دبری جماع یا دبری مباشرت سے مراد ایک مردانہ عضو تناسل کا جنسی تسکین کے لیے کسی دوسرے شخص کی دبر یا مقعد میں داخل کرنا اور اسے اندر باہر حرکت دینا ہے۔ اس جماع کی دیگر اشکال مقعد میں انگلی داخل کرنا، جنسی کھلونے استعمال کرنا اور دبر کا منہ سے ملاپ ہیں۔

اگرچہ اس عمل کو زیادہ تر مردانہ ہم جنس پرستی سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن اس قسم کی جنسی تحریک روایتی جوڑوں (مرد/عورت) میں بھی عام ہے۔

اسلام میں مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ دبری جماع ایک انتہائی متنازع موضوع ہے۔ اسلام کے دو بڑے فرقوں کا اس معاملے پر اختلاف ہے۔ اہل سنت اس عمل کو قطعی حرام قرار دیتے ہیں جبکہ بعض اہل تشیع بھی اس کو جائز قرار نہیں دیتے ہیں۔

فحش نگاری ترمیم

اگرچہ اکثر شادی شدہ مرد اپنی زوجہ سے دبری جماع کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن بیشتر خواتین کراہیت، درد یا دونوں کے خوف سے اس عمل سے پرہیز کرتی ہیں۔ تاہم گذشتہ دو دہائیوں میں فحش نگاری میں اس عمل کی عکاسی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جہاں فحش نگاری کے ابتدائی دور میں زیادہ تر مقبول فحش کارائیں دبری جماع پر رضامند نہیں ہوتی تھیں وہیں موجودہ دور میں کوئی بھی فحش کارہ اس صنعت میں دبری جماع عکس بند کروائے بغیر زیادہ عرصہ کام نہیں کر سکتی۔

صحت پر اثرات ترمیم

دبری جماع طبی لحاظ سے ایک خطرناک عمل ہے۔ مناسب تیاری اور مشق کے بغیر دبری جماع عامل اور ماعمول دونوں کو شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مقعد کے پٹھے جسم سے فضلے کے اخراج کے لیے بنے ہیں اس لیے کسی بیرونی عنصر (مردانہ عضو تناسل یا جنسی کھلونا) کا بغیر تیاری کے یا یکدم ادخال پٹھے کو زخمی کر کو کئی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر مقعد کے پٹھے تیاری یا مشق کی کمی کی وجہ سے سخت ہوں تو زبردستی دخول کی کوشش عضو تناسل کے پٹھوں کو توڑ کر ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ عضو تناسل کی جلد پھٹ کر زخمی بھی ہو سکتی ہے۔ چونکہ دبری جماع میں زخمی ہونے کا امکان زیادہ ہے اس لیے اس عمل سے ایڈز اور دیگر جنسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا تناسب بھی زیادہ ہے۔

کچھ طبی ماہرین کے مطابق کثرت سے دبری جماع مقعد کے پٹھوں کو کمزور کر سکتا ہے جس سے براز پر انضباط کم ہو سکتا ہے اور بعض صورتوں میں ڈائپر پہننے کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔