سعید بن جبیر تابعین کے ائمہ کبار میں تھے۔

سعید بن جبیر
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 665ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 714ء (48–49 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
واسط  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سر قلم  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل حجاج بن یوسف  ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل عربی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P172) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فقیہ،  محدث،  مفسر قرآن  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث،  فقہ،  تفسیر قرآن  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

سعید نام، ابو عبد اللہ کنیت، بنی والبہ بن حارث اسدی کے غلام تھے۔ اس نسبت سے وہ والبی کہلاتے تھے، ان کا شمار ان تابعین میں ہے، جو علم وعمل کے مجمع البحرین تھے۔

فضل وکمال ترمیم

سعید کا آغاز اگرچہ غلامی سے ہوا، لیکن آگے چل کر وہ اقلیم علم کے تاجدار بنے، حافظ ذہبی انھیں علمائے اعلام میں لکھتے ہیں [4] امام نووی کا بیان ہے کہ سعیدتفسیر، حدیث، فقہ، عبادت اورزہد وورع جملہ کمالات میں وہ کبار ائمہ اورسرکردہ تابعین میں تھے۔[5]

تعلیم ترمیم

سعید نے گو اس زمانہ میں ہوش سنبھالا، جب اکابر صحابہ کی بڑی تعداد اٹھ چکی تھی، پھر بھی باقیات صالحات میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید خدری، ابوہریرہ، عائشہ صدیقہ اورانس بن مالک وغیرہ علمائے صحابہ موجود تھے، سعید بن جبیران کے فیضان علم سے پورے طور سے مستفید ہوئے [6]خیر الامۃ عبد اللہ بن عباس کے خرمن کمال سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ خوشہ چینی کی تھی۔[7]

عبد اللہ بن عباسؓ کا حلقہ درس اتنا وسیع اورجامع تھا کہ اس میں قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، فرائض، ادب وانشاء اورشعر و شاعری جملہ علوم وفنون کا دریا بہتا تھا۔ [8] سعید بن جبیر اس بحربے کراں سے زیادہ سیراب ہوئے، وہ نہایت پابندی سے اس حلقہ میں شریک ہوتے تھے ان کے تعلیم حاصل کرنے کا یہ طریقہ تھا کہ باہر کے سائلین جو سوالات کرتے تھے اورجو مسائل پوچھتے تھے اورابن عباس ان کے جو جوابات دیتے تھے، سعید خاموشی کے ساتھ ان کو سنا کرتے تھے اورکبھی کبھی خود بھی کچھ پوچھ لیتے تھے، ان سوالات میں حدیثیں بھی ہوتی تھیں اور فقہ کے مسائل بھی ہوتے تھے، لیکن انھیں قلمبند کرنے کے بارہ میں ابن عباسؓ کی ممانعت تھی، اس لیے کچھ دنوں تک ابن جبیر بغیر لکھے ہوئے زبانی یاد کر لیا کرتے تھے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھر لکھنے کی اجازت مل گئی تھی؛چنانچہ انھوں نے لکھنا شروع کر دیا تھا، بعض بعض دن ا س کثرت سے مسائل پیش ہوئے تھے کہ لکھتے لکھتے ابن جبیر کی بیاض پر ہوجاتی تھی اور انھیں کپڑوں اور ہتھیاروں پر لکھنے کی نوبت آجاتی تھی کبھی ایسا بھی اتفاق ہوتا کہ کوئی سائل نہ آتا اس دن ایک حدیث بھی لکھنے کی نوبت نہ آتی تھی اور یوں ہی لوٹ آتے تھے۔[9]

عبد اللہ بن عباسؓ کے بعد انھوں نے ابن عمرؓ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا تھا ان سے استفادہ کا سلسلہ ابن جبیر کے قیام کوفہ تک جب کہ وہ خود صاحب افتا ہو گئے تھے قائم رہا ؛چنانچہ ان کا خود بیان ہے کہ جب کسی مسئلہ میں علمائے کوفہ میں اختلاف ہوتا تھا، تو میں اسے لکھ لیتا تھا اورابن عمرؓ سے پوچھتا تھا۔[10] ان بزرگوں کے فیض نے انھیں قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ اورفرائض وغیرہ جملہ مذہبی علوم کا دریا بنادیا تھا۔[11]

قرأت ترمیم

قرآن کے نہایت اچھے قاری تھے، قرأت ترجیع کے ساتھ کرتے تھے، لیکن گاکر قرآن پڑھنا سخت ناپسند کرتے تھے [12]تمام مشہور قرأتوں کے عالم تھے، معمول تھا کہ ایک شب کو عبد اللہ بن مسعودؓ کی قرأت کے مطابق قرآن سناتے تھے، ایک شب کو زید بن ثابت کی قرأت کے مطابق، اسی طریقہ سے وہ ہر شب کو باری باری سے تمام مشہور قاریوں کی قرأت سناتے تھے۔[13]

تفسیر ترمیم

قرأت اورتفسیر دونوں فنون کی تعلیم انھوں نے اس فن کے امام حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے حاصل کی تھی [14] آیات قرآنی کے شانِ نزول اوران کی تفسیر وتاویل پر پوری نظر تھی جب ان کے سامنے قرآن کی کوئی آیت پڑھی جاتی تھی تو وہ اس کا پورا مالہ وماعلیہ بتادیتے تھے، ابو یونس قزی کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ سعید بن جبیر کے سامنے یہ آیت:

الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ مگر نا تواں مردوں عورتوں اورلڑکوں میں سے۔

پڑھی توانہوں نے کہا، اس میں جن کا تذکرہ ہے وہ مکہ کے کچھ مظلوم تھے، میں نے کہا میں ایسے ہی لوگوں (یعنی حجاج کے ستم رسیدہ) کے پاس سے آرہا ہوں، سعید نے کہا بھتیجے ہم لوگوں نے اس کے خلاف بڑی کوشش کی لیکن کیا کیا جائے خدا کی مرضی یہی ہے۔[15]

اعمش روایت کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر ان ارضی واسعۃ کی تفسیر میں بیان کرتے تھے کہ اس سے مرادیہ ہے کہ جب اس میں گناہ کیا جائے تو اس سے نکل جاؤ۔[16]

تفسیر کا درس ترمیم

ابن جبیر تفسیر کا درس بھی دیتے تھے، وقاء بن ایاس بیان کرتے ہیں کہ عرزہ تفسیر کی کتاب (غالباً کاپی اوربیاض) اور دوات لے کرابن جبیر کے پاس آتے جاتے تھے [17] لیکن بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تفسیر کا قلمبند کرنا ناپسند کرتے تھے؛چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنے لیے آپ سے تفسیر قلمبند کرنے کی درخواست کی، آپ نے فرمایا تفسیر قلمبند کرنے کے مقابلہ میں مجھے یہ پسند ہے کہ میرا ایک پہلو مفلوج ہوجائے۔[18]

حدیث ترمیم

حدیث کے اکابر حفاظ میں تھے، صحابہ میں انھوں نے ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیرؓ، انس بن مالکؓ، ابوسعید خدری، ابو موسیٰ اشعری، ابوہریرہؓ، ابو مسعود بدریؓ، عائشہ صدیقہؓ اورعدی بن حاتم وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا [19] حضرت عبد اللہ بن عباس کے حلقہ درس سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ مستفید ہوئے تھے، ان کے علمی استعداد کی وجہ سے عبد اللہ بن عباس ان پر بڑی شفقت کرتے تھے اور امتحاناً ان سے حدیثیں سنتے تھے، مجاہد کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن عباسؓ نے ابن جبیر سے کہا کہ حدیثیں سناؤ، انھوں نے عرض کیا آپ کی موجودگی میں حدیث سناؤں، ابن عباسؓ نے کہا کہ یہ بھی خدا کی نعمت ہے کہ تم میرے سامنے حدیث بیان کرو، اگر صحیح بیان کروگے تو فبہا اوراگر کہیں غلطی ہوگی تو میں اس کی تصحیح کردوں گا۔[20]

بنی وداعہ کے موذن کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ ابن عباس کے پاس گیا وہ حریر کے گدے پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے اورسعید ان کے پیروں کے پاس بیٹھے تھے، ابن عباس ان سے کہہ رہے تھے کہ تم نے مجھ سے بہت سی حدیثیں حفظ کی ہیں، دیکھوں ان کو کیسے روایت کرتے ہو۔[21]

ان کی اس توجہ نے ابن جبیر کو حفاظ حدیث کا امام اورسرگروہ بنادیا تھا، ان کی مرویات کا بڑا حصہ ابن عباسؓ کی احادیث پر مشتمل ہے، اس سے حدیث میں ان کی درجہ کا اندازہ ہوجاتا تھا۔

فقہ ترمیم

فقہا کی جماعت میں بھی انھیں امتیازی درجہ حاصل تھا [22] اس فن کی تعلیم بھی انھوں نے ابن عباس ہی سے حاصل کی تھی اوراس میں ان کو اتنا کمال حاصل تھا کہ مرکز فقہ کوفہ کے صاحب افتا تابعین میں ہو گئے تھے [23] کوفہ کے عہدہ قضاء پر بھی کچھ دنوں تک ممتاز رہے، پھر ابوہریرہ ابن موسیٰ اشعری قاضی کوفہ کے مشیر ہو گئے تھے [24] مرکز علم وافتاء مکہ میں جب آنا ہوتا تھا، تو یہاں بھی افتا کا سلسلہ جاری رہتا تھا[25] حضرت عبد اللہ بن عباس کو ان کے فتوؤں پر اتنا اعتماد تھا کہ اگر کوفہ کا کوئی آدمی آپ سے فتویٰ پوچھنے کے لیے آتا، تو آپ اس سے فرماتے کیا سعید بن جبیر تمھارے یہاں نہیں ہیں [26] مسائل طلاق کے خصوصیت کے ساتھ بڑے عالم تھے، کان اعلم التابعین بالطلاق سعید بن جبیر[27]

فرائض ترمیم

ریاضی کے بڑے ماہر تھے اس لیے فرائض (وراثت) میں خاص ملکہ تھا، اکابر صحابہ فرائض کے سائلین کو ان کے پاس بھیجتے تھے، ایک مرتبہ ابن عمرؓ کے پاس فرائض کا ایک سائل آیا آپ نے اس سے کہا ابن جبیر کے پاس جاؤ وہ مجھ سے زیادہ حساب جانتے ہیں، وہ تم کو وہی بتائیں گے جو فرض مقرر ہے [28]جب انھیں مدینہ جانے کا اتفاق ہوتا تھا، تو علمائے مدینہ ان سے فرائض سیکھتے تھے، امام زین العابدین کا بیان ہے کہ سعید بن جبیر جب ہمارے یہاں سے گزرتے تھے، توہم لوگ ان سے فرائض اوران باتوں کو پوچھتے تھے جن سے خدا ہم کو فائدہ پہنچاتا تھا۔[29]

جامعیت ترمیم

غرض سعید بن جبیر کی ذات جملہ علوم وفنون کی جامع تھی، جوکمالات دوسرے علما میں فرداً فرداً تھے، وہ ان کی ذات میں تنہا مجتمع تھے، خصیف کا بیان ہے کہ مسائل طلاق کے سب سے بڑے عالم سعید بن مسیب تھے، حج کے عطاء تھے، حلال وحرام کے طاؤس تھے اور تفسیر کے مجاہد تھے اوران سب کی جامع سعید بن جبیر کی ذا ت تھی۔[30]

وہ علم کا ایسا سرچشمہ تھے جس کی اس عہد کے تمام علما کو احتیاج تھی، میمون بن مہران کابیان ہے کہ سعید نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہ تھا جو ان کے علم کا محتاج نہ رہا ہو۔[31]

اشاعت علم ترمیم

علم وفن کا یہ ذخیرہ انھوں نے اپنی ذات تک محدود نہ رکھا؛بلکہ جہاں تک ہو سکا اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا، آپ کے بعض کوتاہ نظر اصحاب آپ کو حدیث بیان کرنے پر ملامت کرتے تھے، آپ انھیں جواب دیتے، مجھے تم سے اورتمہارے ساتھیوں سے حدیث بیان کرنا زیادہ پسند ہے، بہ نسبت اس کے کہ میں اسے اپنی قبر میں ساتھ لے جاؤں۔[32]

تلامذہ ترمیم

آپ کے تلامذہ کا دائرہ نہایت وسیع تھا، بعضوں کے نام یہ ہیں، آپ کے صاحبزادگان عبد الملک اورعبداللہ، یعلی بن حکیم، یعلی بن مسلم، ابواسحق سبیعی، ابوالزبیر مکی، آدم بن سلیمان، اشعث بن ابی الشعثاء، ذربن عبد اللہ مرہبی، سالم الافطس سلمہ بن کہیل، طلحہ بن مصرف اورعطاء بن سائب وغیرہ[33]

ناقدروں سے بخل ترمیم

لیکن یہ علمی فیاضی انہی لوگوں کے لیے تھی، جو اس کے مرتبہ شناس اورقدردان ہوتے تھے ورنہ نا اہلوں سے وہ اسے چھپاتے تھے، محمد بن حبیب کا بیان ہے کہ سعید بن جبیر کے اصفہان کے قیام کے زمانہ میں جب لوگ ان سے حدیثیں پوچھتے تو وہ نہ بتاتے، لیکن جب کوفہ آئے، توفیض جاری کر دیا، لوگوں نے پوچھا ابو محمد کیا بات ہے، اصفہان میں تو آپ حدیثیں نہیں بیان کرتے تھے اور کوفہ میں بیان کرتے ہیں، جواب دیا اپنی متاع وہاں پیش کرو جہاں اس کے قدر شناس ہوں۔[34]

مذہبی کمالات ترمیم

مذہبی کمالات میں بھی تابعین میں ابن جبیر کا درجہ نہایت بلند تھا وہ عبادت وریاضت اورزہد وورع کا مجسم پیکر تھے۔

سوزِ قلب وخشیت الہیٰ ترمیم

ابن جبیر کا دل اتنا پر سوز تھا اوران پر خشیت الہیٰ کا اتنا غلبہ تھا کہ ہر وقت ان کی آنکھیں اشکبار رہتی تھیں، پر دہ شب کی تاریکی میں جو ان کی عبادت اوررازونیاز کا خاص وقت تھا، زار زار روتے تھے، روتے روتے ان کی آنکھوں کی بینائی کم ہو گئی تھی اوران سے پانی بہنے لگا تھا۔[35]

علم و فن کے جامع ترمیم

سعید بن جبیر کی ذات جملہ علوم وفنون کی جامع تھی، جوکمالات دوسرے علما میں فرداً فرداً تھے، وہ ان کی ذات میں تنہا مجتمع تھے، خصیف کا بیان ہے کہ مسائل طلاق کے سب سے بڑے عالم سعید بن مسیب تھے، حج کے عطاء تھے، حلال وحرام کے طاؤس تھے اور تفسیر کے مجاہد تھے اوران سب کی جامع سعید بن جبیر کی ذا ت تھی۔[36] وہ علم کا ایسا سرچشمہ تھے جس کی اس عہد کے تمام علما کو احتیاج تھی، میمون بن مہران کابیان ہے کہ سعید نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہ تھا جو ان کے علم کا محتاج نہ رہا ہو۔

شہادت ترمیم

حجاج بن پوسف نے ان کو ظلما شہید کروایا تھا اور پھر خود ان کی بدعا سے چند دن کے اندر مر گیا تھا، وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے آپکو شہید کروایا گیا تھا، تفصیلی مضمون پڑھیے سعید بن جبیر کی شہادت

امام احمد بن حنبل نے فرمایا: سعید بن جبیر شہید کر دیے گئے، لیکن روئے زمین کا ہر باشندہ ان کے علم کا محتاج ہے۔ (البدایہ والتاریخ صفحہ 38 جلد 6، وسیر اعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 330،المنتظم فی التاریخ الملوک الامم 7/7)

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/94370 — بنام: سعيد بن جبير الأسدي، 665‒714
  2. Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/94370 — بنام: سعيد بن جبير الأسدي، 665‒714 — عنوان : Саид ибн Джубайр
  3. https://web.archive.org/web/20170722142151/http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=1022&idto=1022&bk_no=59&ID=1156 — مصنف: ابن کثیر
  4. تذکرہ الحفاظ :حافظ ذہبی1/65
  5. تہذیب الاسماء، جلد 1ول، ق1،ص 216
  6. تہذیب التہذیب:4/11
  7. (ابن خلکان: ص1/204)
  8. (مستدرک حاکم:3/538)
  9. (ابن سعد:6/179)
  10. (ایضاً:180)
  11. (تہذیب اسماء، ج 1، ق1، ص216)
  12. (ابن سعد:6/181)
  13. (ابن خلکان:1/405)
  14. (ایضاً:204)
  15. (ابن سعد:183)
  16. (ایضاً)
  17. (ایضاً:186)
  18. (ابن خلکان:1/205)
  19. (تہذیب التہذیب :4/11)
  20. (ابن سعد:6/179)
  21. (ایضاً)
  22. (تہذیب الاسماء، جلد1، ق1، ص216)
  23. (ایضاً)
  24. (ابن خلکان :1/204)
  25. (ابن سعد:6/184)
  26. (تہذیب الاسماء، ق اول، ص:216)
  27. (شذرات الذہب:1/108)
  28. (ابن سعد:180)
  29. (ابن سعد:6180)
  30. (ابن خلکان :1/205)
  31. (ابن سعد:7/186)
  32. (ابن سعد:6/186)
  33. (تہذیب التہذیب:4/12)
  34. (ابن خلکان: 1/204)
  35. (ابن سعد:6/181)
  36. ابن خلکان :1/305