ستگھرہ:اوکاڑہ کے نزدیک دریائے راوی کے کنارے پر ایک گاؤں ستگھرہ آباد ہے۔ ستگھرہ کی وجہ شہرت عظیم بلوچ سردار میر چاکررند کا قلعہ ستگھرہ اور مقبرہ ستگھرہ ہے

ستگھرہ کے معنی ترمیم

میر چاکر بلوچستان سے ہجرت کر کے پنجاب کے ایک اوکاں نامی جنگل (موجودہ اوکاڑہ) سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر آ کر آباد ہوئے۔ اس ہجرت میں بلوچوں کے سات خاندان بھی ان کے ساتھ شریک تھے اور سات خاندانوں کے پڑاؤ کی نسبت سے اس کا نام ستگھرہ رکھا۔ ستگھرہ کا ایک اور مطلب سنسکرت کے لفظ ’’سیتہ‘‘ سے لیا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہے ’’سچ‘‘ سنسکرت میں ستگھرہ کا مطلب ہوا سچائی کی سرزمین۔ یہ جگہ اوکاڑہ سے 15کلومیٹر جانب شمال اور رینالہ خورد سے 9کلومیٹر جانب مغرب میں واقع ہے۔اور اس کے آس پاس 14 جیڈی تحصیلدار اور دربار بالا پیر مدوکا چک قاری خوشی محمد ہمارے مشہور قاری ہیں

سات گھر ترمیم

وہ سات گھر جو یہاں آباد ہوئے وہ یہ ہیں 1۔ ستگھرہ 2۔ سید والا 3۔ کلیانوالا 4۔ دھولری 5۔ کمالیہ 6۔ چیچہ وطنی 7۔ ہڑپہ[1]

دیگر معروف شخصیات ترمیم

سلسلہ قادریہ کے مشہور ولی اللہ سید محمد غوث بالا پیرامیر سائیں ستگھرہ تشریف لائے اور گنجی بار کے قبائل کو اسلام سے روشناس کرایا اور اسی مقام ستگھرہ پر ہی سندھ کے مشہور صوفی شاعر اور بزرگ شاہ عبد الطیف بھٹائی اورداؤد بندگی نے بالا پیر سائیں کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کے مرید مشہور ہوئے۔ آپ کچھ عرصہ لاہور میں رہے جہاں ان کے پوتے شاہ چراغ لاہور جن کا مقام اولیائے لاہور میں بلند ہے اور ان کا مزار لاہور ہائیکورٹ میں واقع ہے۔ ان ہی دنوں آپ نے لاہور انار کلی بازار میں دھنی رام روڈ پر ایک مسجد تعمیر کروائی چونکہ آپ سرکار محمد غوث بالا پیر کی اولاد آ ج بھی ستگھرہ کے نواح میں بستی کیسہ (بستی پیراں دی) اور شیخو شریف میں آباد ہے۔ آپ کی وجہ سے گیلانی خاندان ستگھرہ میں آباد ہوا۔ بالا پیر کے مزار کی تعمیر خانقاہ 1936ءبمطابق1355ہجری بالا پیر سید محمد غوث ملحقہ سرائے جدیدہ ہوئی۔ جن میں بودیانوالی سرکار اور وقت کے قلندر نور حسن گیلانی، سید علی بہادر گیلانی اور سید خادم حسین گیلانی کے مزار اسی قصبہ میں ہیں غازی علم دین شہید جس نے شاتم رسولﷺ پروفیسر راج پال کو جہنم واصل کیا تھا ان کے ابٓاؤ اجداد بھی ستگھرہ کے رہائشی تھے۔ ان کے والد لاہور کام کاج کے لیے جایا کرتے تھے۔ ان کی لاہور میں فرنیچر کی دوکا ن تھی اور وہ مستریوں کا کام کرتے تھے۔ ولی میں بھی ایک ستگھرہ بازار ہے جو اسی قصبہ سے منسوب ہے۔ رنجیت سنگھ نے جب پنجاب پر حکومت کی تو اس نے جگہ جگہ پر قلعے اور چھاؤنیاں تعمیر کیں۔ ستگھرہ کے مقام پر بھی اس نے ایک خوبصورت قلعہ تعمیر کیا جو آج بھی شان وشوکت کا نمونہ ہے۔ یہ قلعہ رنجیت سنگھ کے قریبی رشتہ دار سردار قمر سنگھ کی ملکیت تھا۔ میر چاکر رند کا قیمتی پتھروں سے بنا مقبرہ بھی سکوں نے قلعہ میں شامل کر لیا اور اس کے پتھر اکھاڑ لیے اور گبند برباد کر دیا۔ ہر سال ستگھرہ میں میر چاکر فاﺅنڈیشن کے تحت سالانہ کنونشن ہوتا ہے۔ جس میں مشہور فوجی جرنیل کو بلوچ رہنما جو میر چاکر کرکے جد امجد بھی ہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی(مرحوم) جب وزیر اعلیٰ بلوچستان تھے اپنے دادا کے مزار پر آئے تھے۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. "Mir Chakkarــــــ میر چاکر ــــــــ - Pegham - Seekho Aur Sikhao!"۔ 07 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2016 
  2. http://www.apkibat.com/post_news.php?id=56