(انگریزی: Zeus؛ یونانی: Δίας ،Ζεύς ،Zeús)

زیوس
God of the sky, lightning, thunder, law, order, and justice
The Jupiter de Smyrne, discovered in Smyrna in 1680
ذاتی معلومات
والدینکرونس و ریہہ
بہن بھائیہیسٹیہ، Hades، ہیرہ، پوسائڈن، Demeter، Chiron
رومی مساویجیوپیٹر
اولمپیا میں اپنے دربار میں گدّی نشین، زیوس

زیوس، یونانی دیومالائی دیوتاؤں میں سب سے عظیم دیوتا تھا۔ اساتیر میں اِسے دیوتاؤں کا بادشاہ تصّور کیا جاتا تھا۔ یہ یونانی دیوتاؤں میں سب سے طاقتور اور کوہ اولمپس کا حاکم تھا۔ اِس کے قبضے میں دیگر قُوّتیں تھیں جن میں سرِفہرست، طوفان اور آسمانی بجلی تھیں۔ زیوس کو اکثر بجلی کی کڑک، بلوط، سانڈ اور چیل سے رمز بند کیا جاتا ہے۔

زیوس کرونس اور ریہہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ اِس کی شریکِ حیات ہیرہ تھی۔ تاہم، کُچھ عرصہ کے لیے ڈایون بھی اِس کی ہمسفر رہی۔ زیوس کے دو بھائی تھے جن کا نام پوسائڈن اور ہادس تھا۔ اس کے ،علاوہ اِس کی تین بہنیں تھیں جن کا نام ہیسٹیہ، ڈیمیٹر اور ہیرہ تھا۔

زندگی ترمیم

پیدائش ترمیم

 
استنبول کے ایک عجائب گھر میں زیوس کا مجسمہ

جب کرونس نے گایا اور یورینس کی یہ پیشین گوئی سُنی کہ اُس کی اولاد میں سے ایک، مُستقبل میں، اُس کے زوال کا باعِث بنے گا تو اُس نے یہ تہ کر لیا کہ وہ اپنے سب بچوں کو پیدا ہوتے ساتھ ہی کھا جائے گا۔ جوں ہی اُس کے ہاں کوئی اولاد پیدا ہوتی تو کرونس فوراً اُس طفل کو اپنے ہلک میں اتار دیتا۔ چُونکہ کرونس خُود ایک لافانی دیوتا تھا، اُس کے بچے اُس کے پیٹ میں ہی بڑھتے چلے گئے۔ تاہم، اِن بچوں کے نصیب میں ہمیشگی کی قید ہی تھی۔

کرونس پہلے ہی اپنے پانچ بچے کھا چُکا تھا جن میں تین لڑکیاں (ہیسٹیہ، ڈیمیٹر اور ہیرہ) اور دو لڑکے (ہادس اور پوسائڈن)، شامل تھے۔ جب کرونس کی بیوی ریہہ اپنے چھٹے بچے کو کوکھ میں لیے حاملہ تھی تو اُس نے اِس نازائیدہ بچے پر ترس کھایا۔ وہ نہيں چاہتی تھی کہ اِس بچے کا بھی وہ ہی انجام ہو جو باقی بچوں کا ہوا تھا۔ وہ جلد از جلد گایا کے در جا پہنچی اور اُس کے ساتھ مل کر اپنے ہونے والے بچے کو کرونس کی پہنچ سے دور رکھنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ بچا اور کوئی نہیں بلکہ زیوس تھا۔

ریہہ نے زیوس کو کریٹ کی ریاست میں موجود کوہ ایدا کے ایک غار میں جنم دیا۔ بدقسمتی یہ تھی کہ وہ کرونس کے پاس خالی ہاتھ واپس نہ جا سکتی تھی، کیونکہ کرونس اپنی چھٹی اولاد کو کھانے کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔ بیچ راستے میں، ریہہ نے ایک پتھر اٹھایا اور اِسے کپڑے میں لپیٹ کر کرونس کو یوں پیش کیا جیسے وہ اُس کی نومولود اولاد ہو۔ کرونس نے نہ ہی دیکھا اور نہ ہی کُچھ جانچا، بس جھٹ سے بچا سمجھ کر پتھر ہی نگل گیا۔ یوں، نہ صرف زیوس کی جان بچ گئی بلکہ آئندہ کی پیشین گوئی بھی ناگذیر ہوتی چلی گئی۔

پرورش ترمیم

 
زیوس کی گرد، ڈھالیں اور بَرچھیاں بجاتے ہوئے کورہی سپاہی۔

ایدا کے غار کے گرد و نواح میں ریہہ کے پوجنے والے چند سپاہیوں نے یہ عزم کیا کہ وہ ننھے زیوس کی پرورش کریں گے۔ ریہہ کے اِن پَيرو مُریدوں کو کورہی کے اسمِ گرامی سے جانا جاتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ زیوس کو کرونس کی نظر سے چھپایا گیا ہے اِس لیے جب زیوس روتا تھا تب یہ سپاہی اپنی ڈھالیں اور بَرچھیاں بجا بجا کر ناچا کرتے تھے۔ وہ یہ اِس لیے کرتے تھے تاکہ بچے کی پُکار کرونس کے کانوں تک نہ پہنچے۔ زیوس نے اِنہی سپاہیوں میں پرورش پا کر لڑنا سیکھا اور جنگی مہارت میں خوب پزیرائی پائی۔

انتقامی سازش ترمیم

 
ایک برطانوی عجائب گھر میں زیوس کا مجسمہ

زیوس کو اِس بات کا خُوب ادراک تھا کہ بڑے ہو کر اِس نے اپنے ظالم باپ سے انتقام لینا ہے۔ کوہِ اولمپس پر زیوس نے اپنی اِس سازش کی بُنیاد رکھی۔ زیوس کو یہ بھی علم تھا کہ وہ اکیلا کرونس سے بدلہ نہیں لے سکتا۔ وہ اپنی اِس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے آمادہ رضا کار ڈھونڈتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اِس کی مدد اگر کوئی کر سکتا تھا تو وہ تھے اِس کے پانچ بہن بھائی جو فی الحال اِس کے باپ کے پیٹ میں قید تھے۔ چنانچہ اِس نے انھیں اپنے باپ کی قید سے چھُڑانے کا بھی عزم کیا۔ اِس نے سوچا کے اگر وہ اپنے بہن بھائیوں کو آزاد کر لے گا تو وہ قِسمت پلٹ سکتا ہے اور کرونس کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے زیوس نے ایک عقِیق دَوا تیار کی جو اِس نے چُپکے سے اپنے باپ کی شرابِ عسل میں گھول دی۔

کرونس نے جُوں ہی وہ شراب اپنے گلے میں اُتاری، تُوں ہی اُس کی طبیعت بے ضابطہ طور سے خراب ہوتی چلی گئی۔ کرونس اُلٹیاں کرنے لگا اور اپنی قَے میں پہلے تو وہ پتھر اُگلا جو اُس کی بیوی نے اُسے کھِلایا تھا اور پھر یک بہ یک اپنے پانچوں بچے اُگل ڈالے۔ اپنی ہاضومی قید سے آزاد ہوتے ساتھ ہی زیوس کے پانچوں بہن بھائی اِس کے پیچھے ہو دیے۔ زیوس کو اپنے بہن بھائیوں کی مدد تو اب حاصل تھی لیکن اپنے باپ اور دیگر تیتانی دیوتاؤں سے جنگ کرنے کے لیے یہ سب بھی ناکافی تھے۔ اپنے اِس معرکے کو سفل کرنے کے لیے اِسے دیگر طاقتور ساتھیوں کی ضرورت تھی۔

یورینس کے بھُولے سپُوت ترمیم

آئندہ جنگ میں ساتھیوں کو ڈھونڈنے میں زیوس کی مدد میں گایا نے ایک تجویز پیش کی۔ گایا نے زیوس کو یورینس کے بھُولے سپُوتوں کا بتایا جن میں صدبازو ہکاتونکائر اور یکچشم سائکلاپس شامل تھے۔ پیدہ ہوتے ساتھ ہی اِن کی بدصُورتی دیکھ کر یورینس نے انھیں یونانی جہنم کے نچلے ترین درجے یعنی طرطروس میں ایک اژدہا کے ذیرِ نظر قید کر رکھا تھا۔ زیوس نے عہد کیا کہ وہ یورینس کے اِن بھُولے سپُوتوں کو رِہا کرائے گا۔

زیوس بہادری سے طرطروس میں اُتر آیا اور نگہبان اژدہا سے لڑ کر ہکاتونکائر اور سائکلاپسوں کو چھُڑانے میں کامیاب ہوا۔ زیوس گُفت و شُنِید کا بھی ماہر تھا اور یہ انھیں آسانی سے اپنی جنگی کاوشوں میں شریک ہونے کے لیے مائل کر آیا۔ اِن بھُولے تیتانوں نے زیوس کے عدل کی داد دیتے ہوئے، عُمر بھر کے لیے اِس کی تابعداری اور پیروی کا حق بجانب اعلان کر دیا۔ شُکرانے کے طور پر سائکلاپسوں نے زیوس کو ایک تحفہ دیا – آسمانی بجلی پر کمان۔ اب زیوس کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی وقت آسمان سے کڑکتی بجلی اپنے دُشمنوں پر گِرا سکتا تھا۔

تیتانی دیوتاؤں کے خلاف جنگ ترمیم

زیوس اور اِس کے پَيرو کوہِ اولمپس پر ڈیرہ جما کر بیٹھ گئے، جبکہ کُچھ ہی فاصلے پر کوہِ اوتھریس کے مقام پر تیتانی دیوتاؤں کا ڈیرہ تھا۔ اِن دو پہاڑوں کے درمیان تھیسیلی کی وادی تھی۔ یہ وادی بعد از یونانی اساطیر میں اِس عظیم ترین جنگ کا مرکز بنی۔ کوہِ اولمپس کی چوٹی پر کھڑے ہو کر زیوس نے اپنی بجلی سے دوسرے پہاڑ پر اپنا قہر ڈھانا شروع کر دیا اور میدان میں اِس کے بہن بھائی، ہکاتونکائر اور سائکلاپسوں کے ہمراہ، نِکل پڑے۔

ہکاتونکائر پہاڑوں سے چٹانیں اُکھاڑ اُکھاڑ کر تیتانوں کی سِمت پھینکتے رہے اور تیتان ہر ضرب کو برداشت کرتے چلے گئے۔ ہر طرف ناگہانی آفت کا سا ماحول تھا۔ ماہرِ اساطیر کا ماننا ہے کہ یہ واقعات درحقیقت ایک اصل قدرتی آفت کی عکس بینی کرتے ہیں اور شاید اِن مناظر کو ہی اساطیر میں اِس جنگ کی نسبت محفوظ کیا گیا ہو۔ تقریباً 3600 سال قبل، یونان میں سینتورینی جَزيرَہ ایک طاقتور آتِش فِشاں کی زد میں آیا تھا اور نتیجتاً پُورے یونان میں پہاڑ ہِل کر ڈھیر ہو گئے تھے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اساطیر میں اِس عظیم آفت کی عکس بینی کی گئی ہو۔

طائفون کا قہر ترمیم

تیتانی دیوتاؤں کو مات کھاتے دیکھ کر کرونس نے آخری سَمہے طرطروس کی گہرایوں سے ایک خوفناک دَرِندَے کو طلب کیا؛ اِس دَرِندَے کا نام طائفون تھا اور اِس کی گردن پر اژدہا نما 100 سَر تھے۔ یہ کئی پروں کی مدد سے اُڑتا تھا اور اِس کے دھڑ کا نچلا حصّہ سانپ کی دُم کی مانِند اُسطوانی تھا۔ طائفون کا قہر دیکھ کر اولمپوی جَنگ جُو ارتداد میں بھاگ گئے لیکن زیوس نے اپنا میدان نہ چوڑا اور اِس دَرِندَے سے لڑتا رہا۔ آخر کار، زیوس نے ایک ہی ضرب میں بیک وقت 100 بجلیوں کے شولے برسا ڈالے جس سے طائفون کا ہر سَر تباہ ہو گیا اور یہ دَرِندَہ ڈھیر ہو گیا۔

بچّے ترمیم

زیوس کے بایئس بچّے تھے۔

زیوس کی اساطیری پہچان ترمیم

زیرِ مختص کاہن گاہیں ترمیم

قدیم یونان میں دیگر دیوتاؤں کے لیے مختص کردہ کاہن گاہوں میں اکثر کاہن گاہیں یا تو اپالو یا تھیمس کے لیے پائی جاتی ہیں۔ البتہ، چند کاہن گاہیں ایسی بھی تھیں جو زیوس کی نذر مختص کی گئی تھیں۔ اِن چند معروف کاہن گاہوں کا ذکر مندرجہ ذیل ملاحضہ کیجیے۔

 
”زیوس آمون“ کے تجسُم میں زیوس کے سر پر آمون-را کی مانند مینڈھے کے سینگ واضح طور پر دِکھتے ہیں۔

ڈوڈونا کی کاہن گاہ ترمیم

ڈوڈونا کی کاہن گاہ، زیوس کے ایک ایسے مخصُوص مَسلک کی پیروی کرتی تھی، جس میں زیوس کی شریکِ حیات ہیرہ کو نہیں بلکہ ڈایون کو سمجھا جاتا تھا۔ اِس کاہن گاہ کی بُنیاد تقریباً 750 قبل مسیح کے لگ بھگ ایک شاہ بلوط کے گرد و نوا میں رکھی گئی تھی۔ شروعات میں، یہاں پر رہائش پزیر کاہن صرف مرد ہی تھے جو ننگے پاؤں، بلوط کے پتوں کو روندتے ہوئے، غیب دانی اور پیشین گوئیاں کیا کرتے تھے۔ البتہ، ہیرودوت نے جب ڈوڈونا کے متعلق لکھا تو بتایا کہ وہاں کوئی مرد کاہن نہ دِکھتا تھا بلکہ اِن کی جگہ تب زنانہ کاہناہیں ہی کاہن گاہ کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں۔

سیوا کی کاہن گاہ ترمیم

مصر کے علاقے، واحہِ سیوا، میں موجود آمون دیوتا کے لیے مُختص کردہ ایک کاہن گاہ تھی۔ مصر کی حدود میں جہاں یونانی دیومالائی کا اتنا رسوخ نہ تھا، وہاں یونانی لوگ اکثر مصری دیوتاؤں میں اپنے دیوتا ڈھونڈا کرتے تھے۔ آمون دیوتا میں انھیں زیوس دِکھتا تھا اور اِس تجسُم کو وہ ”زیوس آمون“ بُلاتے تھے۔ ہیرودوت کی سرگزشت میں اِس جگہ کا ذکر ملتا ہے – وہ بتاتا ہے کہ یونان اور پارس میں جنگ چھِڑنے کے بعد اکثر یونانی اِس کاہن گاہ میں مشاورت کے لیے آیا کرتے تھے۔ زیوس آمون کی اِس تجسیم کا اتنا پرچار ہو چلا تھا کہ سپارٹا میں بھی اِسے پوجنے کے لیے ایک مندر تعمیر کیا گیا۔

حوالہ جات ترمیم