دَوْرِیْ جدول (انگریزی: Periodic table) تمام عناصر کا ایک چارٹ ہے جس میں تمام کیمیائی عناصر کو ان کے جوہری عدد (مرکزے میں اولیہ کی تعداد) کے لحاظ سے ترتیب سے دکھایا گیا ہے۔ اس جدول سے عناصر کی برقی کنفگریشن اور کیمیائی خصوصیات یاد رکھنا بہت آسان ہو جاتا ہے کیونکہ ہر گروپ کے عناصر بڑی حد تک ملتی جُلتی کیمیائی خصوصیت رکھتے ہیں۔ اس ترتیب کو چار بڑے بلاک میں تقسیم کیا گیا ہے جو (s,p،d,f) پر مشتمل ہیں۔ عام طور سے ہر پیریڈ (period) کے دائیں جانب غیر دھاتیں اور بائیں جانب دھاتیں ہوتی ہیں۔

18 گروپ پر مشتمل دوری جدول below)


دوری جدول کی بائیں سے دائیں صفوں کو دور یا پیریڈ جبکہ اوپر سے نیچے آتے ستونوں (کالموں) کو گروپ کہتے ہیں۔ ان میں سے چھ گروپوں (کالموں) کے عدد کے ساتھ نام بھی ہیں مثلا 17 ویں گروپ کو ہیلوجن اور 18 ویں گروپ کو نوبل فارغوں کہتے ہیں۔ دوری جدول کے ذریعہ ہم عناصر کی خصوصیات اور ان کے درمیان تعلق کو جان سکتے ہیں نیز اس کے ذریعہ ہم نئے دریافت ہونے والے عناصر یا مصنوئی طور پر بنائے جانے والے عناصر کی کیمیائی خصوصیات کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ مختلف عناصر کے طبعی و کیمیائی رویوں کو معلوم کرنے کے لیے کیمیا اور علم کے مختلف شعبوں میں دوری جدول کو استعمال کیا جاتا ہے۔

روسی کیمیا دان دمیتری منڈلیف نے 1869ء میں ایک دوری جدول شائع کیا تھا جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے اس دوری جدول میں اس وقت تک کے دریافت شدہ عناصر کی درجہ بندی ان کے خصوصیات کے مطابق کی۔ منڈلیف نے اس وقت بعض غیر دریافت شدہ عناصر کی خصویات کے بارے میں بھی پیشن گوئی کی جو دوری جدول کی خالی جگہوں میں ممکنہ طور پر جگہ لینے والے تھے۔ جب بعد میں یہ عناصر دریافت کیے گئے توان کی پیشن گوئیوں میں سے اکثر درست ثابت ہوئیں۔ منڈلیف کے دوری جدول کے بعد سے اب تک یہ جدول کافی بڑھ گئی ہے جس کی وجہ بہت سے عناصر کی دریافت ،تخلیق اور کیمیائی خصوصیات کی تعریف کے لیے نئے نمونے کا سامنے آنا ہے۔ اگرچہ مینڈیلیف کے زمانے میں دوری جدول کو جوہری وزن کے لحاظ سے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی تھی جس کی وجہ سے کچھ پیچیدگیاں سامنے آتی تھیں مگر بعد میں جب تعدیلہ اور اولیہ دریافت ہوئے تو دوری جدول کو جوہری وزن کی بجائے جوہری عدد کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا جس سے وہ پیچیدگیاں ختم ہو گئیں۔

پہلے 94 عناصر قدرتی طور پر دنیا میں پائے جاتے ہیں اگرچہ ان میں کچھ بہت کم مقدار میں ہی مل سکتے ہیں اور ان میں سے بعض دریافت سے بھی قبل لباٹریوں میں تخلیق کیے گئے تھے۔ وہ عناصر جو 95 سے 118 تک ہیں انھیں لباٹریوں میں تخلیق کیا گیا ہے لیکن یہ سب نہایت تیزی سے تابکاری کی وجہ سے فنا ہو جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 95 سے 100 تک کے عناصر کبھی قدرتی طور پر بھی وجود رکھتے تھے لیکن اب نہیں پائے جاتے۔ بڑے جوہری عدد والے عناصر کو لباٹریوں میں تخلیق کرنا اب ممکن بات ہے۔

چھٹے پیریڈ میں گروپ 2 اور گروپ 3 کے درمیان لینتھینائڈ (Lan­thanide) گروپ کے 14 عناصر ہوتے ہیں (عدد 57 سے 70 تک)۔ اسی طرح ساتویں پیریڈ میں گروپ 2 اور گروپ 3 کے درمیان ایکٹینائڈ (Actinide) گروپ کے 14 عناصر ہوتے ہیں(عدد 89 سے 102 تک)۔ چونکہ دوری جدول کی چوڑائی کسی کتاب کے صفحے کی چوڑائی سے عموماً زیادہ ہوتی ہے اس لیے دوری جدول کی چوڑائی کم کرنے کے لیے لینتھینائڈ اور ایکٹینائڈ کو دوری جدول میں سے کاٹ کر دوری جدول کے نیچے دکھایا جاتا ہے تاکہ یہ کتاب کے ایک صفحے میں سما سکے۔

دوری جدول میں بائیں سے دائیں: پہلے s بلاک(گلابی)، اس کے بعد f بلاک(ہرا)، اس کے بعد dبلاک (نیلا) اور آخرمیں p بلاک (پیلا) کے عناصر ہوتے ہیں۔ (سوائے شمصر کے)
یہاں بلاک سے مراد ہے کہ جوہر میں داخل ہونے والا آخری برقیہ کس مدارچے کا حصہ بنا۔

مدار اور مدارچے ترمیم

جوہر کے مداروں ( orbits یا shell) کے نام K سے شروع ہوتے ہیں جیسے K, L, M, N, O, P وغیرہ۔
ہر مدار کے ذیلی مداروں کو مدارچے(orbitals) کہا جاتا ہے۔ یہ چار تک ہو سکتے ہیں۔ ان کے نام s, p, d اور f ہیں۔

  • s مدارچے میں زیادہ سے زیادہ دو برقیوں سما سکتے ہیں۔
  • p مدارچے میں زیادہ سے زیادہ 6 برقیوں سما سکتے ہیں۔
  • d مدارچے میں زیادہ سے زیادہ 10 برقیوں سما سکتے ہیں۔
  • f مدارچے میں زیادہ سے زیادہ 14 برقیوں سما سکتے ہیں۔
  • g مدارچہ ابھی ایجاد نہیں ہوا ہے۔ جب 121 اولیوں والا جوہر ایجاد ہو گا تو برقیہ g مدارچہ میں پہلی دفعہ داخل ہو گا۔ اس مدارچے کی گنجائش 18 برقیہ ہو گی۔
 
پہلے 18 برقیے جوہر کے اندر سب سے اندرونی مداروں میں سما جاتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ جوہر کے اندرونی مدار میں جگہ خالی ہو پھر بھی برقیہ بیرونی کسی مدار میں چلا جائے۔

اگر درجہ حرارت مناسب ہو تو

  • پہلے دور (پیریڈ) کے سارے جوہروں میں صرف ایک مدار ہوتا ہے جسے K shell کہتے ہیں۔ اس میں صرف ایک ہی مدارچہ (ذیلی مدار) ہوتا ہے جس کا نام 1sہوتا ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ دو برقیہ سما سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے پہلے پیریڈ میں صرف دو عنصر ہوتے ہیں یعنی ہائیڈروجن اور شمصر۔
  • دوسرے پیریڈ کے سارے جوہروں میں دو مدار (orbits) ہوتے ہیں جو KاورLشیل ہیں۔ پہلے شیل K میں صرف ایک مدارچہ 1s ہوتا ہے جبکہ دوسرے شیل L میں دو مدارچے 2s اور 2p ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوری جدول کے دوسرے پیریڈ میں کل 8 جوہر ہوتے ہیں۔
  • تیسرے پیریڈ کے سارے جوہروں میں تین مدار (orbits) ہوتے ہیں جو K, L اورMشیل ہیں۔ پہلے شیل K میں صرف ایک مدارچہ 1s ہوتا ہے جبکہ دوسرے شیل L میں دو مدارچے 2s اور 2p ہوتے ہیں اور تیسرے شیل M میں 3 مدارچے 3s, 3p اور 3d ہوتے ہیں جن میں 3d بالکل خالی ہوتا ہے۔ طبیعیات کے اصول بتاتے ہیں کہ 3d میں برقیہ اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ باہر 4s میں دو برقیوں نہ بھر چکے ہوں۔ اسی وجہ سے دوری جدول کے تیسرے پیریڈ میں بھی کل 8 ہی جوہر ہوتے ہیں۔
  • چوتھے پیریڈ کے سارے جوہروں میں چار مدار (orbits) ہوتے ہیں جو K, L, M اورNشیل ہیں۔ پہلے شیل K میں صرف ایک مدارچہ 1s ہوتا ہے جبکہ دوسرے شیل L میں دو مدارچے 2s اور 2p ہوتے ہیں اور تیسرے شیل M میں 3 مدارچے 3s, 3p اور 3d ہوتے ہیں جن میں 3d میں برقیہ کا بھرنا اب ممکن ہو جاتا ہے کیونکہ باہر 4s میں دو برقیوں آ چکے ہوتے ہیں (اشنانصر اور جمصر کے بعد)۔ یعنی جوہر میں داخل ہونے والا اکیسواں برقیہ 3dکے مدار میں داخل ہو سکتا ہے۔ لیکن 4d اور 4fبالکل خالی ہوتے ہیں اسی وجہ سے دوری جدول کے چوتھے پیریڈ میں کل 18 ایٹم ہوتے ہیں۔
  • پانچویں پیریڈ کے سارے جوہروں میں پانچ مدار (orbits) ہوتے ہیں جو K, L, M, N اورOشیل ہیں۔ پانچویں شیل میں پانچ مدارچے ہونے چاہیں لیکن اب تک اتنا بھاری جوہر دریافت نہیں ہوا ہے جس میں پانچواں مدارچہ بھرنا شروع ہو جائے۔ اس وجہ سے پانچویں شیل میں بھی صرف چار یعنی 5s, 5p, 5d اور 5f مدارچے ہی ہوتے ہیں لیکن 4f اور5d اور 5f اب بھی بالکل خالی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوری جدول کے چوتھے پیریڈ میں بھی کل 18 ہی جوہر ہوتے ہیں۔
  • چھٹے پیریڈ کے پہلے دو جوہروں (سیزیئم اور بیریئم) میں چھٹے شیل کا مدارچہ 6s برقیوں سے بھرتا ہے۔ اس کے بعد کے عناصر میں برقیہ اب پہلی دفعہ 4f کے مدارچے بھرنا شروع کرتے ہیں اور اگلے 14 جوہروں میں یہی مدارچہ بھرتا رہتا ہے۔ جن جوہروں میں داخل ہونے والا آخری برقیہ 4f مدارچے میں داخل ہوتا ہے انھیں Lanthenids کہتے ہیں۔ اسی طرح جن جوہروں میں 5f مدارچے میں آخری برقیہ داخل ہوتے ہیں وہ Actinids کہلاتے ہیں۔ چھٹے اور ساتویں پیریڈ میں 32 بتیس جوہر ہوتے ہیں۔
    • اگر کسی بہت بھاری جوہری مرکزے میں یکے بعد دیگرے برقیہ داخل ہوتے چلے جائیں تو شیل کچھ اس ترتیب سے بھرتے جائیں گے ۔(بائیں سے دائیں)

1s, 2s, 2p, 3s, 3p, 4s, 3d, 4p, 5s, 4d, 5p, 6s, 4f, 5d, 6p, 7s, 5f, 6d, 7p, (8s, 5g, 6f, 7d, 8p, and 9s)
ساتویں شیل کا p مدارچہ (7p) جب بھر چکا ہوتا ہے تو جوہر میں کل برقیوں کی تعداد 118 ہو چکی ہوتی ہے۔ اب تک اس سے بڑا جوہر دریافت نہیں ہوا ہے۔

جوہری جسامت ترمیم

ہر پیریڈ میں انتہائی بائیں جانب کا جوہر سب سے ہلکا لیکن سب سے بڑا ہوتا ہے جبکہ اُسی پیریڈ میں انتہائی دائیں جانب کا جوہر سب سے بھاری مگر جسامت میں سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی پیریڈ میں ہلکے ترین سے بھاری ترین جوہر تک کسی نئے مدار (shell) کا اضافہ نہیں ہوتا جو جوہر کو بڑا کر دے۔ جیسے جیسے جوہری عدد کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، مرکز میں اولیوں کی تعداد بڑھنے سے مرکز میں چارج کا بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ چونکہ مرکزے کی کشش بڑھ جاتی ہے تو مداروں میں گردش کرتے برقیوں کو نزدیک کھینچ لیتی ہے اور اس طرح جوہری سائز کم ہوتی جاتی ہے۔
چونکہ دوری جدول میں انتہائی دائیں جانب نوبل فارغیں ہوتی ہیں اس لیے ہر نوبل فارغیں کا جوہر اپنے پیریڈ کا چھوٹا ترین مگر بھاری ترین جوہر ہوتا ہے۔ 4f اور 5fمدارچوں کی وجہ سے اس اصول میں تھوڑی تبدیلی آجاتی ہے۔

 
جوہری عدد اور جوہری جسامت کا تعلق۔

ہر گروپ میں سب سے اوپر کا جوہر سب سے چھوٹا اور سب سے نیچے کا جوہر سب سے بڑا ہوتا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

گروہ 1 2   3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18
Alkali metals Alkaline earth metals Pnicto­gens Chal­co­gens Halo­gens Noble gases
دور

1

ہائیڈروجن
1
ہیلیئم
2
2
لتھیئم
3
بیریلیئم
4
بورون
5
کاربن
6
نائٹروجن
7
آکسیجن
8
فلورین
9
نیون
10
3
سوڈیئم
11
میگنیشیئم
12
ایلومینیئم
13
سلیکون
14
فاسفورس
15
گندھک
16
کلورین
17
آرگون
18
4
پوٹاشیئم
19
کیلشیئم
20
اسکینڈیئم
21
ٹائٹینیئم
22
وینیڈیئم
23
کرومیئم
24
مینگنیز
25
لوہا
26
کوبالٹ
27
نکل
28
تانبا
29
جست
30
گیلیئم
31
جرمینیئم
32
آرسینک
33
سیلینیئم
34
برومین
35
کریپٹون
36
5
روبیڈیئم
37
اسٹرونشیئم
38
یٹریئم
39
زرکونیئم
40
نیوبیئم
41
مولبڈینیئم
42
ٹیکنیشیئم
43
روتھینیئم
44
رہوڈیئم
45
پلاڈیئم
46
چاندی
47
کیڈمیئم
48
انڈیئم
49
قلعئی
50
اینٹیمنی
51
ٹیلیریئم
52
آیوڈین
53
زینون
54
6
سیزیئم
55
بیریئم
56
 
Lute­tium
71
ہافنیئم
72
ٹینٹیلم
73
ٹنگسٹن
74
رہینیئم
75
اوسمیئم
76
اریڈیئم
77
پلاٹینم
78
سونا
79
پارہ
80
تھیلیئم
81
سیسہ
82
بسمتھ
83
پولونیئم
84
ایسٹیٹین
85
ریڈون
86
7
فرینشیئم
87
ریڈیئم
88
 
لورینشیئم
103
ردرفورڈیئم
104
ڈبنیئم
105
سیبورگیئم
106
بوہریئم
107
ہیسیئم
108
میٹنیریئم
109
Darm­stadtium
110
روئنجیئم
111
کوپرنیشیئم
112
Unun­trium
113
Flerov­ium
114
Unun­pentium
115
Liver­morium
116
Unun­septium
117
Unun­octium
118
 
لینتھینم
57
سیریئم
58
Praseo­dymium
59
نیوڈائ میئم
60
پرومیتھیئم
61
سماریئم
62
یوروپیئم
63
گیڈولینیئم
64
ٹربیئم
65
ڈسپروسیئم
66
ہولمیئم
67
اربیئم
68
تھولیئم
69
Ytter­bium
70
 
 
ایکٹینیئم
89
تھوریئم
90
پروٹیکٹینیئم
91
یورینیئم
92
نیپچونیئم
93
پلوٹونیئم
94
امریشیئم
95
کیوریئم
96
برکیلیئم
97
کیلیفورنیئم
98
آئن اسٹائنیئم
99
فرمیئم
100
مینڈیلیویئم
101
نوبیلیئم
102
 

سیاہ=ٹھوس سبز=مائع سرخ=گیس سرمئی=نامعلوم ایٹمی نمبر کا رنگ مادے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے ( 0 °C اور 1 atm)
Primordial From decay Synthetic Border shows natural occurrence of the element
Background color shows subcategory in the metal–metalloid–nonmetal trend:
دھات Metalloid Nonmetal Unknown
chemical
properties
Alkali metal Alkaline earth metal Lan­thanide اکٹینائڈ Transition metal Post-​transition metal Polyatomic nonmetal Diatomic nonmetal نبیل فارغہ