خواتین کے کھیل یا عورتوں کے کھیل کا اطلاق پیشہ ورانہ اور غیر پیشہ ورانہ کھیلوں پر ہوتا ہے جن میں عورتیں حصہ لیتی ہیں اور کھیلتی ہیں، پچھلی صدی سے لے کر اس صدی کے دو دہوں کے عرصے میں عورتیں بہ کثرت کھیلوں میں حصہ لیتی آئی اور کئی شان دار ریکارڈ اپنے نام لکھ چکی ہیں۔ پھر بھی اگر کھیل کے میدان میں عورتوں اور مردوں کے مظاہروں کا مقابلہ کیا جائے تو دیکھا ہے کہ مغربی دنیا اور ترقی پزیر دنیا میں عورتوں کی حصے داری مردوں کے مقابلے کافی کم ہے۔ اس کی مثال بھارت اور پاکستان کے مقبول ترین کھیل کرکٹ سے لی جا سکتی ہے۔ دونوں ہی ملکوں میں قومی اور علاقائی سطح پر خواتین کی کرکٹ ٹیمیں موجود ہیں۔ تاہم اگر بھارت میں عوام الناس میں کسی یادگار کرکٹ کھلاڑی کا نام لینے کہا جاتا ہے تو نام سنیل گاوسکر، کپل دیو اور سچن ٹینڈولکر کا لیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے پاکستان میں لوگ جاوید میانداد اور عمران خان کے ناموں کے یاد کرتے ہیں۔ لوگ عام طور سے کسی خاتون کرکٹ کھلاڑی کا عام طور سے نہ تو بھارت میں نام لیتے ہیں اور نہ ہی پاکستان میں۔ یہی وجہ سے ہے بھارت کی کرکٹ ٹیم کا عمومًا اطلاق بھارتی مردوں کی کرکٹ ٹیم پر ہوتا ہے۔ اسی طرح سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا عمومً اطلاق پاکستان کے مردوں کی کرکٹ ٹیم پر ہوتا ہے۔ دونوں طرف جہاں کھیل کے ذریعے مرد کھلاڑی کافی کمائی کرتے ہیں، وہاں عورتوں کی کمائی کافی محدود ہوا کرتی ہے۔ تاہم اس میں کچھ کھیل کی شخصیات مستثنٰی ہیں۔ ٹینس کی ایک بھارتی کھلاڑی ثانیہ مرزا اور بھارتی پیشہ ورانہ بیڈمنٹن کھلاڑی پی وی سندھو اپنے کھیلوں مردوں کے مقابلے کھیل سے کافی کمائی کرتی ہیں۔ یہ خاتون کھلاڑی اشتہارات اور براڈ ایمبیسڈرشپ سے بھی کافی پیسہ کماتی ہیں، جو دیگر کھیلوں میں کامیاب مردوں کے مشابہ ہوتا ہے۔ تاہم بیشتر خاتون کھلاڑیوں کو اشتہارات اور براڈ ایمبیسڈرشپ سے کچھ خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔

خواتین کے کھیلوں کے خوش کن پہلو ترمیم

خواتین کے کھیلوں کے مایوس پہلو ترمیم

  • مئی 2018ء میں پاکستان کے معمر قذافی اسٹیڈیم میں خواتین کی کرکٹ ٹیم بغیر کسی سہولت کے پہنچی تھی۔[2]
  • اولمپکس میں وزن اٹھانے کے زمرے میں کانسی کا تمغا اٹھانے والی بھارتی خاتون کھلاڑی کرنم ملیشوری یہ کہ چکی ہے کہ بھارت میں خاتون کھلاڑیوں کو نہ صرف اپنے تربیت کاروں سے بلکہ اسپورٹس فیڈریشن کے عہدیداروں سے بھی جنسی ہراسانی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔[3]

حوالہ جات ترمیم