روحّیت یا نَسمِيَت (انگریزی: Animism) ایک قدیم تصوّر ہے جِس کے مُطابِق ايک رُوح (رُوحِ کائنات) غير مادی ہے۔ اس کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اشیاء اور حیونی مظاہر ایک غیر مادی روح سے پیدا کیے گئے ہیں۔روحیت یا اینی مزم کے مطابق ہر چیز، جگہ اور مخلوق میں الگ روح ہوتی ہے۔ اس عقیدے کے مطابق جانور، پتھر، پودے، دریا،موسم، انسانی ہاتھوں کی بنائی اشیاحتیٰ کہ الفاظ بھی آگاہی اور احساس رکھتے ہیں یہ انسانوں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ یہ انسانوں یا دوسروں کے افعال سے خوش اور ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔اینی مسٹ کے عقائد کے مطابق انسانوں اور دیگر وجود کے درمیان گیت، رقص یا تقریب کے ذریعے گفتگو ہو سکتی ہے۔ ان عقائد کے ماننے والوں کے نزدیک ایک شکاری ہرنوں کے ریوڑ میں کسی ایک ہرن کو خود کو قربان کرنے کا کہہ سکتا ہے اور کامیاب شکار کی صورت میں شکار ہرن سے معافی مانگ سکتا ہے۔[1]

روحیت رسوم

روحیت سے مراد اس یقین کے ساتھ پتھروں، درختوں اور جانوروں کی پوجا کرنا کہ یہ اچھی یا بری روح کے مسکن ہیں۔[2][3][4][5] جانوروں کی پوجا ان کے مذہبی عقیدے کا ایک حصہ تھی اور اس کا اشارہ ہاتھی، شیر، بیل، گائے جیسے جانوروں کی مہروں اور تعویذوں پر بنی تصاویر یا پکی مٹی کے ظروف اور پتھر کی شبیہوں سے ملتا ہے۔

کچھ لوگ روحیت کو بلا سوچے سمجھے مبادیاتی مذہب کہتے ہیں لیکن ایسا نہیں، بلکہ یہ ایک قسم کا مبادیاتی فلسفہ ہے۔ ہوفڈنگ کے خیال میں یہ ”انتہائی ابتدائی فلسفہ انسانی ہے۔“ ٹیلر کی نظر میں، ”روحیت مذہب نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد ہے، فلسفۂ مذہب کی ایک قسم ہے۔“[6]

حوالہ جات ترمیم

  1. سیپین۔از یووال نوح ہراری ترجمہ سعید نقوی صفحہ نمبر 50
  2. "Religion and Nature" (PDF) 
  3. Martin D. Stringer (1999)۔ "Rethinking Animism: Thoughts from the Infancy of our Discipline"۔ Journal of the Royal Anthropological Institute۔ 5 (4): 541–56۔ JSTOR 2661147۔ doi:10.2307/2661147 
  4. Alf Hornborg (2006)۔ "Animism, fetishism, and objectivism as strategies for knowing (or not knowing) the world"۔ Ethnos: Journal of Anthropology۔ 71 (1): 21–32۔ doi:10.1080/00141840600603129 
  5. Haught, John F. (1990)۔ What Is Religion? An Introduction۔ Paulist Press۔ صفحہ: 19 
  6. Sir Edward Burnett Tylor (1871)۔ Primitive Culture: Researches Into the Development of Mythology, Philosophy, Religion, Art, and Custom۔ J. Murray۔ صفحہ: 260