ریاض الرحمان ساغر

پاکستانی فلمی نغمہ نگار اور کہانی نویس

ریاض الرحمان ساغر (انگریزی: Riaz ur Rehman Saghar)، (پیدائش: یکم دسمبر، 1941ء - وفات: یکم جون، 2013ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے شاعر، فلمی نغمہ نگار اور کہانی نویس تھے۔

ریاض الرحمان ساغر
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1 دسمبر 1940ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بٹھنڈہ ،  برطانوی پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 جون 2013ء (73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن اقبال ٹاؤن، لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  نغمہ نگار ،  منظر نویس ،  سفرنامہ نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت روزنامہ نوائے وقت   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

ریاض الرحمان ساغر یکم دسمبر، 1941ء کو مولوی محمد عظیم اور صدیقاں بی بی کے ہاں بھٹنڈہ، ریاست پٹیالہ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے۔[1][2]۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، راستے میں قافلے پر شرپسندوں کے حملے کے دوران ان کے والد جاں بحق ہو گئے۔ مزید برآں ان کا دو سال کا چھوٹا بھائی بھی دورانِ سفر بھوک اور پیاس کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ ریاض الرحمان اور ان کی والدہ لٹے پٹے قافلے کے ہمراہ والٹن کیمپ میں پہنچے، یہاں سے ملتان چلے گئے۔ ریاض الرحمان کی والدہ نے محنت مشقت کر کے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی۔ انھوں نے ملت ہائی اسکول ملتان سے میٹرک اور ایمرسن کالج سے بی اے (فاضل پنجابی) کیا۔ ریاض الرحمان نے نویں کلاس میں ایک انگلش نظم کا بہترین اردو ترجمہ کیا تو ان کے ٹیچر ساغر علی نے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کی بہت تعریف کی اور پوری کلاس کے سامنے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ ریاض الرحمان کو داد پانے کا یہ آسان طریقہ بہت اچھا لگا۔ چنانچہ انھوں نے استاد کے نام ہی کو اپنا تخلص رکھ کر شاعری شروع کر دی۔ ساتھ ہی ساتھ استاد شعرأ کے کلام کا مطالعہ بھی شروع کر دیا۔ یوں کالج پہنچنے تک ساغر کو قدیم و جدید شعرأ کے سینکڑوں اشعار زبانی یاد ہو چکے تھے۔ ایمرسن کالج ملتان میں سیکنڈ ائیر میں طالب علموں کو جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری سنانے پر کالج سے نکال دیا گیا جن میں ریاض الرحمان بھی شامل تھے۔ 1956ء میں لاہور آ گئے اور یہاں فیض صاحب سے ملاقات ہوئی، انھیں اپنا احوال زندگی گوش گزار کیا، انھوں نے شفقت فرماتے ہوئے نوکری پر رکھ لیا، لیکن کچھ عرصہ بعد روزنامہ نوائے وقت میں روزگار کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آخری دم تک جاری رہا۔[1]

فلمی دنیا سے وابستگی ترمیم

نغمہ نگاری ترمیم

ریاض الرحمان کے ایک دوست سلطان عارف نے انھیں فلمی دنیا میں متعارف کرایا۔ ریاض الرحمان ساغر نے سب سے پہلے ماسٹر عنایت حسین کی فلم عالیہ کے لیے نغمات لکھے۔ یہ فلم تو کامیاب نہ ہو سکی لیکن ریاض الرحمان بھرپور طریقے سے فلم انڈسٹری میں داخل ہو گئے۔ معروف شاعر اور نغمہ نگار قتیل شفائی کے ساتھ ان کی دوستی ہو گئی جنھوں نے ریاض الرحمان کا بھرپور ساتھ دیا۔ فلم 'شریک حیات' کے لیے لکھا ہوا نغمہ 'میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے' ریاض الرحمان کے لیے کامیابی کا زینہ ثابت ہوا۔ اس کے بعد فلم 'سماج' کے نغمے 'چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں دنیا کے رسم و رواج توڑ دیں' نے ریاض الرحمان کے لیے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ریاض الرحمٰن ساغر نے فلم، ریڈیو پاکستان، ٹی وی کے لیے تین ہزار کے قریب نغمے تخلیق کیے جنہیں مہدی حسن، نورجہاں، عدنان سمیع، احمد رشدی، مالا، مسعود رانا، استاد نصرت فتح علی خان، حامد علی خاں، اے نیئر، وارث بیگ، انور رفیع، رونالیلیٰ، حمیرا ارشد، حمیرا چنا، ناہید اختر، تصور خانم، ثریا خانم، نصیبو لال سمیت دیگر نمایاں گلوکاروں نے گایا۔ ان کے تخلیق کردہ مقبول نغموں میں 'ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو'، 'بھیگا ہوا موسم پیارا'، 'تیری اونچی شان ہے مولا'، 'کبھی تو نظر ملاؤ'، 'بھیگی بھیگی راتوں میں'، 'تیرے سنگ رہنے کی کھائی ہے قسم'، 'چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں'، 'کچھ دیر تو رک جاؤ برسات کے بہانے'، 'دلی لگی میں ایسی دل کو لگی کہ دل کھو گیا'، 'دیکھا جو چہرہ تیرا موسم بھی پیارا لگا'، 'کل شب دیکھا میں نے چاند جھروکے میں'، 'ہو سکے تو میرا ایک کام کرو'، 'جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم'، 'ساون کی بھیگی راتوں میں'، 'مینوں یاداں تیریاں آؤندیاں نیں'، 'کسی روز ملو ہمیں شام ڈھل'ے شامل ہیں۔[1]

کہانی و مکالمہ نویسی ترمیم

بطور کہانی کار و مکالمہ نویس ریاض الرحمان ساغر نے 100کے قریب فلمیں لکھیں جن میں 'شمع'، 'نوکر'، 'سسرال'، 'عورت ایک پہیلی'، 'سرگم'، 'نذرانہ'، 'بھروسا'، 'نکاح'، 'محبتاں سچیاں' جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔[1]

تصانیف ترمیم

  • وہ کیا دن تھے (سوانح عمری)
  • کیمرا، فلم اور دنیا ( سات ملکوں کا سفر نامہ)
  • لاہور تا بمبئی براستہ دہلی ( بھارت کا سفر نامہ)
  • سرکاری مہمان خانہ ( جیل یاترا کااحوال)
  • میں نے جو گیت لکھے (گیت)
  • چلو چین چلیں (منظوم سفر نامہ)
  • چاند جھروکے میں (شاعری)
  • پیارے سارے گیت ہمارے (شاعری)
  • سر ستارے (شاعری)
  • آنگن آنگن تارے (بچوں کے گیت)

اعزازات ترمیم

ریاض الرحمان ساغر کو نیشنل فلم ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ، کلچرل گریجویٹ ایوارڈ، نگار ایوارڈ، بولان ایوارڈ سمیت مختلف سماجی اور ثقافتی اداروں کی طرف سے ڈیڑھ سو سے زائد انعامات ملے۔[1]

وفات ترمیم

ریاض الرحمان ساغر یکم جون، 2013ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کریم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث "ریاض الرحمان ساغر، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ"۔ 23 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2017 
  2. ^ ا ب ملک کے نامور شاعر و نغمہ نگار ریاض الرحمان ساغر کو دنیا سے گئے ایک برس ہو گیا، روزنامہ ایکسپریس، پاکستان، یکم جون، 2014ء