خولہ بنت ثعلبہ اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کی شریک حیات تھیں۔ اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے ظہار کیا تو انھوں جناب محمد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کی چند آیات نازل فرمائی جو خولہ بنت ثعلبہ کے متعلق تھیں۔

خولہ بنت ثعلبہ
معلومات شخصیت
شریک حیات اوس بن صامت  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فضیلت ترمیم

عہد فاروقی میں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ چند افراد کے ساتھ کہیں جا رہے تھے تو ایک عورت نے آپ کو بڑی دیر تک روکے رکھا اور نصیحت کرتی رہی تو آپ کے ہمراہیوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ ایک بوڑھی عورت کی بات سننے کے آپ اتنی دیر تک رکے رہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے اس سے زیادہ وقت بھی روکتیں تو میں رکتا اور ان کی باتیں سنتا کیونکہ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہیں جن کی بات اللہ تعالٰی نے سنی اور قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں۔

واقعہ ترمیم

حضرت خولہ بنت ثعلبہ کے شوہر اوس بن صامت نے کسی سبب سے ان ظہار کیا یعنی زمانۂ جاہلیت کے وہ الفاظ ادا کیے جن سے طلاق واقع ہو جاتی تھی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فریاد لے کر آئیں تو آپ نے کہا کہ اب تو اپنے شوہر کے لیے حرام ہو گئی تو خولہ نے کہا کہ اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس اس معاملے میں کوئی حکم نہیں ہے چنانچہ حضرت خولہ نے آپ سے بار بار اصرار کیا اور اللہ سے شکایت کی تو اللہ تعالٰی نے ظہار کے متعلق احکام نازل فرمائے جس کے مطابق یہ فیصلہ ہوا کہ اوس بن صامت کوئی غلام آزاد کرے لیکن ان کی یہ حیثیت نہیں تھی چنانچہ لگاتار ساٹھ روزے کا حکم ہوا لیکن ان کو اس کی بھی طاقت نہیں تھی تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہوا۔

قرآن کریم کی آیتیں ترمیم

قَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہَا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ٭ۖ وَ اللّٰہُ یَسۡمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿1﴾

یقیناً اللہ تعالٰی نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی ، اللہ تعالٰی تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا بیشک اللہ تعالٰی سننے دیکھنے والا ہے ۔

اَلَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِہِمۡ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمۡ ؕ اِنۡ اُمَّہٰتُہُمۡ اِلَّا الّٰٓـِٔىۡ وَلَدۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَیَقُوۡلُوۡنَ مُنۡکَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَ زُوۡرًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ ﴿2﴾

تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ( یعنی انھیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں ) وہ دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے ، یقینًا یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں بے شک اللہ تعا لٰی معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔

وَ الَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ؕ ذٰلِکُمۡ تُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿3﴾

جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کر لیں تو ان کے ذمہ آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے ، اس کے ذریعہ تم نصیحت کیے جاتے ہو اور اللہ تعالٰی تمھارے تمام اعمال سے باخبر ہے ۔

فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ فَاِطۡعَامُ سِتِّیۡنَ مِسۡکِیۡنًا ؕ ذٰلِکَ لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿4﴾

ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمہ دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے ۔ یہ اس لیے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم برداری کرو یہ اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لیے دردناک عذاب ہے۔

نسب ترمیم

خولة بنت ثعلبة بن أصرم بن فهد بن ثعلبة بن غنم بن عوف

حوالہ جات ترمیم

[1]

  1. تفسیر قرطبی، سورہ مجادلہ، پارہ 28