دہلی کی مغلیہ سلطنت کے بعد جو نیم آزاد اور خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سے ایک ریاست اودھ بھی تھی۔

अवध रियासत
ریاست اودھ
Oudh State
1732–1858
Flag of Oudh
Flag

اودھ "شمالی ہندوستان 1857" نقشہ
رقبہ 
• 1901
62,072 کلومیٹر2 (23,966 مربع میل)
آبادی 
• 1901
12833077
تاریخ
تاریخ 
• 
1732
• 
1858
ماقبل
مابعد
مغلیہ سلطنت
شمال مغربی صوے
آج یہ اس کا حصہ ہے:اتر پردیش, بھارت
 اس مضمون میں ایسے نسخے سے مواد شامل کیا گیا ہے جو اب دائرہ عام میں ہے: ہیو چشولم، مدیر (1911ء)۔ دائرۃ المعارف بریطانیکا (11ویں ایڈیشن)۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس 

حکمران ترمیم

اس سلطنت کا بانی دربار دہلی کا ایک ایرانی امیر سعادت خاں (1722ء تا 1739ء) تھا جس کو مغل حکمران کی طرف سے برہان الملک کا خطاب ملا تھا۔

اودھ کی ریاست بھی سلطنت دہلی کی بالادستی تسلیم کرتی تھی اور اس کے کئی حکمران بادشاہ دہلی کے عہدیدار تھے۔ سعادت خاں نے کرنال کی جنگ میں اپنے توپخانے کے ساتھ نادر کے مقابلے میں محمد شاہ کی مدد کی تھی، صفدر جنگ (1739ء تا 1754ء) اور شجاع الدولہ (1754ء تا 1775ء) نے وزیر سلطنت کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ 1764ء میں بکسر کی جنگ میں شجاع الدولہ کی شکست کے بعد اودھ کی ریاست انگریزوں کے زیر اثر آگئی لیکن انگریزوں نے اپنی سیاسی مصلحت کی وجہ سے اس کا وجود ختم نہیں کیا۔ شجاع الدولہ کے زمانے میں اودھ کی ریاست اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ 1774ء میں روہیل کھنڈ کے حکمران حافظ رحمت خاں (1749ء تا 1774ء) کو انگریزوں کی مدد سے شکست دینے کے بعد روہیل کھنڈ کا علاقہ بھی اودھ میں شامل ہو گیا اور ریاست کی حدود گورکھ پور سے دریائے جمنا کے کنارے تک پھیل گئیں۔

شجاع الدولہ کے بعد اودھ کی ریاست پر انگریزی دباؤ بڑھ گیا اور نوابان اودھ انگریزوں کے احکام کے آگے بے بس ہو گئے۔ آصف الدولہ (1775ء تا 1797ء) کے زمانے میں جونپور اور غازی پور کے اضلاع پر اور سعادت علی خاں (1798ء تا 1814ء) کے زمانے میں روہیل کھنڈ، کانپور، الہ آباد، اعظم گڑھ اور گورکھ پور کے اضلاع پر انگریز قابض ہو گئے۔ نوابان اودھ اب انگریزوں کی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں رہے تھے لیکن اس حالت میں غازی الدین حیدر (1814ء تا 1827ء) نے نواب کا لقب چھوڑ کر بادشاہ کا لقب اختیار کیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب وہ بادشاہ دہلی کے ماتحت نہیں رہے۔ اس کے بعد سے اودھ کے تمام حکمران بادشاہ کہلائے جانے لگے۔ آخری حکمران واجد علی شاہ (1847ء تا 1856ء) پر انگریزوں نے بد نظمی کا الزام لگا کر تخت سے الگ کر دیا اور 1856ء میں مملکت اودھ کو برطانوی ہند میں ضم کر لیا۔ واجد علی شاہ کی پنشن مقرر کردی گئی اور کلکتہ میں رہنے کی اجازت دے دی جہاں اس کا 1887ء میں انتقال ہو گیا۔ واجد علی شاہ کی جلاوطنی کے بعد اس کی بیگم حضرت محل نے عورت ہوتے ہوئے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور متعدد معرکوں اور 1857 کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بیگم حضرت محل کے بعد اس کا بڑا بیٹا برجیس اودھ کا آخری حکمران بنا۔

لکھنؤ اور اس کا معاشرہ ترمیم

شجاع الدولہ کے زمانے تک اودھ کا دار الحکومت فیض آباد تھا۔ اس کے بیٹے آصف الدولہ نے لکھنؤ کو دار الحکومت بنایا اور آخر تک اس کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ نوابان اودھ کے زمانے میں دار الحکومت لکھنؤ کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ اس دور میں اس شہر نے ایک معمولی قصبے سے بڑھ کر ایک بڑے شہر کی شکل اختیار کرلی۔ نوابوں نے شاندار عمارات بنوائیں جو محلات، باغات، مساجد، امام بارگاہوں اور مقابر پر مشتمل تھیں لیکن ان میں جامع مسجد اور قیصر باغ کے دو مقبروں کے علاوہ دوسری عمارتیں فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ نہیں تھیں۔ بہرحال ان میں سے بیشتر عمارتیں آج بھی لکھنؤ کی زینت ہیں۔ شاہان اودھ کے زمانے میں لکھنؤ کا شمار شمالی ہند میں دہلی اور آگرہ کے بعد تہذیب و شائستگی کا تیسرا بڑا مرکز بن گیا۔

لیکن شاہان اودھ کا یہ دور ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال کی انتہا ہے۔ شائستگی کے نام پر تصنع، بناوٹ اور نمود و نمائش نے عروج پایا۔ سرکاری سرپرستی میں جنسی آوارگی بڑھی۔ طوائفوں اور بازاری عورتوں کو تاریخِ اسلام میں پہلی مرتبہ لکھنؤ میں عزت و احترام کا مقام دیا گیا۔

شاہان اودھ شیعہ مذہب کے پیرو تھے۔ خاص طور پر آصف الدولہ کے بعد سے شیعیت کو سرکاری مذہب کی شکل دے دی گئی۔ اس دور میں مذہب کے نام پر نئے نئے مراسم شروع کیے گئے جو ہندوؤں کی مختلف رسوم کی نقل تھے اور جن کے ذریعے ہمارے معاشرے میں اور شیعی مذہب کی رسومات میں ہندو اثرات داخل ہوئے۔[1]

علم و ادب کی سرپرستی ترمیم

اردو ادب اور شاعری کی نشو و نما میں دہلی کے بعد لکھنؤ کو اہم مقام حاصل ہے۔ دہلی کے زوال خاص طور پر نادر شاہ کے حملے کے بعد سے جب دہلی ہنگاموں کا مرکز بن گیا تو یہاں کے اہلِ فضل و کمال نے روہیل کھنڈ، لکھنؤ، مرشد آباد، حیدر آباد، ارکاٹ اور میسور کا رخ کیا جہاں مقامی مسلمان حکومتوں نے ایک حد تک امن کی فضاء قائم کر رکھی تھی۔ ان تمام شہروں میں لکھنؤ سب سے قریب تھا۔ نوابان اودھ نے بھی ادیبوں اور شعرا کی حوصلہ افزائی کی اس لیے ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد نے لکھنؤ کا ہی رخ کیا جو شاعر اس زمانے میں دہلی اور آگرہ سے لکھنؤ آئے ان میں خان آرزو، سودا، مصحفی، جرات، انشاء اور میر تقی میر کے نام قابل ذکر ہیں۔ مشہور شاعر حیدرعلی آتش اگرچہ فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کے والد دہلی سے نقل مکانی کرکے اودھ آ گئے تھے۔

شاہان اودھ کے زمانے میں مرثیہ نگاری نے خاص طور پر عروج پایا اور اردو زبان کے سب سے بڑے مرثیہ نگار میر انیس اور مرزا سلامت علی دبیر اسی دور سے تعلق رکھتے تھے، اگرچہ ان کی زندگی کا آخری حصہ انگریزی دور میں گذرا۔

دینی تعلیم کے سلسلے میں یہ دور اس وجہ سے قابل ذکر ہے کہ ملا نظام الدین نے تعلیم کا وہ مشہور نصاب اسی زمانے میں ترتیب دیا جو آج بھی درس نظامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ لکھنؤ کا محلہ "فرنگی محل" اس دور میں بر صغیر کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز بن گیا۔ ملا نظام الدین کا انتقال 1748ء کے بعد ہوا۔ اودھ کا قصبہ بلگرام اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں وہاں کی خاک سے کئی قابل ذکر علما اٹھے۔ ان میں غلام علی آزاد اور سید مرتضیٰ زبیدی قابل ذکر ہیں۔

نوابانِ اودھ (لکھنؤ) ترمیم

تصویر لقب نام پیدايش دور حکومت وفات
  سعادت خان برہان الملک میر محمد امین موسوی 1680 1722 - 1739 1739
  صفدر جنگ ابو المنصور محمد مقیم خان 1708 1737 - 1754 1754ء
  شجاع الدولہ جلال الدین حیدر ابو المنصور خان 1732 1753 - 1775 1775
  آصف الدولہ محمد یحی میرزا زمانی 1748 1775 - 1797 1797
  آصف جاہ میرزا وزیر علی خان 1780 1797 - 1798 1817
  یامین الدولہ سعادت علی خان 1752 1798 - 1814 1814
  رفاعت الدولہ ابو المظفر غازی الدین حیدر خان 1769 1814 – 1827 1827
  ناصر الدین حیدر، شاہ جہاں ابو المنصور قطب الدین سلیمان جاہ 1803 1827 – 1837 1837
  ابو الفتح معین الدین محمد علی شاہ 1777 1837 – 1842 1842
  نجم الدولہ، ابو المظفر مصلح الدین امجد علی شاہ 1801 1842 – 1847 1847
  ابو المنصور میرزا واجد علی شاہ 1822 1847 – 1856 1887
  بیگم حضرت محل محمّدی خانم ؟ اپنے بیٹے اور تخت نشیں برجیس قدر کے حق کے لیے انگریزوں کے خلاف شورش کی اور اپنے حامیوں کے حمراہ جنگ آزادی ہند 1857ء لڑی 1879
  برجیس قدر رمضان علی 1845 تاجداری بنیادی طور پر انگریزوں نے ختم کر دی 1893

حوالہ جات ترمیم

  1. ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ، جلد دوم، از ثروت صولت، ناشر اسلامک پبلیکیشنز لاہور