خسرو اول، جس کو عرب کسریٰ کہتے ہیں، خاندان ساسان کا سب سے نامور بادشاہ گذرا ہے۔ اسے نوشیرواں کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے عہد میں عدل و انصاف کو عالمگیری شہرت حاصل ہوئی۔ نوشیروان عادل کے نام سے عدل اب تک ضرب المثل ہے۔ فتوحات اور سیاسی طاقت کے لحاظ سے بھی اس کے عہد کو اہمیت حاصل ہوئی۔

خسرو اول
𐭧𐭥𐭮𐭫𐭥𐭣𐭩
ساسانی شہنشاہ
نوشیروان عادل
خسرو اول کا سکہ
ستمبر 13, 531 –
31 جنوری 579 (48 سال)
پیشروقباد
جانشینHormizd IV
نسلHormizd IV
Anoshazad
Yazdandar[1]
والدقباد
والدہBawi's sister
پیدائش496
اردستان
وفات31 جنوری 579 (سال 78)
مدائن
مذہبزرتشتیت

فارس کے بادشاہ قباد کا فرزند تھا، 531ء میں تخت نشین ہوا اس نے روم کے بادشاہ کو شکست دی بغداد کو دارالحکومت بنایا۔طویل مدت تک حکومت کے بعد 579ء میں فوت ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ہرمز تخت نشین ہوا۔[2]

تخت نشینی ترمیم

 
تہران کے دربار میں نوشیروان عادل کا مجسمہ۔

طبری کی روایت کے مطابق قباد جب قید سے نکل کر ہنوں Huns کے پاس جا رہا تھا تو راستے میں ایک دہقانی لڑکی سے شادی کی تھی اس نوشیرواں پیدا ہوا تھا۔ نوشیرواں بھائیوں سے چھوتا تھا مگر قباد کا منظور نظر تھا۔ اس لیے قباد نے جانشین بنایا تھا پھر بھی قباد کے دو بیٹوں کاؤس Kaoses اور جام Zames نے تخت کا دعویٰ کیا مگر ان کو ناکامی کا منہ دیکھناپڑا۔ نوشیرواں نے انھیں بلکہ خاندان کے اکثر شہزادوں کو قتل کرادیا تاکہ سلطنت کا اور کوئی دعویٰ دار باقی نہ رہے۔[3]

روم سے چپقلش ترمیم

داخلی خطرات سے نجات پانے کے بعد نوشیرواں نے رومی سلطنت کی طرف توجہ کی اور 533ء؁ میں قیصر روم جسٹین Justinan 1 ایک معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدہ کے تحت رومی حکومت نے ایک بڑی رقم دینے کا وعدہ کیا، جس کے بدلے نوشیرواں نے دربند اور کوہ کاف کے دوسرے قلعوں کی حفاظت کی زمہ داری لی۔ مگر چند سال کے بعد ہی نوشیرواں نے رومیوں سے جنگ چھیڑ دی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ قیصر جسٹینین نے مصلحت کے تحت صلح کی تھی۔ وہ اس وقت افریقہ کی مہم میں الجھاہوا تھا اس لیے ایران سے جنگ نہیں کر سکتا تھا اور صلح کرنے کے بعد اس نے پوری توجہ افریقہ کی مہم کی طرف مرکوز کردی اور چھ سال کے اندر عظیم انشان کامیابی حاصل کی۔ نوشیرواں کو خطرہ پیدا ہوا کہ جسٹینین افریقہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد ایران پر چڑہائی کرے گا۔ اس پیش بندی کے طور پر خود ہی اس نے رومی علاقے پر حملہ کر دیا۔ بہر کیف وہ شام کے صوبوں کو فتح کرتا ہوا وہ رومی علاقے فتح کرتا ہوا انطاکیہ جا پہنچا۔ راستہ کے اکثر شہر اس نے ویران کر دیے اور بے شمار شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا اور ہزروں مکانات کو نذر آتش کر دیا۔ رومی حکومت ہنوز جنگ کے لیے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ اس نے تاوان جنگ اور بھاری خراج کی بھاری رقم پیش کرتے ہوئے صلح کرلی۔ مگر یہ صلح بھی زیادہ دیر پا نہیں ہوئی اور لازیکا Lazica (Cholchis)کے مسلۂ پر جنگ چھڑگئی۔ نوشیرواں اور جسٹینین کے پہلے معاہدہ میں ایک شرط یہ تھی کہ لازیکا کی ریاست جو بحیرہ اسود کے کنارے واقع تھی، رومیوں کے ماتحت رہے گی۔ اس وقت رومی حکومت افریقہ میں الجھی ہوئی تھی، اس لیے ریاست کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکی۔ 545ء؁ میں اس نے وہاں کے حکمران سے خراج طلب کیا اور رومی فوج رکھنی چاہی۔ لازیکا کے حکمرن نے نوشیرواں سے مدد طلب کی۔ اس نے فوراََ لازیکا کی بندرگاہ پتر اPetra موجودہ باطوم پر قبضہ کر لیا اور لازیکا کی ریاست کو ایران میں شامل کر لیا، اس طرح ایرانی سلطنت بحیرہ اسود تک پھیل گئی۔ مگر لازیکا کے باشندے زیادہ تر مسیحی تھے، وہ کسی قیمت پر رومیوں پر ایران کو ترجیع نہیں دے سکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے شورشیں پرپاکردیں اور رومی حکومت سے مدد طلب کی۔ رومیوں نے حامی دین ہونے کی ھثیت سے ان کی مدد کے لیے فوج بھیج دی۔ اس طرح روم و ایران میں جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ 562ء؁ میں ختم ہوئی، آخر میں چند شرائط پر صلح ہو گئی۔ یہ معاہدہ جو پجاس سال کے لیے ہوا تھا، اس میں ایران نے لازیکا سے دستبرداری کا اعلان کیا اور روم نے اس کے عوض تیس ہزار اشرفیاں سالنہ دینے کا وعدہ کیا تھا، نیز ایران نے یقین دلایا تھا کہ وہ مسیحیوں پر طلم نہیں کرے گا۔ مگر یہ صلح بھی دیر تک قائم نہیں رہے سکی۔[4]

یمن پر قبضہ ترمیم

یمن پر حبشہ Abyssinian کی حکومت تھی جس نے قبضہ کر لیا۔ حبشی حاکم ابراہہ کے زمانے میں یہ تسلط مزید مستحکم ہوا۔ مسیحیت کی تبلیغ کے لیے صنعا کے مختلف مقامات پر کلسیے تعمیر ہوئے۔ 475ء؁ میں ابرہہ ایک فوج لے کر نکلا کہ خانہ کعبہ مسمار کر دے، مگر بلا آسمانی نے اسے تباہ کر دیا۔ اس جا رہانہ کاروئیوں سے عربوں کے اندر شدید بے چینی پھیل گئی۔ اسی زمانے میں ایک حمیر Himyarte کا ایک شہزادہ جو یمن کے سابق خاندان سے تعلق رکھتا تھا، ایران میں پناہ گزیں تھا۔ چنانچہ عربوں نے حبشیوں کے خلاف نوشیرواں سے مدد طلب کی۔ اس نے فوراََ عربوں کی حمایت کا اعلان کیا اور ایک بڑی فوج بھیج دی۔ حبشی حکومت مقابلہ نہیں کرسکی اور یمن خالی کرنے پر مجبور ہوئی نوشیرواں نے حمیری شہزادے کو ایرانی مملکت کا حاکم مقرر کر دیا کیا۔ اس طرح یمن میں بھی ایران کا تس570ء؁ میں قائم ہوا۔ مگر اس واقعہ کے تھوڑے عرصہ کے بعد حضور ﷺ کا ظہور 571ء وا اور یمن حلقہ بگوش اسلام ہوا نیز اسے اسلامی مملکت میں شامل کر لیا گیا۔[5]

ترک ترمیم

 
بازنطینی اور ساسانی سرحدوں کو ظاہر کرنے والا خاکہ۔

نوشیرواں کے عہد کا دوسرا اہم واقعہ ترکوں کے متعلق ہے۔ ترک اصولاً منگولی تھے۔ وہاں سے نکل کر کوہ یورال اور کوہ الطائی کے درمیان میں پھیل گئے تھے۔ اس وقت مشرقی ترکوں کا سردار ایل خانIl Khan تھا۔ نوشیرواں نے ترکوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے اور اس کی مدد سے ہنوں پر حملے کیے۔ اس مقابلے میں ہنوں کو شکست ہوئی اور ان کا سردار ماراگیا۔ اس واقع کے بعد ایرانی سرحدیں دریائے جیحوں تک وسیع ہوگئیں اور اس کے بعد نوشیرواں نے خزر قبائل پر فوج کشی کی اور ان کی طاقت کو بھی پارا پارا کر دیا۔ ہنوں کی شکست کے بعد ترکوں کی طاقت میں خطر خوا اضافہ ہوا۔ 567ء؁ میں ترک سردار دیزا بول Dizabul نے نوشیرواں کے دربار میں اپنا ایک سفیر بھیجا اور ایرانی حکومت سے اتحاد کی خواہش کی، مگر نوشیرواں نے یہ درخواست مسترد کردی اور سفیر کو زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ سفیر کو زہر دے کر ہلاک کرنے اور دوستی کو ٹھکرانے کے اسباب صیح معلوم نہیں ہو سکے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکوں نے اس اتحاد کی درخواست سے پہلے ہی ایرانی مملکت پر یورشیں شروع کر دیں تھیں۔ اس لیے نوشیرواں نے اس درخواست کو مکاری پر مجہول کیا۔ اس واقع کے بعد ترکوں نے زورشور سے یلغار شروع کردی، مگر نوشیروانی عہد ایرانی حکومت کے عروج کا عہد تھا۔ اس نے بھی جوابی کارروائی کی اور ترکوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ترکوں نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے رومی حکومت سے اتحاد کی کوشش کی، مگر قیصر جسٹینین اس کے لیے راضی نہیں ہوا۔ مگر چارسال کے بعد 572ء؁ میں ترکوں سے باضابطہ اتحاد کر لیا۔[6]

رومیوں سے آخری جنگ اور وفات ترمیم

یمن کی مہم سرکرنے کے بعد روم سے تیسری جنگ کرنی پڑی۔ اس جنگ کا اہم سبب ترکوں اور رومیوں کا اتحاد بتایا جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ چار سال میں کے اندر کیا سیاسی تبدیلیاں واقع ہوئیں کہ رومی حکومت نے ترکوں سے اتحاد کر کے ایران سے جنگ چھیڑ دی۔ مورخین اس کے صیح اسباب نہیں بتاتے ہیں، مگر صاف ظاہر ہے کہ اس واقع سے ایک سال پہلے یمن کے اندر حبشی حکومت نے ایران سے شکست کھائی اور یمن پر ایرانی تسلط ہو گیا۔ حبشی حکومت رومیوں کے زیر اثر ہونے کے علاوہ ہم مذہب بھی تھی۔ علاوہ ازیں یمن کو تجارتی اور سیاسی اہمیت بھی حاصل تھی۔ اس سیاسی تبدیلی کی وجہ سے رومی حکومت میدان جنگ میں اتر آئی۔ مگر جنگ میں انھیں سخت ہزمیت اٹھانی پڑی۔ جسٹینین ان ناکامیوں کو برداشت نہ کرسکا اور تخت سے دست بردار ہو گیا۔ اس کے جانشین طبرس Tiberus نے نوشیرواں سے صلح کرلی۔ اس واقع کے چند ماہ بعد ایران کا یہ شہرہ آفاق بادشاہ 579ء؁ میں دنیا سے رخصت ہوا۔ نوشیروانی عہد ساسانی دور کا انتہائی عروج کا دور تھا۔ مگر اس دور کے بعد ایرانی حکومت نہایت تیزی سے زوال کی طرف گامزن ہوئی اور کل چوہتر سال میں چودہ بادشاہ تخت نشین ہوئے اور بالاآخر 579ء؁ میں ساسانی بلکہ ایرانی دور حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں ختم ہوا۔[7]

انتظام مملکت ترمیم

نوشیروانی عہد میں مملکت کی ازسر نو تشکیل ہوئی اور سلطنت کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ جس کو ’پاؤگس‘ کہتے تھے۔ ہر پاؤگس میں ایک ’پاؤگس بان‘ کے ماتحت تھا جو اس علاقہ کا حاکم اعلیٰ سمجھا جاتا تھا۔ اس کی حثیت وائسرائے کی تھی۔ ماتحت صوبوں کے احکام کو وہی مقرر کرتا تھا۔ تمام مالی اور انتظامی امور اسی کے متعلق تھے۔ وہ اپنے امور میں خود مختار تھا اور امن و امان قائم رکھنے کے علاوہ سرحدوں کے تحفظ کے لیے فوج بھی رکھتا تھا۔ نوشیروانی عہد میں ایرانی مملکت چار اقلیم حسب ذیل تھے۔ مثلاً یمن میں جب نوشیرواں کا قبضہ ہوا تو وہاں کا نظم و نسق ایک مزبان کے سپرد کیا گیا۔ نوشیروانی دور میں حسب ذیل اقلیم تھے۔

  • (1) شمالی اقلیم۔ باختر۔ اس میں آرمینا اور آذربئجان کے علاقے شامل تھے۔
  • (2) جنوبی اقلیم۔ نیمروز۔ یہ فارس و خوزستان کے علاقوں پر مشتمل تھا۔
  • (3) جنوبی اقلیم۔ خورسان یا خراسان۔ اس میں خراسان و کرامان کے علاقے شامل تھے۔
  • (4) مغربی اقلیم۔ خور دران یا خربُران۔ یہ عیراق کے صوبوں پر مشتمل تھے۔

ان چار علاقوں کے علاوہ کچھ سرحدی علاقے بھی تھے جو ’باگس بان‘ کے زیر حکومت نہ تھے بلکہ ان کا انتظام دوسرے احکام کے سپرد تھا۔ جن کو فارسی میں ’مرزبان‘ کہتے تھے۔مرکزی محکموں کو دیون کہتے تھے، ہر دیوان ایک صاحب دیون کے ماتحت تھا۔ حسب ذیل دیوانوں کا پتہ چلا ہے۔

  • (1) بزرگ فرماندار۔ اس کی حیثیت وزیر اعظم کی تھی۔
  • (2) موبذان موبذہ۔ یہ مذہبی پیشوا تھا۔ عدالتیں اور مذہبی امور اس سے متعلق تھے۔
  • (3) ایران دبیر بذ۔ اس کی حثیت متعمد عمومی کی تھی۔ تمام دبیروں کا تعلق اسی حاکم سے تھا۔
  • (4) ایران سپہبذ۔ یعنی سالار فوج۔[8]

نیم خود مختار ریاستیں ترمیم

مذکورہ اقلیم و مزبانی علاقوں کے علاوہ کچھ شہر اور حصے ایسے تھے جو نیم آزاد فرمانرؤں کے ماتحت تحت تھے اور ان کی حثیت دیسی ریاستوں کی سی تھی۔ ایسی ریاستوں میں آرمینا اور جبرہ کا تذکرہ خاص طور پر ملتا ہے۔ یہ ریاستیں داخلی امور میں کلیتًہ آذاد تھیں اور ایک طہ شدہ رقم بادشاہ کو بطور خراج ادا لرتی تھیں۔ ایسے والیان ریاست کو ’شترتاران‘ یا شہر واران‘ کہتے تھے۔ اگر ان کا تعلق ساسانی خاندان سے ہوتا تھا تو ان کو ’شاہ‘ کا لقب دیا جاتا تھا۔ ساسانی خاندان کے علاوہ سات ریاستیں ایسی تھیں جن کو عزت و عظمت حاصل تھی۔ ان خاندانوں میں چار ایسے تھے جو اپنا سلسلہ اشکانی حکمرانوں سے جوڑتے تھے۔ بقیہ تین بھی پارت کے معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان ہفت خانوادہ کو ’دیس پوران ّ کہتے تھے۔ یہ ملک کے بڑے جاگیر دار تھے۔ ان کی جاگیریں موروثی تھیں اور نسلاً بعد نسل میں منتقل ہوتی رہتی تھیں۔ مگر ان کو املاک بیچنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ان سات خانوادوں کے مختلف القاب تھے اور ان کی جاگیریں مختلف مقامات پر تھیں۔ مثلاً نہاوند میں ’قارن‘ سیستان میں ’سورن‘ رے میں ’اسپندیار‘ گرگان میں ’اساسپہبذ‘ اور پارس میں مہران جاگیردار تھے۔ یہ شہانا کرد فر رہتے تھے اور ان کو بادشاہوں سی عزت حاصل تھی۔ انھیں فوج رکھنے کا حق حاصل تھا اور بوقت ضرورت بادشاہ ان سے فوجیں طلب کر سکتا تھا۔[9]

مالیات ترمیم

نوشیرواں نے اپنے عہد میں مالیات کی اصلاح کی گئی تھی اور زمین کی پیمائش کرانے کے بعد اس پر لگان مقرر کیا تھا۔ سرکاری لگان جس کو ایرانی ’خراک‘ کہتے تھے جو عربی میں خراج بن گیا ہے۔ یہ خراک پیداوار کا 6/1 تا 3/1 حصہ تک وصول کیا جاتا تھا۔ اس کی وصولی میں بڑی سختی کی جاتی تھی اور اس سے رعایا بڑی تنگ تھی۔ اس کے علاوہ قومی تہواروں پر رعایا سے نظرانہ وصول کیا جاتا تھا اس کی حثیت سرکاری محصول کی ہو گئی تھی۔[10] عدالت و قوانین۔ ساسانی عہد میں عدالتی نظام میں کچھ اصلاح ہوئی۔ جیل خانے قائم کیے گئے اور مجرموں کو قید کی سزا دی جانے لگی۔ نوشیروں نے قانونی چارہ جوئی کے لیے مزید سہولتیں بہم ہنچائیں اور مقدمات کی پیشی اور سماعت کے آسان طریقے وضع کیے نیز سزا کو جرمانے سے بدلنے اجازت دی پہلے جرم کے ارتکاب کی صورت میں عام طور پر موت کی سے روکا۔ مگر سخت اور بہمانہ سزاؤں کے اندر کوئی ترمیم نہیں کی۔[11]

مذہب ترمیم

 
خسرو اول ااور وزیر برزگ مہر۔

نوشیرواں دین زرتشت پر کاربند تھا۔ اس کے عہد تک مزدوکیت ملک کے اکثر حصوں تک پھیل گیا تھا، اس نے ملک میں بے چینی پیدا کردی تھی۔ نوشیرواں نے مذہبی رہنماؤں کو خوش کرنے کے خیال سے مزدوک اور اس کے ایک لاکھ پیروں کو قتل کرادیا۔ اس کار خیز کے بدلے اس کے ہم مذہبوں نے اسے عادل یا داد گرJists کا خطاب دیا تھا۔[12] زبان اور علمی کارنامے نوشیر واں عہد میں پہلوی ہی سرکاری زبان تھی اور سکے اور کتبے اسی زبان کے دستاب ہوئے ہیں۔ نوشیرواں نے اپنے عہد میں علم کی ترویج کی طرف خاطر خواہ توجہ دی تھی اور مختلف مقامات پر مدرسے قائم کروائے۔ ان میں جند شاپور کا مدرسہ سب سے بڑا اور اہم تھا۔[13]

دار الحکومت ترمیم

نوشیرانی عہد میں دار الحکومت تیسفون جس کو عربوں نے مدائین کہا ہے۔ یہاں نوشیرواں کے بنائے ہوئے قیصر کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ قیصر دریائے دجلہ کے کنارے تعمیر ہوا تھا اور ’کاخ سفید‘ کہلاتا تھا۔ آج بھی یہ طاق کسریٰ یا ایوان مدائن کہلاتا ہے۔ یہ عمارت بہت وسیع اور بلند تھی اور ایک بسیط میدان کے اندر جو دجلہ تک پہلا ہوا تھا واقع تھی۔ اس میدان کے کنارے ایک ہلال نماء طاق یا محراب تھی جس کی بلندی ارتالیس میٹر تھی اور بہت دور سے نظر آتی تھی۔ اس محراب کے دونوں طرف چار بڑے بڑے کمرے تھے جو ایک دوسرے سے متصل تھے اور ان میں سے ہر ایک کا دروازہ دوسرے کمرے کی طرف کھلتا تھا۔ یہ عمارت اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے بھی بے مثال تھی۔[14]

حواشی ترمیم

  • ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق

حوالہ جات ترمیم

  1. Ṭabarī (1993)۔ The History of al-Tabari Vol. 11: The Challenge to the Empires A.D. 633-635/A.H. 12-13۔ SUNY Press۔ ISBN 978-0-7914-9684-8 
  2. تلمیحات حصہ اول صفحہ 219، اقبال اکیڈمی لاہور پاکستان
  3. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 102 تا 103
  4. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 401 تا 601
  5. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 701
  6. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 106 تا 108
  7. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 108 تا 109
  8. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 124 تا 125
  9. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 125 تا 126
  10. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 127
  11. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 132 تا 133
  12. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 103
  13. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 571 تا 671
  14. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 181 تا 281

بیرونی روابط ترمیم