے قبیلہ کے تمام اقوام بنی تمیم ، بنی حنظلہ ، بنی سعد اور بنی عامر کو مجتمع کرکے ایک تقریر کی جس میں ان کو نصرتِ امام حسین علیہ السلام پر آمادہ کرنا چاھا۔جس کے نتیجہ میں ایک جماعت نے نصرتِ امام (ع) کا وعدہ کیا۔مسعود نے ایک خط امام (ع) کے نام تحریر کیا جس میں حضرت کی تشریف آوری عراق پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ میں نے بنی تمیم اور بنی سعد کو تمام تر آپ (ع) کی نصرت پر آمادہ کر لیا ہے اور وہ سب آپ (ع) پر اپنی جان نثار کریں گے۔یہ خط حجاج بن زید سعدی کے ہاتھ روانہ کیا گیا تھا۔چنانچہ وہ کربلا میں آکر امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  13. حلاس بن عمرو ازدی راسبی : اصحابِ حضرت علی علیہ السلام میں سے تھے اور حضرت امیر علیہ السلام کے زمانہ خلافت میں کوفہ میں پولیس کے افسر کی حیثیت رکھتے تھے وہ میدانِ کربلا میں عمر سعد کی فوج کے ساتھ آئے تھے مگر گفتگوئے مصالحت کے ناکام ہونے پر مخفی طریقہ سے شب کے وقت اصحابِ حسین علیہ السلام میں شامل ہو گئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  14. حنظلہ بن عمر شیبانی : ابن شہر آشوب نے ان کا نام بھی حملہ اولٰی کے شہداء میں ذکر کیا ہے۔حالات معلوم نہیں!!
  15. زاہر بن عمرو اسلمی کندی : اصحاب ِرسول (ص) میں سے راوئ حدیث تھے اور بیعتِ رضوان کے شرف سے بہرہ اندوز ہوئے تھے۔صلحِ حدیبیہ کے بعد جنگِ خیبر میں شریکِ جہاد بھی ہوئے تھے۔شجاعت ان کی ممتاز صفت اور نمایاں جوھر تھا اور اھلبیتِ رسول علیھم السلام کی محبت ان کے لیے سرنامہ اعزاز۔جب زیاد بن ابیہ معاویہ کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا اور عمرو بن الحمق الخزاعی نے اس کی مخالفت کا عَلم بلند کیا تھا تو زاھر بھی ان کے ساتھ تھے۔جب معاویہ نے عمرو بن الحمق کی گرفتاری کا حکم بھیجا تو زاھر کے نام بھی وارنٹ جاری ہوا تھا مگر وہ روپوش ہو گئے اور قبضہ میں نہ آسکے۔سنہ 60ھ میں حجِ بیت اللہ الحرام سے شرفیاب ہوئے۔اسی سلسلہ میں امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور وہ اصحابِ حسین علیہ السلام میں شامل ہو گئے۔یہاں تک کہ امام (ع) کی ہمراھی میں کربلا آئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔اصحابِ ائمہ میں سے محمد بن سنان زاہری متوفی سنہ 220ھ جو امام علی الرضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے رواة میں سے تھے انہی کی نسل سے تھے۔
  16. زبیر بن بشر خثعمی : حملہ اولٰی کے شہداء میں ان کا بھی شمار ہے۔حالات معلوم نہیں!!
  17. زہیر بن سلیم بن عمروازدی : شبِ عاشور جب لشکرِ یزید نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا تو وہاں سے نکل کر اصحابِ حسین علیہ السلام کی طرف آگئے اور آپ (ع) کی نصرت کرتے ہوئے حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔
  18. سالم مولٰی عامر بن مسلم العبدی : اپنے مالک کے ساتھ اسی قافلہ میں جو یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ بصرہ سے مقام ابطح میں پہنچا تھا امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔
  19. سلیم : امام حسین علیہ السلام کے باوفا غلام تھے اور کربلا میں نصرتِ امام حسین علیہ السلام کا حق ادا کرتے ہوئے حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔
  20. سوار بن ابی عمیر نہمی : سوار بن منعم بن حابس بن ابی عمیر بن نہم الہمدانی النہمی راویانِ حدیث میں سے تھے۔امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کے بعد گفتگوئے صلح کے دوران میں کربلا پہنچے تھے۔روزِ عاشور حملہ اولٰی میں نصرتِ حسین علیہ السلام میں جنگ کا شرف حاصل کیا یہاں تک کہ زخمی ہوکر گر گئے۔دشمن ان کو گرفتار کرکے عمر سعد کے پاس لے گئے۔اس نے چاہا کہ ان کو قتل کرادے مگر ان کے ہم قبیلہ سپاھی مانع ہوئے اور انھیں بچا کر اپنے ساتھ لے گئے لیکن وہ زخمی اتنے ہو چکے تھے کہ جانبر نہ ہو سکے اور چھ مہینے تک انہی زخموں کی تکالیف میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کیا۔
  21. سیف بن مالک عبدی: قبیلہ عبد قیس میں سے بصرہ کے باشندہ اور ان شیعانِ علی علیہ السلام میں سے تھے جو ماریہ بنت منقذ عبدیہ کے مکان پر مجتمع ہوا کرتے تھے۔یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ نصرتِ امام حسین علیہ السلام کے لیے روانہ ہوئے اور مقام ابطح پر آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  22. شبیب بن عبد اللہ:حارث بن سریع ہمدانی جابری کے غلام ، صحابئ رسول (ص) اور حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ جمل ، صفین اور نہروان تینوں لڑائیوں میں شرکت کا شرف حاصل کیے ہوئے تھے۔کوفہ کے باشندہ تھے اور کربلا میں سیف بن حارث بن سریع اور مالک بن عبد بن سریع دونوں آقازادوں کی معیت میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تھے۔روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔
  23. شبیب بن عبد اللہ نہشلی: طبقہ تابعین میں سے حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب محسوب ہوتے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ تینوں لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے۔پھر امام حسن علیہ السلام اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں اور آپ (ع) کے مخصوصین میں سمجھے جاتے تھے۔جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑا اور سفرِ غربت اختیار کیا تو شبیب بن عبد اللہ وہیں سے آپ (ع) کے ہمراہ رکاب رہے یہاں تک کہ کربلا میں حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔
  24. ضرغامہ بن مالک تغلبی :انھوں نے کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی اور ان کے شہیدہونے کے بعد وہ بھی روپوش ہو گئے۔پھر عمر سعد کی فوج کے ساتھ میدانِ کربلا پہنچے اور پوشیدہ طریقہ پر اصحابِ حسین علیہ السلام کے ساتھ ملحق ہو گئے۔یہاں تک کہ کہ حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
  25. عامر بن مسلم عبدی بصری : بصرہ کے باشندہ، انہی شیعانِ علی علیہ السلام میں سے تھے جو ماریہ بنت منقذ کے مکان پر جمع ہوا کرتے تھے۔یزید بن ثبیط قیسی کے ساتھ وہ بھی نصرتِ امام (ع) کے لیے روانہ ہوئے اور مقامِ ابطح پر آپ (ع) کی خدمت میں پہنچے۔پھر روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ہوئے۔۔

حوالہ جات ترمیم

سانچے ترمیم