خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے رہنے والے اور انصار میں سے تھے۔ جنگ بدر اور جنگ احد میں شریک ہوئے۔مشرکین نے شہید کر دیا تھا۔

خبیب بن عدی
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 625ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

نام خبیب تھا اور قبیلۂ بنو اوس سے تھے،سلسلۂ نسب یہ ہے،خبیب بن عدی بن مالک بن عامر بن مجدعہ بن جحجی بن عوف بن کلفہ بن عوف بن عمروبن عوف بن مالک بن اوس [1]

اسلام ترمیم

حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت سے پہلے مسلمان ہوئے۔ [2]

غزوات ترمیم

غزوہ بدر میں شریک تھے اور مجاہدین کے اسباب کی نگرانی سپرد تھی، اس غزوہ میں انھوں نے حارث بن عامر بن نوفل کو قتل کیا۔[3] میں غزوہ رجیع ہوا، آنحضرت نے عاصم بن ثابت انصاری کو دس آدمیوں پر امیر بناکر جاسوسی کے لیے روانہ فرمایا، عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہذیل کا ایک قبیلہ لحیان رہتا تھا، اس کو خبر ہو گئی،اس کے سو تیر اندازوں نے اس مختصر جماعت کو گھیر لیا ‘7’ آدمی اسی جگہ لڑکر شہید ہو گئے،تین شخص جس میں ایک خبیب بھی تھے زندہ بچے ،یہ تینوں جاں بخشی کے عہد و پیمان پر پہاڑی سے نیچے اترے ،تیر اندازوں نے کمانوں کے تار کھول کر ان کے ہاتھ باندھے،ایک غیرت مند اس بے عزتی کو گوارانہ کرسکا اور مردانہ وار لڑکر جان دی، اب صرف دو شخص باقی رہ گئے، ان کو لے جاکر مکہ کے بازار میں فروخت کیا، اسلام کے اس یوسف کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا، جسے غزوہ بدر میں انھوں نے قتل کیا تھا۔[4] عقبہ بن حارث نے اپنے گھر میں لاکر قید کیا، ہاتھ میں ہتھکڑیاں پہنائیں اور موہب کو نگرانی پر مقرر کیا عقبہ کی بیوی کھانا کھلاتے وقت ہاتھ کھول دیا کرتی تھی۔ کئی مہینہ قید رہے، اشہر حرم گذر گئے تو قتل کی تیاریاں ہوئیں۔[5] خبیب نے موہب سے تین باتوں کی درخواست کی تھی۔

  • 1۔ آب شیریں پلانا۔
  • 2۔ بتوں کا ذبیحہ نہ کھلانا۔
  • 3۔ قتل سے پہلے خبر کر دینا۔

یہ اخیر درخواست عقبہ کی بیوی سے بھی کی تھی، قتل کا ارادہ ہواتو اس نے نے ان کو آگاہ کر دیا تھا، انھوں نے طہارت کے لیے اس سے استرا مانگا، اس نے لاکر دے دیا اس کا بچہ کھیلتا ان کے پاس چلا آیا، انھوں نے اس کو اپنی ران پر بٹھایا،ماں کی نظر پڑی تو دیکھا ننگا استرا ان کے ہاتھ میں ہے اور بچہ ان کے زانو پر ہے، یہ منظر دیکھ کر کانپ اٹھی، خبیب نے فرمایا :کیا تمھارا خیال ہے کہ میں اپنے خون کا اس بچہ سے انتقام لونگا حاشا یہ ہماری شان نہیں۔[6] پھر مزاح میں فرمایا کہ اب اللہ نے تم کو مجھ پر قادر کر دیا،بولی کہ تم سے تو یہ امید نہ تھی، انھوں نے استرا اس کے آگے ڈال دیا اور کہا کہ میں مذاق کر رہا تھا۔ خبیب کی باتوں کا اس پر خاص اثر ہوا، کہتی تھی کہ میں نے خبیب سے بہتر کسی قیدی کو نہ دیکھا، میں نے با رہا ان کے ہاتھ میں انگور کا خوشہ دیکھا، حالانکہ اس زمانہ میں انگور کی فصل بھی نہ تھی،اس کے علاوہ وہ بندھے ہوئے تھے، اس لیے یقینا وہ خدا کا دیا ہوا رزق تھا، جو خزانہ غیب سے ان کو ملتا تھا۔[7][8]

وفات ترمیم

خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل میں مشرکین نے بڑا اہتمام کیا، حرم سے باہر تنعیم میں ایک درخت پر سولی کا پھندا لٹکایا گیا ، آدمی جمع کیے گئے، مرد، عورت بوڑھے بچے،امیر غریب ،غرض ساری خلقت تماشائی تھی، جب لوگ عقبہ کے گھر سے ان کو لینے کے لیے آئے تو فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ، دو رکعت نماز پڑھ لوں[9] زیادہ پڑھوں گا تو کہو گے کہ موت سے گھبرا کر بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے،نماز سے فارغ ہوکر مقتل کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں یہ دعا زبان پر تھی۔

  • اللهم أحصهم عدداً وأقتلهم بدداً ولا تبق منهم أحداً
  • پھر یہ شعر پڑھتے ہوئے ایک بڑے درخت کے نیچے پہنچے۔
  • وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبارك على أوصال شلو ممزع
  • یہ جو کچھ ہو رہا ہے خدا کی محبت میں اگر وہ چاہے تو ان کٹے ٹکڑوں پر برکت نازل کرے گا
  • فلست أبالي حين أقتل مسلماً على أي جنب كان في الله مصرعي
  • اگرمسلمان رہ کر میں ماراجاؤں تو مجھے غم نہیں کہ کسی پہلو پر خدا کی راہ میں میں پچھاڑاجاتا ہوں۔

عقبہ بن حارث اور مبیرہ عبدری نے گلے میں پھنداڈالا ،چند منٹ کے بعد سراقدس دار پر تھا۔[10]آنحضرت کو اس واقعہ کی خبر وحی کے ذریعہ سے ہوئی تو فرمایا اے خبیب! تجھ پر سلام اور عمرو بن امیہ ضمری کو اس شہید وفا کی لاش کا پتہ لگانے کے لیے مکہ بھیجا عمرو رات کو سولی کے پاس ڈرتے ڈرتے گئے ،درخت پر چڑھ کر رسی کاٹی،جسدِ اطہر زمین پر گرا، چاہا کہ اتر کر اٹھالیں ،لیکن یہ جسم زمین کے قابل نہ تھا فرشتوں نے اٹھا کر اس مقام پر پہنچایا،جہاں شہیدان وفا راہ خدا کی روحیں رہتی ہیں! عمرو بن امیہ کو سخت حیرت ہوئی ،بولے کہ کیا انھیں زمین تو نہیں نگل گئی۔ قتل کرتے وقت مشرکین نے قبلہ رخ نہیں رکھا تھا، لیکن جو چہرہ قبلہ کی طرف پھر چکا تھا،وہ کسی دوسری طرف کیونکر پھر سکتا تھا، مشرکین نے بار بار پھیر نے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔[11] خبیب بن عدی نے جو دعا کی تھی،اس کا اثر ایک سال کے اندر ظاہر ہو گیا، جو لوگ ان کے قتل میں شریک تھے،نہایت بے کسی کی حالت میں مارے گئے۔ [12] اس واقعہ کا کفار مکہ مکرمہ پر اتنا گہرا اور زبردست اثر ہوا کہ ابوسفیان جیسے سخت دل اور ظالم انسان نے اپنے کم سن بیٹے معاویہ کو چھاتی سے لگا لیا۔سعید بن عامر جب اس واقعے کو بیان کرتے تھے تو بے ہوش ہو جاتے تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ زمین اسی وقت شق ہو گئی اور ان کی لاش اس میں سما گئی۔ [13][14]

حوالہ جات ترمیم