زاویہ نشینی (انگریزی: Seclusion) ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے کسی الگ تھلک کیا جاتا ہے (جیسا کہ سماج سے) یا پھر ایسی کیفیت کہ خود کوئی دنیا سے ترک تعلق کر لے یا کوئی جگہ ہے جو اس عمل میں معاون ہے (جیسے کہ ویرانہ، جنگل، پہاڑی علاقہ جہاں تک عام لوگوں کی رسائی نہ ہو یا شاذ و نادر ہو)۔ کوئی شخص، جوڑا یا وسیع تر گروہ کسی تنہائی والی جگہ پر نجی وجہ سے، امن کے حصول کے لیے یا خاموشی کے تجربے کے لیے جا سکتا ہے۔ کسی عام شخص کو بہ طور سزا تنہا رہنا پڑ سکتا ہے، جیسا کہ قید تنہائی میں لوگ اسی طرح رہا کرتے ہیں۔

زاویہ نشینی کے لیے دیگر الفاظ خلوت نشینی، گوشہ نشینی، خلوت گزینی اور ایکانتی ہیں۔[1]

تصوف کے لوازم میں زاویہ نشینی ترمیم

مشرقی تصوف کی پرورش خراسان میں ہوئی جو بدھ مت کا بڑا مرکز تھا۔ تصوف خراسان سے عراق اور مصر میں پھیلا۔ بارہویں صدی عیسوی میں صوفیا کے فرقے قادریہ، سہروردیہ، چشتیہ، شاذلیہ اور نقشبندیہ مشہور ہوئے۔ زیادہ تر صوفیا نے جذب و مستی، وجد و حال اور زاویہ نشینی کو صوفی کے لیے لازمی قرار دیا۔ کشف، اشراق، حلول، سریان، تجلی، وصل، جذب، وجد، حال، قال، حسنِ ازل، عشقِ حقیقی، عشقِ مجازی اور حبس دم، تصوف ہی کی اصطلاحیں ہیں۔[2] زاویہ نشینی سے مراد دنیا سے کنارہ کشی اور اللہ کی طلب ہے۔ دنیا کی رغبت اور اس میں حد درجہ انجذاب لوگوں کو خالق کائنات سے حقیقی تعلق اور ان کی ذات اور صفات کو سمجھنے اور محسوس کرنے میں مانع تصور کیا گیا ہے۔ دیگر تصورات جیسے کہ کشف، اشراق، حلول، سریان، تجلی، وصل، جذب، وجد، حال، قال، حسنِ ازل، عشقِ حقیقی، عشقِ مجازی اور حبس دم اسی کیفیت اور ان ہی انہماک کے سبب صوفیائے کرام کو محسوس ہو سکتی ہیں یا پھر ان کا عقیدہ صوفیائے کرام کے پاس زیادہ پایہ رسوخ کو پہنچا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم