داستان امیر حمزہ ایک بہادر شخص حمزہ بن ازرک کی فرضیہ داستان ہے یہ پرانے اردو داستانوں میں مشہور ترین ہے اس کا تعلق مغل بادشاہ اکبر سے ہے جو داستان سننے کے شوقین تھے۔[1] داستانِ امیر حمزہ کا شمار اردو ادبِ عالیہ (کلاسیک) میں ہوتا ہے جسے کئی مصنفین نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا۔ یہ داستان فارسی ادب سے اردو ادب میں منتقل ہوئی لیکن اسے اردو میں کہیں زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔

داستان امیر حمزہ
داستان امیر حمزہ کی طلسم ہوش ربا کا سرورق
مصنفمحمد حسین جاہ (4 جلدیں)
احمد حسین قمر (21 جلدیں)
شیخ تصدق حسین (20 جلدیں)
پیارے مرزا (2 جلدیں)
اسمعیل اثر (1 جلد)
ملکہندوستان
زباناردو
صنفداستان
ناشرمطبع منشی نول کشور
صفحاتبیالیس ہزار (42,000)
جلدیں46 (8 دفتر)

مرکزی موضوع ترمیم

گو کہ داستان امیر حمزہ آٹھ بڑے ضخیم دفتروں پر پھیلی ہوئی ہے لیکن داستان گویوں نے اس کا ایک خاص مرکزی خیال متعین کیا ہے اور پوری داستان میں ایک مخصوص فضا قائم برقرار رکھی ہے۔ چنانچہ داستان کا قاری اثنائے مطالعہ صاف محسوس کرتا ہے کہ یہ پوری داستان ابتدا سے انتہا تک شوکتِ اسلام کے غلبہ، کفار کے مقابلہ پر اہل اسلام کی فتح اور مسلمانوں کے استیلا کے گرد گھومتی ہے۔ اس مرکزی موضوع پر کلام کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں: "داستان کا بنیادی موضوع 'شوکتِ دینِ حق بیان کرنا ہے'۔ داستان میں اسلام اور خدا پرستی کا ذکر بہت ہے لیکن اس کی تہذیب زیادہ تر غیر اسلامی نہیں تو نامذہبی (Secular) ضرور ہے۔ کہیں کہیں ہندو مذہب کا ذکر داستان میں ہے لیکن ہندو مذہب کو اسلام کے خلاف صف آرا نہیں دکھایا گیا ہے۔ مجموعی حیثیت سے اسلام (خاص کر شیعی اسلام) کو برحق اور باقی ہر مذہب کو باطل ضرور قرار دیا گیا ہے لیکن گیان چند جین کا یہ خیال غلط ہے کہ داستان میں اسلام اور ہندو مذہب کو ایک دوسرے کے مقابل جنگ آزما دکھایا گیا ہے۔ داستان میں ہندو مذہب اور اسلام کی جنگ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ داستان میں جگہ جگہ مذہب اسلام کے فروغ اور کہیں کہیں مندروں کے انہدام اور مساجد کے قیام کے ذکر کے باوجود داستان کی فضا مجموعی طور پر غیر مذہبی ہے اور اس کے کسی بھی 'اسلامی' ہیرو کو کسی تاریخی اسلامی کردار پر مبنی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ داستان پر ہندو رسم و رواج کا اثر بہت واضح ہے۔ اس کی ایک مثال خودکشی ہے جو اسلام میں حرام ہے لیکن داستان کے بہت سے اہم کردار اپنی ناموس کو بچانے یا غیرت مندی کے باعث خودکشی کر لیتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم خودکشی امیر حمزہ کی عزیز ترین بیوی اور اولین و بہترین معشوقہ اور شاہ قباد کی ماں مہر نگار کی خودکشی ہے۔"[2]

میرِ قصہ امیر حمزہ ترمیم

داستان امیر حمزہ کے مرکزی کردار امیر حمزہ کے متعلق محققین نے مختلف قیاس آرائیاں کی ہیں۔ تاہم اس پر محققین متفق ہیں کہ اس داستان میں مذکور امیر حمزہ عم رسول محمد نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی اور حمزہ ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے درست لکھا ہے کہ جب داستان کے تمام واقعات غیر حقیقی ہیں تو اس کا "ہیرو" کیسے حقیقی فرد ہو سکتا ہے۔ اس نوع کی داستانوں میں ناموں کی مشابہت اتفاقی ہوتی ہے، لہذا ان کی بنا پر شخصیات کی حقیقت کا کھوج لگانا بے سود ہے۔ جس طرح الف لیلیٰ کے بغداد اور ہارون الرشید کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اسی طرح داستان کا امیر حمزہ اور حمزہ بن عبد المطلب بھی ایک نہیں ہیں۔[3] اسی طرح امیر حمزہ کی شخصیت اور اس کے تاریخی وجود پر گفتگو کرتے ہوئے گیان چند جین لکھتے ہیں:

داستان حمزہ کے ہیرو نہ حضرت حمزہ عم رسول ہیں نہ حضرت علی بلکہ ایک اور حمزہ ہے جس کا ذکر تاریخ سیستان میں ہے۔ ایران کے مشہور شاعر ملک الشعرا محمد تقی بہار کو تاریخ سیستان کا ایک قدیم نسخہ ملا جس کو انھوں نے شائع کر دیا۔ اس تاریخ کے حوالے سے بہار سبک شناسی میں لکھتے ہیں: "خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں ایک شخص حمزہ بن عبد اللہ الشاری الخارجی خارجیوں کا سردار تھا۔ وہ ایک عرصے تک ہارون الرشید کے ساتھ معرکہ آرا رہا۔ ہارون کے انتقال کے بعد وہ اپنے رفقا کے ساتھ سندھ، ہند، سراندیپ، چین، ترکستان اور روم وغیرہ کا سفر کر کے سیستان واپس آیا۔ اس کے معتقدین نے اس کی لڑائیوں اور سیاحتوں کی تفصیل میں کتاب مغازیِ حمزہ لکھی۔ بعد میں غیر خارجی ایرانیوں نے اس کتاب کو عام مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لیے اس میں حمزہ بن عبد المطلب کا نام ڈال دیا اور خلفائے بنی عباس کی جگہ کفار کو حریف قرار دیا۔ تاریخ بیہقی میں اس کا نام حمزہ بن آذوک یا اترک یا ادرک دیا ہے۔ ایرانی مسلمان اپنے مجوسی باپوں کا نام علی العموم عبد اللہ بتاتے ہیں۔" کوئی شک نہيں کہ داستانِ حمزہ کے قصر کی بنیاد کی خِشتِ اول یہی ہے۔[4]

مرزا محمد سعید دہلوی نے اپنی کتاب مذہب اور باطنی تعلیم میں بھی اسی خیال کو ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ وہ رقم طراز ہیں:

شام کا ایک اور اسماعیلی قائد جس کی شہرت نے تاریخ کی سرحد سے گزر کر دنیائے افسانہ کو معمور کر دیا ہے حمزہ تھا۔ یہ حمزہ نزاریہ شام کے قلعوں میں سے ایک کا حاکم تھا۔ شام کی نزاری حکومت کی بھی وہی حکمت عملی تھی جس نے رود بار کی نزاری حکومت کو ایک عرصہ دراز تک اپنے دشمنوں سے محفوظ رکھا تھا یعنی یہ کہ انہوں نے دشوار گزار کوہی مقامات میں مستحکم قلعہ جات تعمیر کر لیے تھے اور ان کی آہنی دیواروں کی پناہ میں ان کی قلیل جمعیت دشمنوں کی کثیر افواج کا بخوبی مقابلہ کر سکتی تھی۔ حمزہ اپنے ان کارہائے نمایاں کی بدولت جو اس نے صلیبی محاربین اور بعد میں سلطان بیبرس کی افواج کے خلاف سرانجام دیے تھے بہت سی داستانوں کا ہیرو بن گیا جو شام اور مصر میں بہت مقبول ہو گئیں اور بعد میں ترکی اور فارسی زبانوں میں بھی رواج پا گئیں۔ ان داستانوں کو حمزہ نامہ کہا جاتا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ داستان امیر حمزہ کی اصل یہی داستانیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ مابعد میں اس اسماعیلی بطل کو حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا امیر حمزہ سے مخلوط کر دیا گیا اور اس کی داستان امیر حمزہ کی داستان بن گئی۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو بوستان خیال کی مانند داستان امیر حمزہ بھی اسماعیلی روایات کی مرہون ہو جاتی ہے۔[5]

مرکزی کردار ترمیم

داستان امیر حمزہ جیسی طویل، متنوع اور تخلیقیت سے بھرپور داستان کے کرداروں کا شمار خاصا مشکل ہے۔ داستان میں ہر لمحے نئے کردار اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہوتے اور اپنی حرکات سے قارئین/سامعین کو ششدر اور محظوظ کرتے ہیں، ایسی صورت میں تمام کرداروں کی مکمل فہرست تیار کرنا بے جا طوالت کا باعث ہے۔ چنانچہ ذیل میں صرف انھی اشخاص کے نام درج فہرست ہیں جنھیں داستان میں مرکزی اہمیت دی گئی ہے یا قصہ میں جن کا کردار اپنے سامعین و قارئین پر غیر معمولی تاثر چھوڑتا ہے۔

کرداروں کی فہرست ترمیم

شمار نام مختصر تفصیل
1 امیر حمزہ امیر حمزہ داستان کا سب سے مشہور کردار ہے۔ قطعہ میرِ قصہ امیر حمزہ ملاحظہ فرمائیں
2 عمرو عیار عمرو عیار داستان کے مشہور ترین کرداروں میں سے ایک ہے۔ عمرو عیار کے پاس ایک زنبیل ہوتی ہے جس سے وہ جو چاہے نکال سکتا ہے ۔
3 افراسیاب امیر حمزہ اور عمرو عیار کے بعد داستان کا سب سے قابل ذکر کردار
4 القش نوشیرواں کے باپ اور بادشاہِ مدائن قباد کامران کا وزیر
5 الماس جادوگر ہفت پیکر کا ساتھی
6 برہمن جلیل القدر ساحر جو امیر حمزہ کا حامی بن جاتا ہے۔
7 بزر جمہر ایک حکیم و دانا جو خواجہ بخت جمال کا بیٹا ہے اور اس کی موت کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ نوشیرواں کا وزیر بھی ہے اور امیر حمزہ کی پیدائش پر اسے "امیر حمزہ صاحبقراں" کا لقب دیتا ہے۔
8 بہزاد امیر حمزہ کے خادم مقبل ابن قبیل کا فرزند۔ مہر نگار کا دفاع کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی جان نہیں بچا سکتا۔
9 تلبیس ایک عیار جو عمرو عیار کو زک پہنچا کر امیر حمزہ کو پکڑ لے جانے میں کامياب ہو جاتا ہے
10 حمزہ ثانی امیر حمزہ کا فرزند جو فیروزہ گوہر تاج دار بنت نوشیرواں کے بطن سے ہے
11 خواجہ بخت جمال بزر جمہر کا باپ اور وزیر القش کا دوست
12 دجال خونخوار ابلیس پرست سردار جو اہل اسلام کا قلع قمع کرنے کا بیڑا اٹھاتا ہے
13 روشن رائے / حکیم ہوش ربا شہر عجائب نگار کا مسلمان حاکم
14 سامری جمشید کا بھائی اور پرہلاد حق گو کا بیٹا
15 ملکہ بہار افراسیاب کی بیگم ملکہ حیرت کی بہن اور نہایت دلکش ساحرہ
16 ہفت پیکر زبردست ساحر اور طلسم ہفت پیکر کا خدا

ترجمہ یا تصنیف ترمیم

داستان امیر حمزہ کے متعلق عموماً یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ داستان اردو داستان گویوں کی طبع زاد ہے یا کسی دوسری زبان کی ادبیات سے اخذ کرکے اسے اردو قالب میں ڈھالا گیا۔ داستان کے مجلدات کا دیباچہ یا عرض ناشر پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسے منشی نول کشور نے ان داستان گویوں سے فارسی سے ترجمہ کروا کر شائع کیا تھا۔ نیز خود داستان کے مصنفین بھی (غالباً ناشر کی پیروی میں) تواتر کے ساتھ اسے فارسی سے ترجمہ قرار دیتے رہے۔ لیکن داستانی ادب کے تمام محققین نے اپنی تحقیقات میں بالاتفاق اسے خلاف واقعہ قرار دیا اور اسے اردو کی مستقل بالذات تصنیف سمجھا ہے۔ عابد رضا بیدار مقدمہ طلسم ہوش ربا کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: "طلسم ہوش ربا تصنیف ہے ترجمہ نہیں! طلسم ہوش ربا، داستان امیر حمزہ کا ایک حصہ بتایا جاتا رہا ہے اور خود داستان ایک قدیم تر فارسی قصہ داستان امیر حمزہ سے ماخوذ بتائی جاتی رہی ہے۔ جبکہ کوئی ایسی قدیم فارسی داستان امیر حمزہ دستیاب نہیں کہ موجودہ ضخیم داستان امیر حمزہ اردو جس کا ترجمہ قرار دی جا سکے اور کوئی فارسی یا اردو داستان امیر حمزہ ایسی موجود نہیں کہ طلسم ہوش ربا جس کا ترجمہ کہی جا سکے۔ بجز اس کے کہ، داستان امیر حمزہ اردو، اسی نام کی قدیم فارسی داستان کا چربہ ہے یا اسے اپنا سرچشمہ بنایا ہے۔ اور طلسم ہوشربا قدیم داستان یا اردو داستان سے مستفاد ہے تو محض اس حد تک کہ ناموں میں خاصا اشتراک ہے اور کارناموں میں بھی جابجا اشتراک ہے۔ دراصل اردو والوں نے عظیم تر ادبیات فارسی سے ناتا جوڑنے کی کوشش میں یہ کہنے میں فخر محسوس کیا کہ وہ طلسم خود تصنیف نہیں کر رہے، بلکہ داستان کے اسی نام کے ایک حصے کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ تاہم چونکہ یہ امر خلاف واقع تھا اس لیے ایک ہی سانس میں اسے ترجمہ کے ساتھ تصنیف بھی قرار دیتے رہے۔ اس میں ان طلسم کاروں کے ساتھ مطبع کے کار پردازوں اور مالکوں کو بھی برابر کا یا کچھ زیادہ ہی دخل رہا جنھوں نے اسے بھی اپنے بزنس یا تجارتی گر کا حصہ جانا کہ فارسی والوں سے رشتہ ظاہر کیا جاتا رہے کہ انیسویں صدی کے اواخر تک تنہا اردو میں وہ عظمت نہیں تھی جو فارسی کے نام سے وابستگی میں پیدا ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔ تصنیف کو ترجمہ کہہ کر پچھلوں سے رشتہ جوڑنے کی کوشش دراصل اس وقت کی ایک اہم قدر کا شریفانہ اظہار تھی کہ کسی سے کچھ لو تو احسان کا تقاضا ہے اس سے زیادہ بتاؤ جتنا اس کا حق ہے۔ اگر پچھلوں نے کوئی طلسم ہوش ربا لکھی تھی تو وہ اگلوں کے لیے انسپائریشن تو بہرحال بنی۔ اس کے کردار لیے، اس کے عیار لیے اور بھی کچھ باتیں آٹے میں نمک کے طور سے لے لیں۔ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ اصل 25 صفحے کی داستان ترجمے میں نو دس ہزار صفحوں پر پھیل گئی۔"[6]

شمس الرحمن فاروقی نے بھی اپنی کتاب داستان امیر حمزہ کے مطالعہ میں اس پر مفصل کلام کیا ہے اور پختہ ثبوتوں، شواہد اور دلائل سے اسے ترجمے کی بجائے اردو داستان گویوں کا طبع زاد قصہ قرار دیا ہے۔

بچوں کی داستان امیر حمزہ ترمیم

اردو ادبیات عالیہ میں داستان کی مرکزی اہمیت کے پیش نظر جہاں اس کے متعدد انتخابات شائع ہوئے، وہاں بچوں اور نو عمر طلبہ کو بھی اس کلاسیک سے روشناس کرانے کی غرض سے اس کی تسہیل شائع ہوئی۔ اول اول مقبول جہانگیر نے بچوں کے لیے آسان زبان میں داستان امیر حمزہ دس حصوں میں شائع کی جس کا پہلا حصہ "بادشاہ کا خواب"، دوسرا "پر اَسرار جزیرہ"، تیسرا "نوشیرواں کی بیٹی"، چوتھا "امیر حمزہ میدان جنگ میں"‍، پانچواں "امیر حمزہ کوہ قاف میں"، چھٹا "شداد جادوگر"، ساتواں "شہزادہ شہریار"، آٹھواں "عیاروں کی حکومت"، نواں "جادو کا شہر" اور دسواں "آخری مہم" تھا۔ بعد ازاں اختر رضوی نے بچوں کے لیے صرف طلسم ہوش ربا کا خلاصہ دس حصوں میں شائع کیا۔ یہ دونوں سلسلے خوب مقبول ہوئے۔

فہرست ترمیم

ذیل میں داستان امیر حمزہ کی تمام چھیالیس جلدوں کی فہرست ضروری تفصیلات کے ساتھ درج ہے۔[7]

شمار نام داستان گو نول کشوری سنہ اشاعت[8]
1 نوشیرواں نامہ، اول شیخ تصدق حسین 1898ء لکھنؤ
2 ہومان نامہ احمد حسین قمر 1901ء لکھنؤ
3 نوشیرواں نامہ، دوم شیخ تصدق حسین 1915 لکھنؤ
4 ہرمز نامہ شیخ تصدق حسین 1900ء لکھنؤ
5 کوچک باختر شیخ تصدق حسین 1901ء لکھنؤ
6 بالا باختر شیخ تصدق حسین 1900ء کانپور
7 ایرج نامہ، اول شیخ تصدق حسین 1896ء لکھنؤ
8 ایرج نامہ، دوم شیخ تصدق حسین 1898ء لکھنؤ
9 طلسم ہوش ربا، اول محمد حسین جاہ 1883ء لکھنؤ
10 طلسم ہوش ربا، دوم محمد حسین جاہ 1912ء کانپور
11 طلسم ہوش ربا، سوم محمد حسین جاہ 1892ء لکھنؤ
12 بقیہ طلسم ہوش ربا، اول احمد حسین قمر 1911ء لکھنؤ
13 بقیہ طلسم ہوش ربا، دوم احمد حسین قمر 1911ء لکھنؤ
14 طلسم ہوش ربا، چہارم محمد حسین جاہ 1890ء لکھنؤ
15 طلسم ہوش ربا پنجم، اول احمد حسین قمر 1893ء لکھنؤ
12 طلسم ہوش ربا پنجم، دوم احمد حسین قمر 1893ء لکھنؤ
17 طلسم ہوش ربا، ششم احمد حسین قمر 1893ء کانپور
18 طلسم ہوش ربا، ہفتم احمد حسین قمر 1915ء کانپور
19 طلسم فتنۂ نور افشاں، اول احمد حسین قمر 1896ء لکھنؤ
20 طلسم فتنۂ نور افشاں، دوم احمد حسین قمر 1896ء لکھنؤ
21 طلسم فتنۂ نور افشاں، سوم احمد حسین قمر 1896ء لکھنؤ
22 طلسم ہفت پیکر، اول احمد حسین قمر 1909ء لکھنؤ
23 طلسم ہفت پیکر، دوم احمد حسین قمر 1915ء لکھنؤ
24 طلسم ہفت پیکر، سوم احمد حسین قمر 1913ء لکھنؤ
25 طلسم خیال سکندری، اول احمد حسین قمر
26 طلسم خیال سکندری، دوم احمد حسین قمر 1900ء لکھنؤ
27 طلسم خیال سکندری، سوم احمد حسین قمر 1900ء لکھنؤ
28 طلسم نوخیز جمشیدی، اول احمد حسین قمر 1901ء لکھنؤ
29 طلسم نوخیز جمشیدی، دوم احمد حسین قمر 1902ء لکھنؤ
30 طلسم نوخیز جمشیدی، سوم احمد حسین قمر 1902ء لکھنؤ
31 طلسم زعفران زار سلیمانی، اول احمد حسین قمر و شیخ تصدق حسین 1905ء لکھنؤ
32 طلسم زعفران زار سلیمانی، دوم احمد حسین قمر و شیخ تصدق حسین 1905ء لکھنؤ
33 صندلی نامہ اسمعیل اثر 1901ء لکھنؤ
34 تورج نامہ، اول پیارے مرزا باعانت شیخ تصدق حسین 1906ء لکھنؤ
35 تورج نامہ، دوم پیارے مرزا باعانت شیخ تصدق حسین و بہ ترتیب و تصحیح اسمعیل اثر 1927ء لکھنؤ
36 آفتاب شجاعت، اول شیخ تصدق حسین 1903ء لکھنؤ
37 آفتاب شجاعت، دوم شیخ تصدق حسین 1903ء لکھنؤ
38 آفتاب شجاعت، سوم شیخ تصدق حسین 1904ء لکھنؤ
39 آفتاب شجاعت، چہارم شیخ تصدق حسین 1905ء لکھنؤ
40 آفتاب شجاعت، پنجم، اول شیخ تصدق حسین 1908ء لکھنؤ
41 آفتاب شجاعت، پنجم، دوم شیخ تصدق حسین 1908ء لکھنؤ
42 گلستان باختر، اول شیخ تصدق حسین 1909ء لکھنؤ
43 گلستان باختر، دوم شیخ تصدق حسین 1909ء لکھنؤ
44 گلستان باختر، سوم شیخ تصدق حسین 1917ء لکھنؤ
45 لعل نامہ، اول شیخ تصدق حسین 1913ء لکھنؤ
46 لعل نامہ، دوم شیخ تصدق حسین 1917ء لکھنؤ

حوالہ جات ترمیم

  1. ریختہ: داستان امیز حمزہ اخذ کردہ بتاریخ 2 جولائی 2017ء
  2. ساحری، شاہی، صاحب قرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ جلد سوم از شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، طبع اول 2006ء، ص: 186
  3. اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ از ڈاکٹر سلیم اختر، ص 277
  4. اردو کی نثری داستانیں از گیان چند جین، اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1987ء، صفحہ: 692 - 693
  5. مذہب اور باطنی تعلیم از مرزا محمد سعید دہلوی، مطبوعہ اردو مرکز لاہور، ص: 315 - 316
  6. مقدمۂ طلسم ہوشربا، خدا بخش اوریئنٹل پبلک لائبریری پٹنہ، ص: 4 - 5
  7. ساحری، شاہی، صاحب قرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ جلد دوم از شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، طبع اول 2006ء، ص: 63 تا 77 (داستانوں کے سنہ اشاعت کتاب کی جلد سوم سے ماخوذ ہیں)
  8. نسخوں کے اختلاف سے سنہ اشاعت میں اختلاف کا امکان ہے۔

بیرونی روابط ترمیم