خلائی ملبہ

انسانی ایجادات کا ایک گروہ اور نظام شمسی اور زمین کے سیاروں کے گرد مدار میں تیرتے ہوئے مصنوعی سیاروں کی باقیات

خلائی ملبہ (انگریزی میں: Space debris یا space junk) انسان کے ایجاد کردہ آلات اور مصنوعی سیاروں کی وہ باقیات ہے جو نظامِ شمسی کے سیاروں کے مداروں میں گردش کر رہا ہے، اس خلائی ملبہ کا زیادہ تر حصہ نظام شمسی کے سیارے زمین کے گرد گردش کرتا ہے، اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کی خلاء میں ضرورت باقی نہیں رہی جیسے کوئی خراب مصنوعی سیارہ یا خلائی راکٹوں کے بعض حصے وغیرہ، یہ خلائی ملبہ چھوٹے بڑے حصوں میں موجود ہو سکتا ہے جیسے خلائی جہازوں کے پینٹ کے ٹکڑے۔

زمین کے گرد خلائی ملبہ کی کثافت
ایک گراف جس میں خلائی ملبہ کی کثافت زمین سے دوری کے حساب سے واضح کی گئی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر اجسام زمین سے 800 سے 1500 کلومیٹر دوری پر واقع ہیں، یہ مدار مصنوعی سیارچوں کے لیے اہم ہیں

رفتہ رفتہ خلائی ملبہ ناسا جیسے خلائی تحقیق کے اداروں کی توجہ حاصل کرنے لگا جیسے، کیونکہ یہ خلائی ملبہ مصنوعی سیاروں اور خلائی جہازوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خلائی ملبے کے اکثر حصے 8 کلومیٹر فی سیکنڈ (کوئی 28800 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی خطرناک رفتار سے زمین کے گرد گردش کرتے ہیں، اس رفتار میں یہ خلائی ملبہ چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو خلائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں کے ڈھانچوں میں سوراخ کردینے کے لیے کافی ہے بلکہ ان سے خلاء نوردوں کی زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، اس رفتار گردش کرنے والا ٹینس کی بال کے حجم کا کوئی جسم 25 ڈائنامائٹ کے برابر تباہی کی قدرت رکھتا ہے جبکہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس رفتار سے گردش کرنے والا والا مٹر کے دانے کے برابر کے کسی جسم کے ٹکرانے کی قوت 100 کلومیٹر (60 میل) کی رفتار سے چلنے والے 181 کلو گرام وزنی جسم کے برابر ہو سکتی ہے جو یقیناً انتہائی خطرناک ہے۔،[1]. ایک اندازے کے مطابق انسانی اختراعات کا زمین کے مدار میں 5.5 ملین کلو گرام وزنی خلائی ملبہ موجود ہے جن میں تقریباً ایک ملین جسم ایک ملی میٹر سے زیادہ[2] [3] جبکہ 300000 جسم ایک سینٹی میٹر سے زیادہ اور 13000 جسم ٹینس کی بال سے زیادہ بڑے ہیں[2]. ناسا کا خیال ہے کہ اگر خلائی ملبہ میں کمی کی ہدایات پر عمل نہیں کیا گیا تو اگلے 200 سالوں میں زمین کے نچلے مدار میں خلائی ملبہ میں 75٪ تک اضافہ ہوگا۔[4]

خلائی ملبہ کی تاریخ ترمیم

1957ء سے جب خلائی دور شروع ہوا 6000 مصنوعی سیارچوں کو ان کے مدار میں پہنچانے کے لیے 4600 خلائی جہاز چھوڑے گئے[2] ان مصنوعی سیاروں میں شاید سب سے پرانا مصنوعی سیارہ وین گارڈ 1 (Vanguard I) ہے جسے 1958ء میں چھوڑا گیا تھا، اس مصنوعی سیارچے کو سب سے پرانا خلائی ملبہ قرار دیا گیا ہے جو اب بھی زمین کے مدار میں گردش کر رہا ہے[5]. تاہم دیگر خلائی ملبہ کے مقابلے میں ان مصنوعی سیاروں کی کوئی حیثیت نہیں ہے جیسے پینٹ کے ٹکڑے اور ایندھن کے ٹینک وغیرہ، مصنوعی سیاروں میں تصادم بھی خلائی ملبے میں اضافہ کی ایک اور وجہ ہے، 1991ء میں جاری کی گئی ناسا کی ایک رپورٹ میں ڈونلڈ کیسلر Donald Kessler نے مصنوعی سیاروں کے تصادم سے خبردار کیا جہاں ان کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والے ملبے کے آپس میں ٹکرانے سے مزید ملبے کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے[2]. کیسلر کے اندیشے بالکل درست ثابت ہوئے اور اِسی سال 10 فروری 2009ء کو دو مصنوعی سیارے آپس میں ٹکرا گئے جن میں ایک امریکی (جو ایریڈیم سیٹ لائیٹ ایل ایل سی کی ملکیت تھا) جبکہ دوسرا روسی تھا (جاسوسی مقاصد کے لیے) اس تصادم کے نتیجہ میں 500 سے 600 ٹکڑے تشکیل پائے جن میں بعض کا حجم 10 سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں[6] اس حادثہ کے بعد ناسا نے خلائی شٹل Space Shuttle کے ساتھ پیش آنے والے ممکنہ حادثہ پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ہر 318 ویں خلائی سفر کے دوران خلائی شٹل کو ایک خطرناک حادثہ پیش آ سکتا ہے[7] خیال کیا جاتا ہے کہ خلائی ملبہ کے بعض ٹکڑے 10000 سال تک زمین کے مدار میں گردش کرتے رہیں گے۔[8]

11 جنوری 2007 کو چین نے ایک بیلیسٹک میزائیل استعمال کر کے اپنے ایک موسمی سیارہ کو تباہ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا، یہ سیارچہ 865 کلومیٹر کی بلندی پر تھا، میزائیل زیجانگ Xichang اڈے سے چھوڑا گیا تھا، اس میزائیل میں کوئی دھماکا خیز مواد نہیں تھا بلکہ اس نے سیارچہ کو محض ٹکرا کر تباہ کیا تھا، اس کے با وجود اس ٹکراؤ سے 2300 سے 2500 کے قریب ٹکڑے تشکیل پائے (سب سے چھوٹا ٹینس بال کے برابر) اس طرح یہ ٹکراؤ خلائی ملبہ کی تشکیل کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے[2][9]. یہ واقعہ ان تجربات کے علاوہ ہے جو امریکا اور سوویت یونین نے سرد جنگ کے دوران کیے جہاں کوئی 20 سے زائد سیارہ شکن میزائیل چھوڑے گئے، تاہم زیادہ تر تجربات جو 1968ء اور 1986ء کے درمیان ہوئے وہ کم مدار کے سیارچوں کے لیے تھے جن سے پیدا ہونے والا خلائی ملبہ جلد ہی زمین کے کرہ ہوائی سے ٹکرا کر جل گیا جبکہ چینی تجربہ زمین سے 550 کلومیٹر کی اونچائی پر کیا گیا تھا اور اس سے پیدا ہونے والا ملبہ 200 اور 3850 کلومیٹر کے درمیان پھیلا جو زمین کے نچلے مدار پر موجود اکثر سیارچوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے[10][11] جون 2007ء میں ناسا کو پہلی بار اپنے موسمیاتی خلائی جہاز ٹیرا Terra environmental spacecraft کا راستہ بدلنا پڑا تاکہ چینی تجربہ سے پیدا ہونے والے خلائی ملبہ سے ممکنہ ٹکراؤ سے بچا جاسکے[12] اگرچہ چینی تجربہ خلائی ملبے مین اضافے کا ایک بڑا واقعہ ہے تاہم اگر پہلے تجربے سے لے کر اگلے پچاس سالوں تک کیے گئے تجربات کا تخمینہ لگایا جائے تو امریکا اور سوویت یونین خلائی ملبے کی تشکیل کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں[13] اس کا ثبوت وہ رپورٹ ہے جو ناسا نے 2004ء میں جاری کی تھی جس میں زمین کے مدار میں موجود خلائی ملبہ کی مقدار کا تعین ہر ملک کی خلائی مہم کے حساب سے کیا گیا ہے، ذیل کا ٹیبل ملاحظہ فرمائیں:[14].

 
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے وہ ممکنہ حصے جن سے کوئی خلائی ملبہ ٹکرا سکتا ہے، سرخ رنگ کے حصوں کو زیادہ خطرہ ہے جبکہ نیلے رنگ کے حصے زیادہ محفوظ ہیں
امریکا سوویت یونین فرانس چین بھارت جاپان یورپی خلائی ادارہ دیگر ممالک مجموع
خلائی کنٹینر 981 1313 33 38 27 84 33 327 2836
راکٹوں کے اجسام 525 815 92 22 6 29 6 14 1509
خلائی مہموں کا ملبہ 619 429 87 11 1 19 11 2 1179
تباہ شدہ ملبہ 1556 1383 114 250 106 0 11 0 3420
حادثاتی طور پر الگ ہونے والے اجسام 106 13 1 0 0 0 0 0 120
مجموع 3783 3953 327 321 140 132 61 343 9064

خلائی ملبے میں اضافہ خلائی جہازوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے خاص طور سے بین الاقوامی خلائی اڈا، 12 مارچ 2009ء کو بین الاقوامی خلائی اڈا ISS International Space Station ایک خلائی جسم کے خطرناک حد تک اس کے قریب آنے پر خالی کرا لیا گیا، اگرچہ اس خلائی جسم کا حجم ایک انچ کے تیسرے حصے سے زیادہ نہیں تھا تاہم جیسا کہ بتایا گیا ہے اتنا چھوٹا جسم بھی ایک بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے اور بین الاقوامی خلائی اڈے کا مستقبل خطرے میں ڈال سکتا ہے جس کی قیمت 100 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے، چونکہ بین الاقوامی خلائی اڈے کے خلاء نوردوں کو اس جسم کی بابت تاخیر سے مطلع کیا گیا اس لیے وہ اس سے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کر سکتے تھے چنانچہ انھوں نے خلائی اڈے کو خالی کرتے ہوئے بچاؤ کے کیپسول سویوز Soyuz escape ship میں جا پناہ لی تاکہ ٹکراؤ کی صورت میں دباؤ میں شدید کمی سے بچا جاسکے۔[7]

خلائی ملبے کا پتہ لگانا ترمیم

 
'Long duration exposed facility خلائی ملبہ کا پتہ لگانے کا ایک اہم ذریعہ

اقوامِ متحدہ کی کمیٹی کوپس (United Nations Committee on the Peaceful Uses of Outer Space (COPUOS) کی 1999ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں خلائی ملبہ کا پتہ لگانے کے کچھ طریقے تجویز کیے گئے ہیں:[15]

زمینی آلات سے پتہ لگانا:

- بذریعہ ریڈار: کچھ ممالک کے پاس ایسے ریڈار ہیں جن کے ذریعہ خلائی اجسام کا پتہ لگایا جا سکتا ہے جن میں جرمنی کے پاس دو، جاپان کے پاس تین، روس اور اوکرینیا کے پاس ایک، جبکہ امریکا کے پاس ایسے پانچ ریڈار موجود ہیں، ان میں سے سب سے دقیق ریڈار ناسا کا گولڈ سٹون Goldstone ہے جو 500 کلومیٹر کی اونچائی پر موجود 2 ملی میٹر قطر کے جسم کا آسانی سے پتہ چلا سکتا ہے۔

- بذریعہ ٹیلی سکوپ: رات کے وقت سورج کی روشنی منعکس کرنے پر خلائی اجسام کو بذریعہ ٹیلی سکوپ دیکھا جا سکتا ہے۔

سیارچوں سے پتہ لگانا:

- خلائی تجرباتی ریک rack کے ذریعہ جو خلاء میں خلائی اجسام کا پتہ لگانے اور ان کے سیمپل حاصل کرنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں جن میں ایک LDEF تھا یعنی Long Duration Exposure Facility اسے خلائی شٹل چیلنجر کے ذریعہ اپریل 1986ء میں چھوڑا گیا تھا، 5 سال اور 7 مہینوں میں یعنی جنوری 1990ء تک اس نے زمین کے گرد 32422 چکر لگائے[16] اس کی جگہ 1992ء سے Space shuttle orbiter نے لے لی ہے، اس کی سطح کا رقبہ کوئی 100 مربع میٹر ہے۔.[15]

    • - اس مقصد کے لیے خصوصی مصنوعی سیارچے چھوڑے جائیں جو زیریں سرخ Infra Red شعاعوں سے خلائی ملبہ کا پتہ چلائیں۔

مشہور خلائی ملبہ ترمیم

- 18 نومبر 2008ء کو خلاء نورد Heidemarie Stefanyshyn-Piper کے ہاتھ سے بین الاقوامی خلائی اڈے کے ایک روبوٹک بازو کی مرمت کے دوران اوزاروں کا ایک ڈبہ چھوٹ گیا، اوزاروں کے اس ڈبہ کی قیمت 100000£ تھی جبکہ 10000£ فی کلو گرام بین الاقوامی خلائی اڈے پر ان اوزاروں کو منتقل کرنے کا خرچہ الگ ہے تاہم اوزاروں کا وزن ایک کلو گرام سے کم تھا۔

- 1966ء میں خلاء نورد میجر مائکل کولنز Michael Collins کے ہاتھ سے ایک قیمتی کیمرا چھوٹ گیا جسے وہ خلاء سے زمین کی تصویریں اتارنے کے لیے استعمال کرتا تھا اور چونکہ کیمرا سویڈن کا بنا ہوا تھا چنانچہ اس وقت سویڈش عوام بہت خوش ہوئے اور کیمرے کو پہلا سویڈش مصنوعی سیارہ قرار دیا، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کیمرا اب بھی زمین کے گرد اپنے مدار میں گردش کر رہا ہے۔

- فروری 2006ء میں ریڈیو کی فریکوینسی پر سگنل بھیجنے کی صلاحیت کا حامل ایک خلائی سوٹ پھینکا گیا تاکہ خلائی سوٹ کی صلاحیت کا جائزہ لیا جاسکے اور مستقبل میں انھیں خلائی سیارچوں کی جگہ استعمال کیا جاسکے، اس سوٹ کو SuitSat-1 کا نام دیا گیا، یہ سوٹ ستمبر 2006ء کو زمین کے کرہ ہوائی سے ٹکرا کر جل گیا، اب اس نوعیت کے سوٹ کا ایک بہتر نسخہ تیار کیا جا رہا ہے جس کا نام SuitSat-2 ہے۔

- انسانی اختراع کا سب سے عجیب جسم وہ ہے جو 1957ء میں لوس الاموس Los Alamos نیو میکسیکو کے ایٹمی تجربہ سے پیدا ہوا، دھماکا کی وجہ سے دھماکے کے چینل کا ڈھکن اس تیزی سے اڑا کہ کرہ ہوائی سے باہر نکل گیا، یہ ڈھکن انسان کا بنایا ہوا پہلا خلائی جسم تھا کیونکہ یہ تجربہ سوویتی سپوٹنک-1 کے چھوڑے جانے سے پہلے کیا گیا تھا جو انسان کی طرف سے چھوڑا گیا پہلا مصنوعی سیارچہ تھا۔[2]

حادثات ترمیم

 
سعودی حکام 21 جنوی 2001ء کو سعوی عرب میں گرنے والے ایک خلائی ملبہ کا جائزہ لے رہے ہیں[2]

گذشتہ چالیس سالوں سے خلائی ملبہ کا کم سے کم ایک جسم روزانہ زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوتا ہے۔[17] تاہم ان کی اکثریت بہت چھوٹی ہوتی ہے اور کوئی نقصان نہیں پہنچاتی، لیکن بعض اجسام کرہ ہوئی سے رگڑ کھانے کے با وجود زمین کی سطح تک پہنچ سکتے ہیں، ذیل میں ایسے ہی کچھ مشہور واقعات درج کیے جا رہے ہیں: - خلائی ملبہ میں سے کسی جسم کا زمین تک پہنچنے کا سب سے بڑا حادثہ جولائی 1979ء کو پیش آیا جب امریکی خلائی اڈا سکائی لیب Skylab اپنے مقررہ وقت سے پہلے زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہو گیا، 78 ٹن وزنی اس خلائی اڈے کے ٹکڑے اسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں گرے۔[18] - 22 مارچ 2007ء میں لین ائیر لائینز LAN Airlines کا ایک مسافر بردار جہاز جس میں 270 مسافر سوار تھے اور جو سینٹیاگو چیلی Santiago Chile سے آکلینڈ Auckland نیوزیلینڈ جا رہا تھا اور بحر الکاہل پر اڑان بھر رہا تھا، کے قریب سے جاسوسی کی غرض سے چھوڑے گئے ایک روسی سیارچے کا ملبہ گذرا۔[19] - خلائی ملبہ کی وجہ سے اب تک صرف ایک شخص کا زخمی ہونا ریکارڈ پر ہے، 1997ء میں اوکلاہوما Oklahoma کی لوٹی ولیمز Lottie Williams کے کندھے سے 10 x 13 سینٹی میٹر کا ایک خلائی جسم ٹکرایا جس سے وہ زخمی ہوگئیں، تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہ ٹکڑا دراصل ڈیلٹا دوم Delta II کے ایندھن کے ٹینک کا ایک حصہ تھا جسے امریکی فضائیہ نے 1996ء میں چھوڑا تھا۔[20]

خلائی ملبہ میں کمی کی کوششیں ترمیم

اگرچہ خلائی ملبہ کافی خطرناک ہے تاہم عالمی سطح پر اس میں کمی لانے پرکوئی اتفاق نہیں پایا جاتا، 2007ء میں اقوامِ متحدہ کی کمیٹی COPUOS نے خلائی ملبہ میں کمی لانے کے لیے کچھ سفارشات پیش کی تھیں [21] جبکہ ناسا پہلا خلائی ادارہ ہے جس نے 1995ء میں خلائی ملبہ میں کمی لانے کے لیے ایک رپورٹ جاری کی جس میں باقاعدہ کچھ قاعدے وضع کیے گئے، دو سال بعد امریکی حکومت نے اس سلسلے میں ایک یاداشت جاری کی جو ناسا کی رپورٹ پر مبنی تھی جسے Orbital Debris Mitigation Standard Practices کہا جاتا ہے۔[22]

 
جانس خلائی مرکز میں ہائپر ولاسٹی ٹیسٹ فسیلٹی مرکز

10 فروری 2009ء میں یورپی خلائی ادارے European Space Agency نے 50 ملین یورو کی لاگت سے ایک پروگرام شروع کیا جس کا مقصد خلائی ملبہ میں کمی لانا ہے[8]

اس سلسلہ میں کئی تجاویز زیر غور ہیں، ایک تجویز کے مطابق ایک ایسا مصنوعی سیارچہ چھوڑا جائے جو خلائی اجسام کا راستہ بدل کر انھیں زمین کے کرہ ہوائی کی طرف موڑ دے اس طرح انھیں جلا کر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے، جبکہ خلائی جسم کی رفتار کم کرنے کے لیے electrodynamic tether کا طریقہ استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔[23] اس کے علاوہ بھی کئی دیگر طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے جن میں لیزر کا استعمال بھی شامل ہے۔[17]

اس وقت ناسا اورین Orion spacecraft نامی ایک خلائی جہاز پر کام کر رہی ہے جو خلائی اجسام کے ٹکراؤ کو برداشت کر سکے گا، اس پر جانسن خلائی مرکز Lyndon B. Johnson Space Center میں 7 سے 8 کلومیٹر فی سیکنڈ (25200 - 28800 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے اجسام ٹکرائے جاتے ہیں اور نتائج کو کمپیوٹر سے جانچا جاتا ہے تاکہ خلاء میں پیش آنے والی ایسی کسی صورت حال کی قریب ترین تصویر حاصل کی جاسکے۔[2]

خلائی ملبہ سائنس فکشن میں ترمیم

  • کمپیوٹر سے بنائی گئی فلم WALL-E کے مرکزی کردار جب آلودگی زدہ زمین چھوڑ کر خلاء کی طرف جاتے ہیں تو راستے میں خلائی ملبہ کی ایک پٹی سے گزرتے ہیں۔
  • جاپانی کارٹون سائنس فکشن مانگا (Manga) اینم (Anime) فلم Planetes میں خلائی ملبہ مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔
  • 2013ء کی فلم گریویٹی میں بھی اسی طرح کا واقعہ دکھایا گیا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Space junk. BBC. Site: www.bbc.co.uk/science/space/solarsystem/earth/spacejunk.shtml
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ میگزین Focus BBC شمارہ 200. مارچ 2009. ویب گاہ:www.bbcfocusmagazine.com
  3. سعودی اخبار الریاض. شمارہ:14752. 13 نومبر 2008. 15 ذو القعدہ 1429. ویب گاہ:www.alriyadh.com
  4. J.-C. Liou, N.L. Johnsson, & N.M. Hill. Stabilizing the Future LEO Debris Environment with Active Debris Removal. Orbital debris: quarterly news, vol.12,4. National Aeronautics and Space Administration (NASA) Oct. 2008 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ orbitaldebris.jsc.nasa.gov (Error: unknown archive URL).
  5. Space junk, USA WEEKEND Magazine, by Julian Smith, August 26, 2007 Site:www.usaweekend.com/07_issues/070826/070826space.html#junk
  6. کویتی اخبار القبس.شمارہ 12827. 13 فروری 2009 ,17 صفر 1430. ویب گاہ:www.alqabas.com.kw
  7. ^ ا ب Irene Klotz. Debris briefly forces astronauts from space station. Reuters. Thu Mar 12, 2009
  8. ^ ا ب Europeans Tackle Space Junk. CBS news. Feruary 16, 2009. Site: http://www.cbsnews.com/stories/2009/02/16/tech/main4804500.shtml?source=RSSattr=SciTech_4804500 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ cbsnews.com (Error: unknown archive URL)
  9. Chinese ASAT test. Center for Space Standards & Innovation,December 5,2007. Site:www.centerforspace.com/asat
  10. William J. Broad. Orbiting Junk, Once a Nuisance, Is Now a Threat. The Newyork Times Published: February 6, 2007
  11. Leonard David. China's Anti-Satellite Test: Worrisome Debris Cloud Circles Earth. Space.com February 2, 2007. Site: http://www.space.com/news/070202_china_spacedebris.html
  12. Burger, Brian. NASA's Terra Satellite Moved to Avoid Chinese ASAT Debris. Space.com Site:www.space.com/news/070706_sn_china_terra.html
  13. Space Junk: The full list Space.com. October 19, 2000. Site: https://web.archive.org/web/20001110091800/http://www.space.com/spacewatch/space_junk_list.html
  14. History of on orbit satellite fragmentation - 13th Ed. Orbital Debris Program Office - NASA. May 2004 http://orbitaldebris.jsc.nasa.gov/library/SatelliteFragHistory/13thEditionofBreakupBook.pdf
  15. ^ ا ب Technical Report on Space Debris. Scientific and Technical Subcommittee of the United Nations Committee on the Peaceful uses of Outer Space. United Nations, 1999
  16. Long duration exposure facility. NASA Langley Research Center. http://setas-www.larc.nasa.gov/LDEF/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ setas-www.larc.nasa.gov (Error: unknown archive URL)
  17. ^ ا ب Ker Than. Taking out the space trash. Popular Sciences. 27 Jun. 2008
  18. Jeffery Kluger. Spacecraft Falling! Get Set to Duck? Time , January 28, 2008
  19. Flaming space junk narrowly misses jet.The West Australian, March 28, 2007. Site: www.thewest.com.au/default.aspx?MenuID=145&ContentID=24657
  20. Paul Maley's SPACE DEBRIS PAGE. Site:www.eclipsetours.com/sat/debris.html
  21. اقوام متحدہ کی سفارشات http://www.oosa.unvienna.org/pdf/gadocs/A_62_20A.pdf
  22. "Orbital Debris:Mitigation. NASA orbital debris program office. retreived: 3/4/2009"۔ 17 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2009 
  23. Bill Christensen. The Terminator Tether Aims to Clean Up Low Earth Orbit. Space.com. 17 November 2004

بیرونی روابط ترمیم