خط رقاع اسلامی خطاطی کا ایک خط ہے جو دراصل خط رقعہ سے ہی اخذ ہوا ہے۔ اسلامی خطاطی کا یہ خط قدیم ترین تو نہیں مگر خلافت عباسیہ کے عہدِ حکمرانی میں خط رقعہ کی ایجاد کے بعد وجود میں آیا ہے۔ اِسے نہایت آسان ترین خط بھی سمجھا جاتا ہے۔

خط رقاع
خط رقاع

تاریخ ترمیم

خط رقاع خط رقعہ سے اخذ ہوا ہے۔ رقاع رقعہ کی جمع ہے۔ کاغذ کے پرزے یا ٹکڑے کو رقعہ کہتے ہیں۔ اِس خط کو رقاع اِس لیے کہا جاتا ہے کہ آغاز میں یہ کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر لکھا جاتا تھا۔ معمولی ضرورت کی کوئی بات یا معمولی خط بھی اِس ٹکڑے پر لکھا جاتا جن میں معاملات کی عجلت درپیش ہوتی تھی۔ اِس لیے قلم کی روانی و آسانی کے لیے اِس خط کو ترویج ملی۔ خلافت عباسیہ کے زمانے میں اسلامی خطاطی کے جتنے بھی خطوط وجود میں آئے، اُن میں سہل ترین خط دیوانی اور خط رقعہ تھے اور خط رقعہ کو مزید سہل بنانے کے لیے خط رقاع کو ایجاد کیا گیا۔ یہ سرعت نگاری کے لیے بہترین خط ہے کیونکہ اِس میں قلم کی گردش آزادانہ اور سریع السَیر ہوتی ہے۔ یہ خط بڑی حد تک خط ثلث سے اور خط توقیع سے مشابہہ ہے۔

خصوصیات ترمیم

خط رقاع میں قلم کی حرکت چونکہ تیز ہوتی ہے، اِس لیے بعض حروف اور مرکبات نے نئی شکل اختیار کرلی ہے۔ تحریر میں یہ خط کافی خوشنما ہے۔ ترتیب میں ایک خاص فاصلے کا خیال رکھا جانا لازمی ہوتا ہے اور شکلوں کی ساخت میں ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ عجلت و سرعت نگاری کے سبب اِس خط سے اختصار پیدا ہوتا ہے اور اختصار میں بعض حروف لکھنے میں گر جاتے ہیں۔ تحریری ملکہ پیدا ہوجانے کے بعد اِسے باآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔[1] بہرکیف کاتبین کا فرض ہے کہ حتیٰ الامکان صحتِ حروف اور وضاحت کو پیش نظر رکھے تاکہ پڑھنے میں اشتباہ واقع نہ ہو۔ ایک زمانے میں تو یہ خط تمام بلادِ اسلامیہ میں رائج اور مستعمل تھا، بعد ازاں عرب ممالک اور ترکی میں متروک ہو گیا۔ اِسکی جگہ خط اجازہ نے رواج پایا۔ البتہ ایران اور مشرقی ممالک میں یہ خط ابھی تک رائج ہے مگر اِس کا استعمال محدود ہو چکا ہے۔ محلِ استعمال یہ ہے کہ خط توقیع کی طرح کتاب کے آخر میں کتاب کا نام، مصنف کا نام، کاتب کا نام، سنہ کتابت وغیرہ‘ جیسی معلومات لکھنے کے لیے خط رقاع ہی استعمال کیا جاتا ہے۔[2]

نمایاں خصوصیات ترمیم

  • خط رقاع میں حروف چھوٹے اور لطیف قسم کے بنائے جاتے ہیں۔
  • قلم کا قط بھی باریک ہوتا ہے۔
  • خط میں استدارہ اور دَور بہت زیادہ ہے۔
  • اِس خط میں سطح 1/6 دانگ (حصہ) ہوتی ہے۔
  • عمودی حروف میں ترویس بالکل نہیں ہوتی۔ یعنی حروف الف، لام کے سِروں پر چھوٹا شوشہ نہیں بنایا جاتا۔
  • حروف تہجی میں گرہ دار حروف کی گرہ بند رکھی جاتی ہے۔
  • عام قواعد سے ہٹ کر بعض حروف اور بعض مرکبات خط رقاع میں بالکل مخصوص انداز میں لکھے جاتے ہیں۔
  • قلم کی حرکت تیز اور آزادانہ ہوتی ہے تاکہ سرعت نگاری قائم رہے۔[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. محمد سلیم: تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 107- 108۔
  2. اطلس خط: صفحہ 276- 277۔
  3. صبح الاعشیٰ: جلد 3، صفحہ 119۔